ہم رات اڑھائی بجے ہوٹل کے کمرے سے نکلے تھے اور اِس وقت صبح کے چھ بج رہے تھے۔ خانہ کعبہ کے قریب اسی طرح رونق تھی اور صفا مروہ کے درمیان بھی لوگوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ سعی کا رُکن حضرت ہاجرہ کی سُنّت میں کیا جاتا ہے جب وہ پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان اضطراب کی کیفیت میں دوڑیں کیونکہ اُن کا بچہ (حضرت اسماعیل) پیاس کی شدت سے بلک رہا تھا۔ ہم مسلمان آج کل جو سعی کرتے ہیں وہ درونِ خانہ ٹھنڈے ماحول میں ہوتی ہے جہاں سے صفا مروہ کی پہاڑیاں بھی دکھائی نہیں دیتیں، یہ سعی اُس کا عشر عشیر بھی نہیں جو بی بی ہاجرہ نے کی تھی۔ یہی سوچ کر ایک سوال دماغ میں آیا کہ اگر مکّہ کو اُسی شکل میں رہنے دیا جاتا جو چودہ سو سال پہلے تھی تو کیا زیادہ بہتر نہیں تھا؟ یہ بلند و بالا عمارتیں، شاپنگ مالز، ہوٹل، ریستوران، کیفے۔۔۔یہ سب کچھ تو نیویارک، لندن، شنگھائی میں اِس سے کہیں بہتر ہیں، مکّہ میں جو ہے وہ دنیا میں کہیں اور نہیں۔ پورے شہر کو چودہ سو سال پرانی حالت میں محفوظ رکھنا تو یقیناً نا ممکن تھا، البتہ یہ ہو سکتا تھا کہ ویٹیکن سٹی کی طرح حرم پاک کی حدود کو اصل حالت میں رکھا جاتا، اُن حدود میں نہ کوئی ہوٹل ہوتا اور نہ کوئی برینڈڈ اسٹور، زائرین کی سواری حدود سے باہر روک لی جاتی اور پھر وہ پیدل اندر آتے، خانہ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی اسی طرح کی جاتی جیسی چودہ سو سال پہلے کی جاتی تھی۔ لیکن یہ سب کچھ کہنا آسان ہے اور کرنا مشکل۔ وجہ اُس کی یہ ہے کہ مکّہ ایک عجیب و غریب شہر ہے، دنیا کے دو ارب مسلمانوں کی تاریخ اِس اکیلے شہر میں بکھری ہوئی ہے، ہر سال دنیا بھر سے تقریباً دو کروڑ مسلمان حج اور عمرے کے لیے مکّہ آتے ہیں۔ اِن کروڑوں زائرین کی رہائش، کھانے پینے اور دیگر لوازمات کے لیے ضروری تھا کہ اِس شہر میں ہوٹل تعمیر کیے جاتے، ٹرینیں چلائی جاتیں، ریستوران بنائے جاتے، دکانیں کھولی جاتیں، مگر یہ ضروری نہیں تھا کہ یہ سب کچھ حرم پاک سے چند قدم کے فاصلے پر ہی ہوتا۔ا سٹار بکس اور ڈنکن ڈونٹس اگر حرم سے پانچ کلومیٹر پرے ہوتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔
یہ تمام باتیں اپنی جگہ، مگر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہر ماہ لاکھوں زائرین کا انتظام و انصرام کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں اور بہرحال یہ کام سعودی حکومت خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہی ہے۔ حرم کے آس پاس جو ہوٹل ہیں اُن کی آمدن وقف ہے اور وہ محکمہ اوقاف کے کھاتے میں جاتی ہے۔ البتہ ایک بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ پہلی مرتبہ آنے والوں کی رہنمائی کے لیے کہیں ہدایات نہیں ملتیں۔ دنیا بھر میں ایسی جگہوں پر جا بجا رہنمائی کے نشانات ہوتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ فلاں جگہ کہاں ہے، کتنی دور ہے، وہاں کیسے جایا جا سکتا ہے، داخلے کے اوقات کیا ہیں، وغیرہ۔ حرم میں داخلی دروازوں پر نمبر ضرور لگے ہوئے تھے، صفا مروہ کے نشانات بھی لگے دیکھے، مگر یہ ناکافی تھا۔ جگہ جگہ پوچھ کر آگے جانا پڑتا تھا، پہلی مرتبہ خاصی مشکل ہوئی مگر دو تین مرتبہ جانے کے بعد سمجھ آ گئی۔ اصولاً، حرم سے متعلق ہدایت نامہ ہوٹل کے ہر کمرے میں ہونا چاہیے اور رہنمائی کے نشانات ایسے واضح ہونے چاہئیں کہ کسی سے پوچھنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
اگلا دن زیارات کے لیے مختص تھا۔ عرفات، منٰی اور مزدلفہ کا میدان دیکھا، مجھے حج کی سعادت تو نہیں ملی مگر یہ میدان دیکھ کر اندازہ ضرور ہو گیا کہ حج کے دنوں میں یہاں کیا سماں ہوتا ہوگا، اور پھر وہی بات ذہن میں آئی کہ لاکھوں مسلمانوں کے حج کے بندوبست کے لیے ضروری تھا کہ مکّہ کو جدید خطوط پر استوار کیا جاتا، تاہم اِس ناگُزیر جدیدیت کے باوجود مکّہ مکرّمہ کی قدیم اور تاریخی شکل کو برقرار رکھا جا سکتا تھا۔ غارِ ثور اور غارِ حِرا بھی دیکھے۔ انہی گناہ گار آنکھوں سے۔ میرے تخیّل میں چودہ سو سال پہلے کا مکّہ گھوم گیا، چند ہزار نفوس پر مشتمل ایک شہر جس کے چاروں طرف ریگستان اور خشک پہاڑ ہیں۔ اُس شہر میں، رات کے پچھلے پہر، حضرت محمدﷺغارِ حِرا میں جاتے ہیں اور کئی راتیں وہاں گزارتے ہیں، بالآخر اُس جگہ ان پر وحی نازل ہوتی ہے، جبرائیل ہم کلام ہوتے ہیں اور اللّٰہ انہیں اپنا آخری نبی بناتا ہے۔ دنیا کی تاریخ اُس کے بعد وہ نہیں رہتی جو آپﷺ سے پہلے تھی۔ میں نے غارِ حِرا پر نظر ڈالی، بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔ کیسے کوئی شخص چودہ سو سال پہلے کے مکّہ میں رات گئے تنِ تنہا اِس پہاڑ پر چڑھ سکتا ہے، اور یہی نہیں بلکہ کئی راتیں اُس چھوٹے سے غار میں گزار سکتا ہے، کیا یہ بات بذات خود کسی معجزے سے کم ہے! میرے بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ جاوید غامدی صاحب غارِ حرا کے واقعے کی صحت سے انکار کرتے ہیں اور اسے محض افسانہ قرار دیتے ہیں، اپنا استدلال وہ قرآن کی سورہ النجم سے دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اُس سورہ میں اللّٰہ نے خود غارِ حرا کے واقعے کی تردید کر دی ہے۔ اِس فقیر کی رائے میں ایسا نہیں ہے، پوری سورہ النجم پڑھ لیں اُس میں بیان ہوا ہے کہ کیسے آپﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی، وہ صرف پہلی وحی کا بیان نہیں ہے۔ اگر سورہ النجم میں غارِ حرا کا ذکر نہیں تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ غارِ حرا کا وجود ہی نہیں، خود غامدی صاحب بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ قرآن میں ہر بات کا تفصیلی ذکر ہونا ضروری نہیں۔ خیر، یہ موقع اِس بحث کا نہیں، پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
بندہ عمرہ کرنے آئے اور مدینے حاضری نہ دے، یہ ممکن نہیں، سو ہم نے مکّے سے مدینے کا سفر ٹرین کے ذریعے طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تیز رفتار ٹرین تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگتی ہوئی سوا دو گھنٹے میں مدینہ پہنچا دیتی ہے۔ مکّہ کے بعد جب ٹرین جدہ سے آگے نکلی تو منظر بدل گیا، میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا، تا حدِّ نگاہ ریت ہی ریت تھی اور ٹرین لق و دق صحرا کے درمیان دوڑتی چلی جا رہی تھی، راستے میں نہ سبزہ تھا اور نہ ہی کوئی نخلستان۔ ہم ائیر کنڈیشنڈ بوگی میں بیٹھے تھے۔ اِس سفر کے دوران میں یہی سوچتا رہا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مکّے سے ہجرت فرمائی ہو گی تو کیا عالم ہوگا۔ تین دن آپﷺ نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے ساتھ غار ثور میں گزارے اور پھر اگلے آٹھ سے دس دنوں میں شدید گرم موسم میں عرب کے صحرا کو چیرتے ہوئے مدینہ پہنچے جہاں قبا کے مقام پر اہل مدینہ نے آپﷺ کا استقبال کیا۔ باقی تاریخ ہے۔ (جاری ہے)