• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں صبحیں پہلے اذانوں سےگونجتی ہیں پھر آنے والی نسلیں بستے اٹھائے اپنی درسگاہوں کی طرف ہنستی مسکراتی رواں دواں نظر آتی ہیں۔ بہت سے شہروں میں سورج کو طلوع ہوتے دیکھا ہے ۔بشارتوں کا لمحہ۔ نویدیں ۔آگے بڑھنے کا عزم۔

آج کل تو اتنا خلفشار ہے ۔انتشار ہے۔میڈیا یہ تو خبر دے رہا ہے کہ فلاں شخص اتنے برس تک اپنے عہدے پر برقرار رہے گا۔ لیکن یہ تسلی کوئی نہیں دے رہا۔ کوئی آئینی ترمیم یہ حد بندی نہیں کرتی ہے کہ غربت کی لکیر کے نیچے سے اتنے فیصد کتنے سال بعد اوپر آ جائیں گے ۔ڈالر واپس 60 روپے تک کس سن میں آ جائے گا۔ نوجوان کس سن تک بے روزگار نہیں رہیں گے۔ پاکستان کی برآمدات کس سن تک درآمدات سے زیادہ ہو جائیں گی ۔ریکوڈک سے سونا بہر صورت کتنے سال بعد برآمد ہونا شروع ہو جائے گا ۔گندم ،چاول، مکئی ،گنا کی فی ایکڑ پیداوار کس سال تک دگنی ہو جائے گی۔ دریاؤں کا پانی کتنے سال بعد بجلی ہماری ضرورت سے زیادہ دے رہا ہوگا ۔ہماری آبادی کی شرح افزائش کتنے برس بعد ہماری معیشت کے مطابق ہوگی۔ تعلیم، صحت کے لیے پاکستان کے اشاریے مطلوبہ معیار تک کب پہنچیں گے۔

میڈیا ،وکلا ،ارکان اسمبلی دل میں سوچتے تو ہوں گے کہ ہماری سخت جان قوم کس طرح زندگی کی گاڑی کھینچ رہی ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں کے لیڈر اور ارکان گھر سے دفتر تک کسی وڈیرے کے اوطاق تک جاتے دیکھتےتو ہوں گے کہ جھونپڑیوں، 80 گز، 120 گز، 240 گز کے گھروں میں دن کیسے گزرتا ہے۔ رات کتنے اندھیرے لے کر حملہ آور ہوتی ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے رہتے لوگ کس طرح بچوں کے لیے دودھ، اسکول فیس، بزرگوں کی دواؤں کا انتظام کرتے ہیں ۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر اکٹھے ہونے ان سے تبادلہ خیال کا دن۔ کئی نسلوں کا آپس میں رابطہ۔ ماضی حال اور مستقبل کا ربط ۔ نماز عصر کے بعد محلے داری ۔

مجھے تو ہر صبح بہت ہی امید دلاتی ہے۔ ہماری مسجد کے مؤذن موٹر سائیکل پر اپنے ننھے منوں کو اسکول چھوڑنے جارہے ہوتے ہیں۔ قاری صاحب کی بیٹیاں بستے لٹکائے والد کے موٹر سائیکل پر ترتیب سے بیٹھ رہی ہوتی ہیں۔ کوئی بڑی وین بچوں بچیوں کو اسکول لے جاتے پارک کے سامنے رکتی ہے۔ کسی یونیورسٹی کی لمبی بس نوجوانوں کو لیے منزل کی طرف روانہ ہوتی ہے ۔دودھ والا موٹر سائیکل پر محلے والوں میں تھیلیوں میں انرجی بانٹ رہا ہے۔ ایک سوزوکی ڈبل روٹی کے بنڈل لیے گزر رہی ہے۔ ریڑھیاں حلیم بریانی چاٹ لیے نہ جانے کتنے میل کا سفر طے کر کے اپنے اپنے ٹھیوں تک پہنچ رہی ہیں ۔فوڈ پانڈا کی جیکٹ پہنے بزرگ نوجوان آرڈر لئے گھر تلاش کر رہے ہیں۔

میں نے ایسی پرعزم صبحیں بلوچستان کے دور افتادہ شہروں،کے پی کے کی وادیوں، پنجاب کے میدانی علاقوں،سندھ کے ریگزاروں،آزاد جموں کشمیر کی سرسبز بلندیوں میں دیکھی ہیں۔ گلگت بلتستان میں دیکھنے کی آرزو ہے۔ 25 کروڑ میں سے اکثریت ہر قسم کی اذیت سہنے کے باوجود اپنے مستقبل سے مایوس نہیں ہے۔ اسے کسی احتساب کا خوف نہیں ہے ۔حالانکہ پولیس رینجرز اور دوسرے سرکاری اداروں کا سارا دباؤ یہی برداشت کرتی ہے۔ تھانہ کچہری حوالات جیلوں میں انہی کی تعداد زیادہ ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں بھی سب سے زیادہ بینچوں بستروں پر یہی نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ پھر بھی اپنے شہر اپنے ملک کی ترقی چاہتے ہیں۔ انتہائی غربت اور تنگدستی کے باوجود اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر ایک کارآمد شہری بنانا چاہتے ہیں۔ انڈس ہسپتال، سٹیزن فاؤنڈیشن جیسے ادارے ان کے لیے تعلیم اور تندرستی کے دروازے کھولتے ہیں ۔

سینٹ ،قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں ،بلدیاتی کونسلیں اور ایسے ادارے کروڑوں اربوں روپے خرچ کر کے انتہائی مہنگی کرسیاں ایئر کنڈیشنڈ ایوان اس لیے فراہم کرتے ہیں کہ ان کروڑوں ہم وطنوں کی زندگی کو آسان بنا سکیں۔ جتنے لوگ بھی منتخب ہوتے ہیں کسی بھی فارم کے تحت۔ وہ اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں پکے راستے بنائیں۔ روزگار کے مواقع تخلیق کریں۔ ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر جمہوری نظام قائم ہے تو ہر فرد کے لیے آسانیاں بھی ان منتخب نمائندوں کا فرض ہے۔

مدتوں بعد بدھ کو ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جس کے لیے ہماری اور آپ کی آنکھیں ترس گئی تھیں۔ پشاور میں خیبر پختون خوا کی اسمبلی میں ایک غیر رسمی اجلاس ہو رہا ہے۔ جسے امن جرگہ کا نام دیا گیا ہے ۔پشتونوں میں جرگے صدیوں سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتے آرہے ہیں ۔مت پوچھئے کہ مجھے کتنی خوشی ہو رہی ہے کہ گورنر بھی موجود ہیں ۔اپوزیشن لیڈر، سابق وزرائے اعلیٰ،سابق گورنر، پی ٹی آئی تو حکومت میں ہے۔ اسمبلی میں اکثریت رکھتی ہے۔ مگر اس کی دعوت پر مخالف پارٹیاں بھی تمتماتے چہروں کے ساتھ اور انتہائی سنجیدگی سے امن کے لیے تجاویز دے رہی ہیں۔ ایک دوسرے پر طنز نہیںماضی کے گلے شکوے نہیں۔عزم یہ ہے کہ صوبے میں ملک میں امن قائم ہو ۔دہشت گردی کا خاتمہ ہو ۔وفاقی حکومت افغان خارجہ پالیسی کے پی کے کی مشاورت سے بنائے۔ بہت عرصے بعد پاکستانی سیاسی قیادت کو سویلینز کو اس طرح سنجیدگی سے اتفاق رائے کا اظہار کرتے دیکھ رہے ہیں۔ پاک افغان سرحد کے تمام تاریخی تجارتی راستوں کو کھولا جائے۔ سب نظر آرہے ہیں۔ گورنر وزیراعلیٰ جنید اکبر سابق وزیراعلیٰ آفتاب شیر پاؤ کچھ علیل دکھائی دے رہے ہیں گفتگو کرتے ہوئے بار بار پانی پی رہے ہیں۔ سراج الحق ، اسد قیصر،میاں افتخار حسین جن کی امن کے لیے قربانی لازوال ہے۔ مولانا عطاء الرحمن، اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد زاہد خان جو پہلے اے این پی کے سرکردہ سنجیدہ لیڈر تھے اب نون لیگ میں ہیں۔

کے پی کے میں سب جماعتوں کو سلام ۔آفرین !کہ انہوں نے اکٹھے بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور اسمبلی کے ایوان کو عزت بخشی ۔نفسا نفسی کے دور میں ان صاحبان کا پر عزم اتحاد۔ پھر انہوں نے ان تجاویز کو ایک ورق پر منتقل بھی کیا ۔سب نے اس پر دستخط بھی کیے ۔عین ان دنوں میں جب کہ ادارے ملک کو تقسیم در تقسیم کر رہے ہیں ۔عین اسی وقت قومی اسمبلی میں 27 ویں ترمیم منظور ہو رہی ہے ۔پی ٹی آئی اجلاس کا بائیکاٹ کر رہی ہے۔ اس وقت کے پی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی دعوت پر ساری سیاسی جماعتوں کے صوبائی نمائندے موجود ہیں۔ میری تو بڑی تمنا رہی ہے کہ 23 مارچ کو ساری قومی سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہر سال مینار پاکستان پر اکٹھے نظر آئیں ۔14 اگست کو قومی اسمبلی کی عمارت کے سامنے صدر،وزیراعظم، اپوزیشن لیڈر، چیف جسٹس، آرمی چیف ، وزراے اعلیٰ بھی قومی ترانہ پڑھ رہے ہوں ۔ایسے اجتماعات سے قوم کو 1940 کی 23 مارچ اور 1947کی 14 اگست کا پیغام ملے گا۔

بدھ 12 نومبر کے اس اکٹھ نے ثابت کیا کہ کے پی کے لیڈر کے پی کے عوام سے دور نہیں ہیں ان کا درد رکھتے ہیں کیا پنجاب ،سندھ، بلوچستان، آزاد جموں کشمیر ،گلگت بلتستان کےوزرائے اعلیٰ بھی اپنی اسمبلیوں میں ایسا اتحاد کسی دن دکھائیں گے؟

تازہ ترین