• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات، نت نئی صف بندیاں، پاکستان کے اپنے دو ہمسائیوں ہندوستان اور افغانستان سے روز بروز بگڑتے معاملات متقاضی ہیں کہ سیکیورٹی کے حوالے سے نئے سکہ بند انتظام و انصرام کیے جائیں۔ مئی 2025 میں ہندوستان سے چار روزہ جنگ میں لازوال فتح کے پیچھے قیادت کے ایک صفحے پر ہونا، افواجِ پاکستان کی اعلیٰ جنگی حکمتِ عملی، مصنوعی ذہانت کا بہترین استعمال دشمن کے لیے حیرانی و پریشانی کا عنصر بنا۔ اس حکمتِ عملی کے تباہ کن نتائج نے ہندوستان پر بے خبری میں ایسا کاری وار کیا کہ اس کی فضائیہ دو روز تک فضا میں پرواز کرنے تک کے قابل نہ رہی۔ ہندوستانی عسکری قیادت یہی سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ ان کے ساتھ کیا اور کیسے ہوا؟ ہندوستان رافیل لڑاکا طیاروں پر نازاں، اپنی پانچ گنا بڑی عسکری طاقت کے غرور میں ڈوبا تھا۔ پاکستان کی کمزور اور دگرگوں معیشت کے مقابلے میں دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہونے کا دعویدار جب پاکستان پر حملہ آور ہوا تو اسے گمان بھی نہ تھا کہ یوں یکایک بازی الٹ جائے گی۔ ابتدائی حملوں کے بعد پاکستان کی گہری خامُشی شکست خوردہ کی نہیں بلکہ حکمت و تدبر، صبر و استقامت کا اظہار تھی۔ پھر محض چار گھنٹوں میں پاک فضائیہ نے ہندوستان کا تکبر خاک میں ملا دیا اور ہماری بہادر فوج نے مقبوضہ کشمیر میں 150 سے زائد چوکیوں اور راجستھان میں "کالی کے مندر" سے 3 کلو میٹر آ گے تک قبضہ کر لیا۔ الحمدللّٰہ ! اب طاقتور اور زخمی دشمن، اپنے زخم چاٹ کر بغض و کینے سے بھرا، پاکستان سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے تیار ہے۔ اب کی بار جنگ جیتنے اور پاکستان کے بڑے رقبے پر قبضے کا مسمم ارادہ کئے وہ ماضی کی عسکری کمزوریوںو جنگی حکمتِ عملی کے سقم دور کرنے، عسکری استطاعت و قابلیت بڑھانے اور مصنوعی ذہانت استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ آئے روز جنگی مشقوں کے حوالے سے نوٹم ( پیشگی اطلاع) جاری کر کے ہمارے مشرقی اور جنوبی محاذ کے قریب مشقیں کی جاری ہیں ۔ تاہم حال ہی میں ہندوستانی فوج نے مصنوعی ذہانت کے استعمال سے سویلین فضائی نظاموں کا انتظام درم برہم کر دیا تھا۔ ہندوستان نے پاکستان کو دو محاذوں پر الجھانے کے لئے افغانستان سے دراندازی کروا کر دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے اور طالبان حکومت میں شامل پاکستان مخالف عناصر پر پاکستان سے کشیدگی بڑھانے کے واسطے بے تحاشا پیسہ بھی لگا رہا ہے۔ حتٰی کہ پاکستانی وفد کے طالبان سے امن مذاکرات کے تین دور جب بھی نتیجہ خیز ہونے کے قریب ہوتے، ہندوستانی ایماء پر بد مزگی کرکے معاملات بگاڑ دیے جاتے ۔ پاکستان نے بھی ہندوستان سے دو محاذوں کے لئے اپنی جنگی حکمتِ عملی تیار کر لی ہے! ہندوستان کو دو کے بجائے تین محاذوں پر پاکستان سے جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ مئی 2025 میں پاکستان نے ہندوستان کو اپنی جس حکمتِ عملی سے حیران، پریشان وششدر کیا تھا وہ اس کی صلاحیت و قابلیت کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ پاکستان کے ترکش میں ابھی بہت سے ایسے زہریلے، جان لیوا اور خطرناک تیر ہیں جن کا ہندوستان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو وہ ہندوستان کو اپنے حواری اسرائیل اور در پردہ ہمدرد امریکہ کو شہ مات دے کر فتح مبین حاصل کرے گا۔ انشاء اللّٰہ تعالیٰ!

پاکستان نے دنیا کی توقعات کے برعکس اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن ہندوستان،اس کے حواری اسرائیل اور اسٹریٹجک ساتھی امریکہ کو شکست کا ایسا مزہ چکھایا کہ امریکہ نے یکسر پینترا بدل کر پاکستان سے اپنا رویہ ہی تبدیل کر لیا۔ ادھر ایران کے ہاتھوں شکست خوردہ اسرائیل پاکستان سے اتنا خوفزدہ ہے کہ غزہ میں امن قائم رکھنے والی فوج تک میں پاکستان کی شمولیت پر تیار نہیں۔ امریکہ نے یکدم پاکستانی قوم ، فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف پر التفات کے ڈونگرے برسا دیے، تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ پاک فضائیہ کی فقید المثال کامیابی اور ہندوستانی لڑاکا جہازوں کے مار گرائے جانے کا اتنی دفعہ ذکر کیا کہ خاموش کرانے کے لئے وزیراعظم ہندوستان نے صدر ٹرمپ کے آگے روس کے خلاف اور دیگر امریکی شرائط پر سر تسلیمِ خم کر دیا۔ اب ہندوستان دہلی اور دیگر مقامات پر دہشت گردی کے جھوٹے (فالس فلیگ) واقعات کی آڑ میں جھوٹے شواہد بنوا کروا کر پاکستان کے خلاف کیس بنا رہا ہے۔ یوں امریکی آشیرباد کی چھتری تلے ہندوستان دوبارہ پاکستان پر حملہ آور ہوگا۔ اس پر ہندوستانی تاریخ کے سب سے زیادہ دھاندلی زدہ صوبہ بہار کے انتخابات جیت کر بی جے پی سرکار میں نئے سرے سے خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے جو زہرِ قاتل سے کم نہیں۔ ایسے میں پاکستان کو خطے اور دنیا کے معروضی حالات کے پیشِ نظر اپنے اندرونی سیکیورٹی، دفاعی اور انتظامی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 27ویں آئینی ترمیم جس کے خلاف اتنا شور و غل تھا اس اہم ضرورت کو پورا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے بجٹ سے دفاع کے لیے 10 فیصد وفاق کو دینے کا اس میں تذکرہ ہی نہیں جبکہ قریباً 22000 ہزار سرکاری ملازمین کی دوہری شہریت رکھنے پر پابندی کا بل بھی یکسر غائب کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ ان دونوں کا اس ترمیم میں شامل ہونا اس وقت ملکی دفاع کے لیے انتہائی اہم اور ناگزیر تھا۔ علاوہ ازیں صدر اور فیلڈ مارشل کو تا حیات استثناء دینے، مدتِ ملازمت بڑھانے اور نیا عہدہ تخلیق کرنے سے عملاً کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ فیلڈ مارشل کا عہدہ ہمیشہ سے تاحیات ہی ہوتا ہے جبکہ چیئرمین جوائنٹ کے اختیارات حالتِ جنگ میں ویسے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ دونوں عہدے حالات کے مدِ نظر ، افواج کی کارکردگی کو ہم آہنگ بنانے کے لئے، جامع اور مزید اختیارات سے جنرل عاصم منیر کو دینے سے مطمع نظر حاصل ہو جاتا۔ ویسے بھی ہماری تینوں افواج کا باہمی ربط و ضبط ہی مئی کی جنگ جیتنے کا باعث تھا۔ جبکہ تاحیات استثناء کی شق تو غیر اسلامی ہونے کی بنیاد پر کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ ایسی بھونڈی اور مقصد سے عاری ترمیم کا فائدہ ریاستِ پاکستان اور اس کے دفاع کو کمزور کرنے والی قوتوں کو پہنچایا گیا ہے۔ اس مشکل وقت میں پاکستان کو سیاسی عدم استحکام، کمزور معیشت اور افغانستان سے دہشت گردی کا بھرپور سامنا ہے۔ جبکہ ہندوستان کی جانب سے کسی بھی وقت جنگ کا خطرہ ہے بھی لاحق ہے۔ ایسے میں قوم کو ستائسویں آئینی ترمیم پر ہیجانی کیفیت کا شکار کر کے تقسیم کر دیا گیا ہے۔ رہا سوال عدلیہ کے اختیارات اور جمہوریت پر وار کرنے کا تو پارلیمان جیسی بھی ہے مکمل طور پر با اختیار ہے۔ وہ کسی بھی قسم کی آئینی ترمیم کر سکتی ہے۔ جمہوریت کا ہمہ وقت پرچار کرنے والوں کو کیا پتہ نہیں کہ یہ آئینی ترمیم عین جمہوری روایات اور اقدار کے مطابق کی گئی ہے۔ ویسے اگر عدلیہ انصاف کے مطابق فیصلے دینا چاہے تو اسے کون روک رہا ہے؟ نہ ہی کوئی روک سکتا ہے!

؎وسعتِ عالم میں رہ پیما ہو مثلِ آفتاب

دامنِ گردوں سے ناپیدا ہوں یہ داغِ سحاب

تازہ ترین