انتہائی مؤقر اور سنجیدہ نیوزمیگزین کی حیثیت سے عالمی شہرت یافتہ برطانوی جریدے’ دی اکنامسٹ‘ کے تازہ شمارے میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں اس حوالے سے کیے گئے بیشتر انکشافات کہ’ وہ اپنے دورِ اقتدار میں مکمل طور پراپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کے زیر اثر رہے جس کی وجہ سے پوری سرکاری مشینری ایک ایسی عورت کے اشاروں پر چلنے لگی جس کا سیاست اور حکومت سے وزیر اعظم کی بیوی ہونے کے سوا کوئی تعلق نہیں تھا‘ اہل پاکستان کے لیے نئے نہیں ہیںکیونکہ مقامی ذرائع سے ان میں سے اکثر باتیں تواتر کے ساتھ ان کے سامنے سامنے آتی رہی ہیں۔ تاہم سن1843 ء یعنی 182 سال سے ہر ہفتے شائع ہونے والے برطانوی جریدے کے نامی گرامی رپورٹر اوون بینیٹ اور ان کی معاون رپورٹر بشریٰ تسکین کی جانچ پڑتال اور چھان پھٹک کے تمام صحافتی تقاضے پورے کرتے ہوئے چھ ماہ کی محنت شاقہ سے تیار کی گئی خصوصی رپورٹ نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے دور اقتدار کے ان واقعات پر مہر توثیق ثبت کردی ہے جن میں عمران خان اپنی نیم خواندہ اہلیہ کے اس حد تک تابع فرمان نظر آتے ہیں کہ اہم مناصب پر تقرریوں اور تبادلوں سمیت تمام حکومتی فیصلے بشریٰ بی بی کی ہدایات کے مطابق کرتے ہیں ۔ لہٰذا ان باتوں کی حیثیت اب غیرتصدیق شدہ قصے کہانیوں کی نہیں بلکہ ثابت شدہ حقائق کی ہے جس کی وجہ سے یہ رپورٹ اب یورپ ، امریکہ، عرب ممالک اور عالم اسلام سمیت پوری دنیا میں موضوع گفتگو بنے گی اور اس پر تبصرے اور تجزیے سامنے آئیں گے۔ رپورٹ میں بیان کیے گئے واقعات کا اثرصرف عمران خان اور ان کی اہلیہ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ملک کے حساس اداروں کے ذمے داروں کا کردار بھی دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگا کیونکہ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کے حساس ادارے کی بشریٰ بی بی میں دلچسپی کی پہلی علامت اُن کی عمران خان کے ساتھ خفیہ شادی کے فوراً بعد سامنے آئی۔ اکنامسٹ کے مطابق اگرچہ حساس ادارے نے یہ رشتہ نہیں کروایا تھا لیکن ایسے اشارے ضرور موجود تھے کہ ادارہ اس تعلق سے فائدہ اٹھا رہا تھا۔بعض مبصرین کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ حساس ادارے کے کچھ افراد مبینہ طور پر ایسی معلومات بشریٰ بی بی تک پہنچاتے تھے جنہیںوہ عمران خان کے سامنے اپنی ’روحانی بصیرت‘ سے حاصل شدہ معلومات کے طور پر پیش کرتی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق سابق انٹیلی جنس سربراہ جنرل فیض حمید نے بشریٰ بی بی کو نہایت باریک مگر مؤثر طریقے سے استعمال کیا، ان کاادارہ اپنے ایک افسر کے ذریعے آئندہ ہونے والے واقعات کی معلومات بشریٰ بی بی کے کسی پیر تک پہنچاتا جو اُسے آگے بشریٰ بی بی تک منتقل کرتا اور یہ انفارمیشن بشریٰ بی بی عمران خان کے سامنے اپنی روحانی بصیرت سے حاصل ہونے والی معلومات کے طور پر پیش کرتی تھیں۔ جب یہ پیشین گوئیاں درست ثابت ہوتیں تو عمران خان کا اپنی اہلیہ کی بصیرت پر یقین مزید پختہ ہو جاتا۔رپورٹ کے مطابق بشریٰ بی بی کے کردار پر اختلاف صرف سیاسی حلقوں تک محدود نہیں تھا بلکہ فوجی قیادت کے ساتھ عمران خان کے تعلقات بھی ایک مرحلے پر شدید کشیدگی کا شکار ہو گئے تھے۔ بعض سینئر اہلکاروں حتیٰ کہ جنرل باجوہ کو بھی شکایت تھی کہ عمران خان اپنی اہلیہ کی بات زیادہ سنتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ 2019ء میں اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل عاصم منیر کی برطرفی کو بھی بشریٰ بی بی سے جوڑا جاتا ہے۔
بشریٰ بی بی کے جادو ٹونے کی باتیں ملک میں تحریک انصاف کے دور حکومت ہی سے زبان زدعام رہی ہیں اور اب اکنامسٹ کی خصوصی رپورٹ نے بھی ان کی تصدیق کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق عمران خان کے ڈرائیور اور گھر کے سابق ملازمین نے دعویٰ کیا کہ بشریٰ بی بی کے آنے کے بعد گھر میں عجیب و غریب رسومات شروع ہوئیں جیسے کہ عمران خان کے سر کے گرد کچا گوشت گھمانا، لال مرچیں جلانا، روزانہ سیاہ بکرے یا مرغیوں کے سر قبرستان میں پھنکوانا اور کبھی کبھار زندہ کالے بکرے منگوانا، علاقے کے قصائی نے بھی ایسے احکامات کی تصدیق کی۔ بشریٰ بی بی کے ان مشاغل کے باعث یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ جادو ٹونا کرتی ہیں۔ جہانگیر ترین نے اس بارے میں کہیں کوئی بات کی جو اس دور کی خاتون اول کے علم میں آگئی اور نتیجہ جہانگیر ترین کے تحریک انصاف سے اخراج کی شکل میں نکلا۔ پارٹی کے نہایت وفادار کارکن عون چوہدری اس وقت حیران رہ گئے جب عمران خان نے اپنی تقریب حلف برداری میں انہیں شریک ہونے سے اپنی بیگم کے ایک خواب کی وجہ سے منع کردیا اور اس کے اگلے دن عون چوہدری پارٹی کے عہدے سے بھی ہٹا دیے گئے۔یہ دلچسپ واقعہ بھی رپورٹ میں شامل ہے کہ ایک بار وزیر اعظم کا جہاز اس وجہ سے چار گھنٹے پرواز نہیں کرسکا کیونکہ اپنے خصوصی علم کی بنیاد پربشریٰ بی بی فلائٹ کے لیے وقت کو موزوں قرار نہیں دے رہی تھیں۔ گھر کے عملے اور قریبی ساتھیوں کے مطابق عمران خان سیاسی اور سرکاری فیصلوں سے پہلے بشریٰ بی بی سے رائے لیتے تھے اور اُن کے کہنے پر لوگوں کی تصاویر بھیج کر چہرہ شناسی کرواتے تھے۔ رپورٹ میں ایک اہم انکشاف بشریٰ بی بی اور ان کی بہن کے اس دعوے کے غلط ہونے کی شکل میں بھی سامنے آیا ہے کہ ان دونوں نے لاہور کے کوئن میری کالج میں تعلیم حاصل کی۔ اکنامسٹ کے رپورٹر کے مطابق اس نے ادارے میں جاکر خود ریکارڈ چیک کیا مگر ان دونوں خواتین کا اس میں کوئی سراغ نہیں ملا۔ امکان یہی ہے کہ عمران خان کے عقیدت مندوں کا تو اکنامسٹ کی اس رپورٹ سے کچھ نہیں بگڑے گا لیکن پوری دنیا کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں یہ ضرور توجہات کا مرکز بنے گی اور عمرانی دور کے پاکستان کے بارے میں اظہارِ حیرت اور منفی آرا کا باعث ثابت ہوگی۔