دل کھویا کھویا سا اور گُم سُم ہے، غم کا موسم ہے اور اُداسی ہی اُداسی ہے، میں ہی نہیں سارا راول دیس بلکہ پورا پوٹھوہار سوگوار ہے۔ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سینٹ میں پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان الحق صدیقی پیر کی رات اللّٰہ کو پیارے ہو گئے۔ اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن۔ بلاشبہ ایک عہد تمام ہوا، وہ اہل قلم کی آبرو تھے ہماری ادبی اور تہذیبی شناخت تھے۔ شعر و نثر، بالخصوص جہانِ کالم کا چہرہ تھے، خوشبودار نثر کا ایک جیّد حوالہ تھے، ان کی شخصی جہات اس کے سوا ہیں۔ خداوندِ کریم انہیں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔ وہ سانس کی بیماری میں مبتلا تھے اور دو ہفتے سے وفاقی دارالحکومت کے نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے جس کی وجہ سے ستائیسویں ترمیم کے موقع پر اپنا ووٹ بھی نہ دے سکے۔ وہ پارٹی کے فکری اور سیاسی رہنما تصور کیے جاتے تھے اور سینٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے۔ مرحوم معروف کالم نگار اور ممتاز دانشور، ادیب و شاعر تھے۔ عرفان صدیقی سابق وزیراعظم و صدر مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف کے قریبی ساتھی تھے اور ہر اچھے بُرے وقت میں ساتھ رہے۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں گرفتار کیے گئے اور جیل میں بھی رہے۔ منگل کی سہ پہر چار بجے عرفان صدیقی کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور ایچ الیون قبرستان اسلام آباد میں تدفین کی گئی۔ آج اُن کے چاہنے والے کہہ رہے ہیں شاہد رشید کے الفاظ میں۔
رنگ روٹھ ہی گئے ترے جانے کے بعد
ہم تو ٹوٹ ہی گئے ترے جانے کے بعد
فورم آف انفارمیشن گروپ کے سیکرٹریز نے اسلام آباد کلب میں اجلاس کے دوران سینیٹر عرفان صدیقی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا اور فاتحہ خوانی فرمائی۔ ریٹائرڈ سیکرٹریز نے مرحوم کو ان کی قومی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’عرفان صدیقی نامور ماہر تعلیم، تجربہ کار پارلیمنٹیرین اور پرنٹ میڈیا کی ممتاز شخصیت تھے، صحافت اور قومی امور میں ان کی گراں قدر خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔ ان کے بصیرت انگیز نقطہ نظر اور علمی کام نے پاکستان کی فکری اور سیاسی گفتگو کو تقویت بخشی۔ مرحوم نے ہمارے اس فورم کو تھنک ٹینک کے طور پر کام کرنے کی ترغیب دی جس سے قومی پالیسی سازی اور عوامی مباحثے میں فورم کی اجتماعی حکمت کا حصہ ڈالا گیا، ان کے خیالات اور رہنمائی فورم کے لیے تحریک کا باعث بنے ہوئے ہیں‘‘۔ PTI کی سینیٹر فلک ناز چترالی فرماتی ہیں کہ’’جب مجھے گرفتار کیا گیا تھا تو میرے کولیگ محترم عرفان صدیقی صاحب نے سب سے پہلے میرے بچوں کے ساتھ رابطہ کیا تھا، میں جب تک جیل میں رہی عرفان صدیقی خود میرے بچوں کے لیے ناشتہ اور کھانا لے کر آتے تھے اور بچوں کو تسلی دیتے تھے کہ اگر آپ کی ماں جیل میں ہیں تو میں آپ کا انکل ہوں، میں ادھر موجود ہوں آپ کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو آپ مجھے بتایا کریں‘‘۔ مرحوم سینیٹر عرفان صدیقی اپنی سیاسی سوچ و افکار کے مخالفین و ناقدین کو بھی بہت ہی تکریم و احترام سے نوازتے تھے جو بڑا ہی "اُوکھا" کام ہے۔ میں نے متعدد بار ان کے کالموں سے اختلاف کیا اور اپنے کالم "شہادت" میں اس کا اظہار بھی کیا ، لیکن ان سب باتوں کے باوجود بھی جتنی محبت و عزت مجھے مرحوم صدیقی جی نے دی ہے شاید ہی کسی اور نے دی ہوگی۔ وہ رخصت ہو گئے ہیں، میں ان کے لیے دعا گو ہوں لیکن عصرِ حاضر کی سیاست کا مکروہ اور بد نما چہرہ وہ بے نقاب کر کے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی وفات کے موقع پر بداخلاقی اور بدتمیزی کا ایک طوفان آیا، اُن کے لیے نہایت ہی غلط اور انتہائی غلیظ الفاظ لکھے گئے جو میں بیان بھی نہیں کر سکتا۔ خود کو انصافین کہلانے والے ان بے شرموں کی ذہنیت و جہالت چھوٹی اسکرینوں پر ننگی ناچتی رہی، یہ سب دیکھ کر میرا دل دُکھا، حیرت ہوئی اور گہرا صدمہ بھی ہوا جو نہ جانے کب تک رہے گا۔ ان ظالموں نے دنیا چھوڑ کر اگلے جہاں جاتے ہوئے ایک مسافر مفکر تک کو نہیں بخشا۔ اس ظلم و جبر اور انہونے و انوکھے ایک نئے سیاہ سوچ سلسلے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہوگی، میں ماتم کناں ہوں اور اس ستائیسویں غیر آئینی ترمیم کی بھی شدید مذمت کرتا ہوں۔ میری رائے میں یہ آئین پر تابڑ توڑ حملے، جمہوریت کے قتل، طاقتور کے تحفظ و تقویت اور نظامِ عدل کی بے حرمتی و بے بسی کے سوا کچھ نہیں۔
من کی من میں بات رہے تو من کو لاگے روگ
من کھولیں تو مشکل کر دیں جیون اپنا لوگ