• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ٹولنٹن مارکیٹ کاسارا علاقہ جوبلی ٹاؤن بھی کہلاتا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی کے موقع پر اس علاقے کو آباد کیا گیا تھا عجائب گھر کا کیوئیٹر این سی اے کا پرنسپل ہوتا تھا اور عجائب گھر کا کنٹرول این سی اے کے پاس تھا پھر کسی نے اس کو این سی اے سے علیحدہ کر دیا حالانکہ عجائب گھر وزیر خاں کی بارہ دری جو کالج کے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ ایجوکیشنل آڈیٹوریم اس کالج کے پاس ہونے چاہئیں ۔جس خوبصورتی اور بہتر انداز میں عجائب گھر کو اس کالج کے لوگ چلا سکتے ہیں کوئی اور نہیں بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ ٹولنٹن مارکیٹ کے پیچھے والا علاقہ اور گول باغ( ناصر باغ بینڈ اسٹینڈ گارڈن) یہ این سی اے کو ملنا چاہیے اور اس سارے علاقے کو فنون لطیفہ ٹاؤن کا نام دینا چاہیے ۔این سی اے کے قریب گورنمنٹ کالج ،پنجاب یونیورسٹی، اورینٹل کالج ،وزیر خان کی بارہ دری، پنجاب پبلک لائبریری اور ٹاؤن ہال ہیں۔ اس سارے علاقے کو صرف فنون لطیفہ کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کر دینا چاہیے ابھی حال ہی میں ٹاؤن ہال میں کئی قدیم عمارتوں کو گرا دیا گیا ہے اس پر پھر بات کریں گے ۔میو ا سکول آف انڈسٹریل آرٹس( این سی اے) ایک تاریخی اور قدیم تعلیمی ادارہ ہے ہمارے ملک میں ایک مدت تک فنون لطیفہ کی تعلیم اور اس شعبے کی کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی حالانکہ نیشنل کالج آف آرٹس کی فنون لطیفہ کے حوالے سے بہت زیادہ خدمات ہیں۔ انگریزوں نے 1875 میو ا سکول آف آرٹس کا قیام اس حوالے سے کیا تھا کہ لاہور کے لوگوں کو عملی فنون اور دستکاری کی تعلیم و تربیت دی جائے ہم سمجھتے ہیں کہ انگریزوں نے بر صغیر خصوصاََ لاہور میں ایک ایسا ادارہ بنا کر واقعی بہت بڑا احسان کیا ہے ۔ وہ اسٹوڈنٹس جو فن کا رانہ ذوق رکھتے ہیں اور جن کے اندر کے چھپے ہوئے فن کو سامنے لانے کی ضرورت ہے ان کے لیے یہ ادارہ واقعی ایک بہترین درسگاہ ہے ۔کسی زمانے میں یہاں پر لکڑی کا بہت خوبصورت کام استاد محمد علی سکھایا کرتے تھے قیام پاکستان کے بعد بھی کئی برس تک اس ادارے کا نام میو ا سکول آف آرٹس ہی رہا۔ 1958 میں میو ا سکول آف آرٹس کو باقاعدہ کالج کا درجہ دیکر نیشنل کالج آف آرٹس کا نام دے دیا گیا۔میو ا سکول آف آرٹس بر صغیر کا قدیم ترین اور پاکستان کا پہلا فنون لطیفہ کی تعلیم کا ادارہ ہے۔ ہر طالب علم کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے اس کالج میں داخلہ ملے کبھی یہاں میٹرک کی بنیاد پر داخلہ ملا کرتا تھا اب ایف اے یا ایف ایس سی کی بنیاد پر تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو کے ذریعے داخلہ ملتا ہے اور ٹیسٹ بھی اچھا خاصا مشکل ہوتا ہے ۔بعض حوالوں سے میو ا سکول آف انڈسٹریل آرٹس کا آغاز 1875میں منہنگٹری ہال (جہاں کبھی جم خانہ کلب تھا اور اب قائداعظم لائبریری ہے) سے ہوا اور اس وقت اس کا نام کبھی پنجاب ا سکول آف آرٹس بھی رہا ہے۔ہم این سی اے کے موجودہ ہر دل عزیز وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مرتضی جعفری کو کہیں گے کہ وہ حکومت سے بات کریں کہ اس سارے تاریخی علاقے کو شہر فنون لطیفہ کا نام دےکر ایک ایسا علاقہ بنا دیں جو پورے ایشیا میں اپنی مثال آپ ہو بلکہ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ این سی اے کو گول باغ بھی دے دیا جائے اور اس کے ساتھ گورنمنٹ کالج( اب یونیورسٹی) کو گول کا کچھ حصہ دے کر درمیان میں سے سڑک ختم کر کے ایک پورا کیمپس آباد کر دیا جائے۔ گورنمنٹ کالج اور پنجاب یونیورسٹی دونوں تعلیمی اداروں میں فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں آرکیٹکچر ڈیپارٹمنٹ بھی ہے یقین کریں اگر حکومت اس پر کام کرے تو پورا علاقہ انتہائی خوبصورت فنون لطیفہ کا شہر بن جائے گا ۔پنجاب یونیورسٹی ،اورینٹل کالج، گورنمنٹ کالج، نیشنل کالج آف آرٹس ،وزیر خان کی بارہ دری، ٹاؤن ہال لاہور میوزیم اور ٹولنٹن مارکیٹ یہ ساری عمارات قدیم اور فن تعمیر کا لازوال نمونہ ہیں۔ اس سارے علاقے کوایک بڑے کیمپس میں کر دینا چاہیے تو اس علاقے کا حسن دوبالاہو جائے گا۔ یقین کریں فن تعمیر کے لحاظ سے این سی اے بہت خوبصورت عمارت کا حامل ہے ڈیڑھ سو برس گزرنے کے باوجود اس کے فرش خصوصا وائس چانسلر آفس کا لال فرش آج بھی بڑا خوبصورت ہے ۔کالج کی لائبریری کی چھت اور کئی دیگر کمروں کی چھتیں جو کہ لکڑی اور لوہے کے بالوں کی ہیں آج بھی اس طرح ہیں جیسے ابھی تعمیر کی گئی ہوں ۔گوروں کے زمانے میں پرنسپل( اب وائس چانسلر )کے دفتر کی کھڑکیاں کھلی رکھی جاتی تھیں کالج کے لکڑی کے دروازے اور لکڑی کی سیڑھیاں آج بھی پوری طرح مضبوطی کے ساتھ موجود ہیں۔بھائی رام سنگھ نے لاہور میں کئی خوبصورت عمارات تعمیر کی تھیں جن میں لاہور میوزیم ایچی سن کالج (چیف کالج) اور میو ا سکول آف آرٹس موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس شامل ہیں ۔میو ا سکول آف آرٹس کی بنیاد کینز نگٹن کے ماڈل پر لاہور میوزیم جسے کبھی سینٹرل میوزیم بھی کہا جاتا تھا پر رکھی گئی تھی بنیادی طور پر اس ادارے کا مقصد پنجاب کی دستکاریوں اور فنون لطیفہ کو فروغ دینا تھا۔ اور ماہر کاریگر پیدا کرنا اور انہیں تربیت دینا بھی تھا تاکہ وہ پنجاب میں صنعت و حرفت کے تقاضوں کو پورا کر سکیں ۔یہ بات بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ میو اسکول آف آرٹس کے ذمہ پنجاب میں دیگر دستکاری کے اداروں کی نگرانی بھی شامل تھی۔ اس بنا پر اس اسکول کا پنجاب کے تمام صنعت و حرفت کے اداروں کے ساتھ رابطہ رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ادارے میں جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی نئے مضامین شروع کیے گئے جن میں آرکیٹکچرل ڈرافٹنگ و ڈیزائننگ لکڑی کا کام، دھات سازی، سرا مکس ،کتاب سازی، لکڑی پر نقش نگار سکھانا شامل تھے۔ اس تاریخی ادارے سے کئی نابغہ روزگار شخصیات وابستہ رہیں ان میں شاکرعلی ، استاد اللہ بخش ،پیر علی دادا ،پروفیسر خالد اقبال، ڈاکٹر اعجاز انور، ڈاکٹر اعجاز الحسن نے نئی ایچر کی بنیاد اس ادارے میں رکھی۔

(جاری ہے)

تازہ ترین