السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
قرعہ کس کے نام…؟
تازہ شمارہ، ’’جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند‘‘، ربیع الاول کی پُرنور ساعتوں میں ڈوبا، آفتابِ رسالتؐ کی ولادتِ باسعادت کی روشن کرنیں لیے ہمارے گھر جو اُترا، تو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہوئے ہماری باری بمشکل ہی آئی۔ جہاں مُلک بھر میں عیدِ میلاد النبیؐ کی تیاریاں زوروں پر تھیں، وہیں چھوٹے سے میگزین میں پورا جہاں سِمٹا نظر آیا۔
سرِورق کو سبز گبند کی روشنی میں ڈوبے دیکھا۔ ’’سر جُھکانے کی فرصت ملے گی کسے، خُود ہی آنکھوں سے سجدے ٹپک جائیں گے۔‘‘ سر اُٹھا کر نور و انوار کی محفل میں قدم رکھا، تو محنتوں سے آراستہ، عشقِ محمدیؐ سے معمور بزم نے اپنا آپ ہی بُھلا دیا۔ دل نامِ نبیﷺ سے آگے نہ جا سکا، جو دین کی اساس، رُوح کی پیاس ہے۔
مصروفیتوں سے دامن چُھڑایا، دنیا کے جھنجھٹوں سے آزاد ہو کر جو سر اُس چوکھٹ پہ جھکایا، تو اثاثۂ دین و اسوۂ حسنہ کا نُور جھولی بھرگیا۔ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کی لافانی تحریر اندرونی دروبام سبحانی پورے جریدے کی رُوح و دل و جان بنی۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل کے قلم نے بھی15 صدیوں سے روشن، اسوۂ حسنہ کی روشن کرنوں سے کیا ہی اجالا کیا۔
حافظ بلال نے تاریخِ انسانیت کے تاریخی لمحے میں جان ڈالی، تو رابعہ فاطمہ کی بصیرت افروز تحریر دنیاوی، دینی و اُخروی زندگی کے لیے مجرّب نسخہ معلوم ہوئی اور ڈاکٹر قمرعباس کا امام الانبیاء ﷺ کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت تو سماں باندھ گیا۔
یوں تو ہر رنگ سے مزین، لیکن ستمبرکی خاص تاریخ کےحوالے سے ونگ کمانڈر (ر) محبوب حیدر کا یومِ دفاعِ وطن پر مضمون اور قائدِاعظم کی زندگی کے آخری ایام کا احوال بہترین تھا۔ راجا سلیم لوٹ آئے، مبارکاں اور اس ہفتےکی مسند پررانا محمد شاہد براجمان تھے۔ دیکھیں، اگلا قرعہ کس کے نام نکلتا ہے۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ج: آپ کے خط میں اور تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ایک تو ہینڈرائٹنگ خاصی گنجلک سی ہے۔ دوم، آپ سیکڑوں بارکی التماس کے باوجود کسی طور حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھنے کا تردّد نہیں کرتیں۔ قصداً ایسا کرتی ہیں یا غیرارادی طور پر، کہہ نہیں سکتے، لیکن اس قسم کے خطوط کی ایڈٹینگ ہمارے لیے کسی سزا سے کم نہیں ہوتی، جو یقیناً اِسی جرم کی ہے کہ ہم نے آج کے اس ڈیجیٹل دَور میں ایک صدیوں پرانی روایت زندہ کرنے کا بیڑہ کیوں اُٹھا لیا۔
جب کہ عموماً ایک صفحے پر الفاظ کا دم گھونٹ کر تحریر لکھنے کے بعد آپ اگلا صفحہ سادہ ہی چھوڑ دیتی ہیں، جس پر صرف آپ کا نامِ نامی جگمگا رہا ہوتا ہے۔ براہِ خدا اُسے بھی استعمال میں لا کر پوری تحریرحاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھنے کی عادت اپنا لیں، آپ کا احسانِ عظیم ہوگا۔
قلم ہی توڑ دیا
تازہ سنڈے میگزین کے ’’فیچر‘‘ میں منور راجپوت نے ’’اخبار والا، صحافت کا پاوا‘‘ لکھ کر تو قلم ہی توڑ دیا۔ ہمارے گھر میں بھی اخبار لگ بھگ پون صدی سے آرہا ہے۔ حقائق سے بھرپور ’’فیچر‘‘ کی تیاری پر مبارک باد قبول فرمائیں۔ ویسے یہ بڑی ہمّت، دل گردے کا کام ہے کہ اپنی فیلڈ کے تلخ حقائق سامنے لائے جائیں۔
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا مضمون بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ بھی اب بہت ہی اچھے انداز سے مرتب ہورہا ہے۔ ’’ناقابلِ اشاعت کی فہرست‘‘ میں سلیم راجا کا نام بھی موجود تھا۔ ارے بھئی، یہ تو بغیر نقطے والے خط لکھنے والے ہیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اِن کی چٹھی نمبر ون قرار پاتی ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی،کراچی)
ج: ہر شخص ہر موضوع پر کامل دسترس نہیں رکھتا۔ اگر شعرو شاعری کسی کی فیلڈ ہی نہیں، تو لاکھ اپنی طرف سے ہیرے، موتی ٹانکتا رہے، کلام اوزان سےخارج ہوگاتوناقابلِ اشاعت ہی ٹھہرے گا۔
داد دینے کو جی چاہا
بندہ روزنامہ جنگ کا اُس وقت سے قاری ہے، جب یہ کراچی سے چلتا ہوا دوپہر کو لاہور پہنچتا تھا۔ 1964ء میں اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ سے میٹرک کے بعد حفظِ قرآن حکیم کے دوران 1965ء کی پاک، بھارت جنگ میں دیگر نوجوانوں کے ساتھ اسکول کے ریٹائرڈ فوجی ٹیچر سے ٹریننگ لے کر واہگہ بارڈر کی طرف مارچ کیا۔ پھر پنجاب سیکریٹریٹ کے مختلف محکموں، پنجاب اسمبلی اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکریٹری کے ساتھ خدمات انجام دے رہا تھاکہ اسپیشل حج کوٹے پرحجازِ مقدس بھیج دیا گیا۔
اِس وقت اردو، انگلش شارٹ ہینڈ کے علاوہ قرآنِ حکیم کی تعلیم دے رہا ہوں۔ آپ کا خصوصی سنڈے میگزین (ربیع الاول ایڈیشن) ’’جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند‘‘ کا مطالعہ کر کے آپ کو داد دینے کو جی چاہا۔ ماشاءاللہ، سب مضامین قابلِ تحسین تھے۔ اللہ تعالیٰ مزید توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) (حافظ مقبول احمد، گلی قصوریاں، اندرون بھاٹی گیٹ،لاہور)
ج:حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔
معلومات کا سمندر موجزن
ایک طویل عرصےسے جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کا قاری ہوں۔ کم صفحات کے باوجود اس میں معلومات اور دل چسپی کا ایک سمندر موجزن ہوتا ہے۔ خوشی ہے کہ کراچی یونی ورسٹی کی شعبہ ابلاغِ عامہ کی طالبہ نے عملی زندگی میں اپنے ویژن سے جہاں اساتذہ اور اپنی مادرِ عملی کی لاج رکھی۔ وہیں صحافت کا علم بھی بلند کیا۔ کم صفحات کے باوجود آپ نے اپنے قارئین کو کیا کیا نہ شاہ کار کتابیں قسط وار پڑھا دیں۔
ماضی قریب کا جائزہ لیں، تو ڈاکٹر طاہر مسعود کی قائدِاعظم محمّدعلی جناح اور رتی کی محبت کا ماجرا، ذوالفقار چیمہ کی خُود نوشت، محمود میاں نجمی کے اسلامی مضامین اورعرفان جاوید کے شاہ کار خاکے وغیرہ شامل ہیں، جن میں سے کچھ بعد میں کتابی شکل میں بھی سامنے آئے۔ سیاسی مضامین اور نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی میں بھی یہ میگزین کسی سے کم نہیں۔ آپ کے اس کام کو دیکھ کر سید قاسم محمود بہت یاد آتے ہیں۔
میر خلیل الرحمٰن کے دورِحیات میں تحریکِ پاکستان سے وابستہ شخضیات پر باقاعدہ ایڈیشن شائع ہوتے تھے، مگر اب ایسے مضامین عنقا ہیں۔ ہو سکے، تو آپ ہی یہ ذمّے داری بھی نبھائیں اور گاہے بگاہے پاکستان کی آزادی کے ہیروز کا تذکرہ مضامین کی شکل میں شائع کریں تاکہ نئی نسل آزادی اور مُلک کی اہمیت سے آگاہی حاصل کرسکے۔ (غلام حسین میمن، چیف لائبریرین،شکارپور)
ج: بات یہ ہے کہ اب نہ صرف پڑھنے والوں کا حلقہ محدود ہوگیا ہے، اچھا لکھنے والے بھی عنقا ہیں۔ میر صاحب کے دورِحیات کا آج کے دورِ ابتلا سے کیا موازنہ۔ ہمیں تو تحریکِ پاکستان کے ہیروز سے متعلق مضامین کی اشاعت میں قطعاًکوئی تامل نہیں۔ مگر اُن سے متعلق کوئی لکھنے، کارہائے نمایاں سامنے لانےوالا بھی تو ہو۔
وہ کہاں ہیں…؟
جنگ، سنڈے میگزین کے ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات پر کرن نعمان کی تحریر پڑھ کر خوشی ہوئی لیکن یہ رائٹ اَپ تو ہمیشہ ایڈیٹر، نرجس ملک لکھتی تھیں، تو وہ کہاں ہیں، جو کرن نعمان کو یہ ذمّے داری سنبھالنی پڑی۔ علاوہ ازیں، ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کا بھی ایک رائٹ اپ پڑھا، بہت خوشی ہوئی۔ مَیں اُن سے ملاقات کا خواہاں ہوں، کیا ہوسکتی ہے۔ (غلام رسول، کے ٹی ایس،ہری پور)
ج: اکیلی کرن نعمان پر ذمّے داری نہیں ڈالی گئی۔ کئی اور خواتین بھی میدانِ عمل میں ہیں۔ ایڈیٹر صاحبہ سالوں سے یہ بھاری بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے تھک گئی ہیں۔ سو، بار تقریباً اُتار ہی پھینکا ہے۔
اب آپ دوسروں کی تحاریر سے مستفید ہوں، مگر فکر بالکل نہ کریں، ہر تحریر پر ہماری کڑی نظر گڑی ہوئی ہے۔ رہی ثانی صاحب سے ملاقات، تو وہ آفس والوں سے بمشکل ملتے ہیں، آپ سے ملاقات کے لیے کہاں وقت نکال پائیں گے۔
اصلاحات کی چمٹی
’’خوش رنگ و خوش نگاہ، خوش اندام، خُوب رُو…‘‘ عبارت کے ساتھ باوقار ماڈل سرِورق تا ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ چھائی ہوئی تھی۔ خُوب صُورت پیراہن، اور پھر سن گلاسز نے تو شخصیت کو چار چاند ہی لگا دیے۔ کرن نعمان نے رائٹ اَپ اچھا لکھا، لیکن آپ کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ بلوچستان سے ایک صاحبہ بزم میں کافی عرصے بعد تشریف لائیں،جن کابہت انتظار کیا جارہا تھا۔
سب سے پہلے تو اُن کو ہماری طرف سے بھی ’’جی آیاں نوں‘‘۔ آپ نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا، اعزازی چِٹھی سے نواز کے۔ ویسے ماڈل کی تعریف پر اُن کو اعتراض کیوں ہوا؟ ماڈل کا سراپا ہی اُس کی تحریر ہوتا ہے اور وہ اِس خاکے میں اسٹائل اور پیراہن سے رنگ بھرتی ہے۔
جریدے کی سب تحریریں بہترین تھیں، لیکن سب سے ودھیا ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ کے زیرِ عنوان، ذکیہ مشہدی کی ’’ہم جیسے‘‘ ٹھہری، جس کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہوگی، ماشاءاللہ اس بار تو ٹیکساس، امریکا سے قرات نقوی کی ایک تحریر بھی شاملِ اشاعت تھی۔
نئی کتابوں پر تبصرے تو باقاعدگی سے شائع ہورہے ہیں، لیکن آج تک جس نمبر پر بھی رابطہ کیا گیا، وہ یا تو بند ملا یا پھر اٹیند نہیں ہوا اور اگر خط بھیجا گیا، تو وہ بھی واپس آگیا۔ اگلا شمارہ کھولا، ایک لمبی چوڑی فہرست، ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کاروں کے ناموں کی پڑھنے کو ملی۔
ہمارا تجسّس تو ہمیں آپ کے دفتر ہی لے گیا، چشمِ تصوّر سےدیکھا کہ نگارشات کا ڈھیر اپنی قسمت کے فیصلے کا منتظر ہے اور ایڈیٹر صاحبہ ایک ہاتھ ماتھے پر رکھے، دوسرے میں اصلاحات کی چِمٹی اُٹھائے بے چاری تحریروں کو الٹ پلٹ کر اپنے اعلیٰ ترین معیار کی عینک سے چند لمحے گھور کر ردی کی ٹوکری میں پٹخ رہی ہیں۔ (محمّد صفدر خان ساغر، مکّی مسجد، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج: کس قدر شوق ہے، آپ کو فضول گوئی کا۔ ہماری پوری صحافتی زندگی میں چند ایک ہی لوگ ہیں، جن کی تحریریں پوری پڑھے بغیر ردی کی ٹوکری کی نذر کی ہیں۔ چشمِ بددُور آپ بھی اُسی قطار میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ خصوصاً آپ کی حکایتِ دل بنام ’’رانی‘‘ (ردی کی ٹوکری) کی، تو چند سطریں ہی پڑھ کر، ردی کی ٹوکری کا ترنوالہ بنانا پڑا۔
فی امان اللہ
’’ربیع الاول ایڈیشن‘‘ 6 ستمبر کو ویک اینڈ پر نظر نواز ہوا۔ روضہ رسولؐ کے ایمان افروز عکس سے وقارِ سرِورق افزوں تر تھا۔ ایڈیشن کے ابتدائی سلسلے اسوۂ حسنہ کے روشن و درخشاں پہلوؤں سے منوّر و تاباں تھے۔
ڈاکٹر ثانی نے سیرت النبیؐ کی رُوح افزا جھلکیاں اپنے قلمِ معطّر سے پیش کرکے بابرکت ابتدا کی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ دوم میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، نبی کریم ﷺ کی زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجہؓ کی شان میں دل نشین پیرائے میں رطب اللسان تھیں۔
حرمِ نبوت میں آپؓ کو جو مقام و منصب حاصل تھا، اُنہوں نے اسے عورت ہونے کے ناتےتمام خواتین کےلیے اعزازِ عظیم قرار دیا۔ لاریب! عورت، مرد کی طرح مکمل انسان اور دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ حاصلِ کلام خُوب صُورت ترین تھا کہ تقدیسِ نسواں سےدورِنبوت کے نقوش تازہ کریں۔ ڈاکٹر قمر عباس نے سیدالانبیاءؐ کی بارگاہ میں ہدیہ نعت پیش کرکے دل خوش کر دیا۔
رشتوں کی شیرینی میں گندھا صفحہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کو ’’بزمِ احباب‘‘ کے دو صاحبانِ قلم نے اگر دو چاند لگائے تو نائب مدیر، اخبارِجہاں کی جانِ عزیز ماں سے متعلق پریم کہانی نے چار چاند لگا دیے اور ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں یومِ دفاع کے موقعے پر پاک فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ افسر سے گراں قدرآرٹیکل لکھوا کر گویا کہ اس قومی دن کو 21 توپوں کی سلامی پیش کی گئی۔ اوراقِ تاریخ میں، پاکستانی شاہینوں کے ہاتھوں بھارتی کرگسوں کے بھرکس کا واقعہ تاقیامت نقش ہوگیا ہے۔
’’سنڈے اسپیشل‘‘ پارٹ ٹو یومِ وفاتِ بابائے قوم کےضمن میں اُن کےسفرِآخرت سےعبارت تھا۔ صاحبِ تحریر نے قائد کے آخری روز کے سفر کا پوزیٹولی ذکر کیا، وگرنہ ایمبولینس کے خراب ہونے پر کئی مفروضے گھڑے گئے ہیں۔ منور مرزا نے اپنی ہفتہ وار ڈائری میں ’’سانحہ غزہ‘‘ سے متعلق بجا تحریر کیا کہ غزہ میں قحط قدرتی نہیں بلکہ اسرائیلی جارحیت کی باقاعدہ شکل ہےاوریہ سب ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔
صفحاتِ وسطیٰ گل ہائے عقیدت (بحضورِ رسولؐ) سےمشک بارتھے۔ فسوں گرعرفان جاوید کی قلم کہانی میں افسانہ نگار محمّد عاصم بٹ کے ادبی شاہ کار نے حیاتِ انسانی کے رُخِ زیبا سے پردہ اٹھایا کہ آدمی بسااوقات وقت کی کسی غلط چال کی وجہ سے کسی نظام میں مس فٹ ہو جاتا ہے۔
یادش بخیر، عہدِ عمرانی اس گھن چکر کی زندۂ جاوید نظیر ہے۔’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ سلسلے میں ماہرِ چشم کے توسط سے قلبِ سلیم نے جانا کہ آنکھ کی ایک بیماری، آنسوئوں کی کمی کی وجہ سے بھی لاحق ہوسکتی ہے۔ تو پھر مگر مچھ کے آنسو بجا ٹھہرے، ہاہاہا! ’’ڈائجسٹ‘‘ میں حبیبِ بزم، جمیل ادیب کا سرآئینہ عاشقانہ روپ اور محبوب کا پسِ آئینہ بے باکانہ سروپ نگاہِ عقاب نےتاڑلیا۔
افسانہ ’’مماثلت‘‘ کا حاصلِ کلام، عقلِ سلیم نے یہ نکالا کہ بچّوں کو شیدا ٹلی کی بجائےجھارا پہلوان بنایا جائے۔ ہاہاہا ’’نئی کتابیں‘‘ میں ایک ریٹائرڈ منصف کی تصنیف سے جانا کہ ماضی میں چندفیض یاب فیصلہ کار، انصاف کی دیوی کے سر پر ٹکور کرتے رہے اور صفحۂ دل نواز’’آپ کا صفحہ‘‘ پرنظر پڑتے ہی دلِ شیدا یادِ یاراں میں گنگنا اُٹھتا ہے۔
تیری یاد آگئی، غم خوشی میں ڈھل گئے… اِک چراغ کیا جلا، سو چراغ چل گئے۔ سینئر ساتھیوں برقی و نقش بندی کا بندے کو خوش آمدید کہنے پر صدشکریہ اور مدیرہ کی ہزار مہربانی کہ ’’جنگ‘‘ بینر تلے شائع ’’سنڈے میگزین‘‘ کےذریعے کینجھر جھیل کے گرم پانیوں سے سیف الملوک کے سرد پانیوں تک پاکستانیوں کو ہرگھڑی، محبّت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، جزاک اللہ خیر! (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج: اللہ رب العزت اس لڑی کو مضبوط سے مضبوط تر کرے۔
* علی الصباح یوں معلوم ہوا، کسی نے بالکونی میں پتھر پھینکا ہے، دیکھا تو جنگ اخبار بمع ’’سنڈےمیگزین‘‘ پایا۔ سرِورق پرسُرخ و سفید گلابوں کے پس منظر کے ساتھ گہرے رنگ میں ملبوس ماڈل نظرآئی۔ حضرت جعفربن ابی طالبؓ پرایمان افروز تحریر پڑھنے کو ملی۔
منور مرزا نے پاک، بھارت جنگ کاعُمدہ، مدلّل تجزیہ پیش کیا۔ تحسین عابدی کی تحریر بھی سیرحاصل رہی۔ ثانیہ انورنے ٹریفک حادثات کےضمن میں معلوماتی تحریر نذرِقارئین کی۔
ہر دل عزیز عرفان جاوید کا نیا سلسلہ دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ اُن کے قلم سے ہمیشہ کچھ منفرد ہی نکلتا ہے۔ درمیانی صفحات پر گہرے رنگوں کے ملبوسات نظرآئے، جب کہ موسمِ گرما میں تو ہلکے رنگ بھلے لگتے ہیں۔ ممکن ہوتوکوئی میل شوٹ بھی کروائیں۔
سفرِ حج اور ذیابطیس اور سفرِحج سے پہلے فزیوتھراپی شان دار مضامین تھے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کےنام‘‘ میں اپنا نام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اُف! یہ عروبہ غزل کتنی طویل ای میل لکھتی ہیں۔ آپ نےخُود ہی لکھ رکھا ہے،’’اپنی رائے کا کُھل کر اظہار کریں‘‘ تو ہم نے آج کُھل کر اظہار کردیا ہے۔
اب ’’ای میل آف دی ویک‘‘ کے اعزاز سے نواز کر شکریے کا موقع دیں۔ اوراپنی رائے سے بھی آگاہ کیجیے گا کہ کیا ہمیں آتے جاتے رہنا چاہیے؟ (عبد الماجد،حضرت علی اسٹریٹ، عثمانیہ کالونی، ڈھوک مستقیم، پشاور روڈ، راول پنڈی)
ج: محترم! مندرجات سے متعلق رائے کے اظہار کی دعوت دی جاتی ہے، نہ کہ پوری کتاب لکھنے کی۔ آپ نے’’ای میل آف دی ویک‘‘ کی خواہش میں جو ’’داستانِ امیر حمزہ‘‘ لکھ کے بھیجی، عروبہ کی میل تو اُس کے آگے بونی معلوم ہورہی تھی۔
فرق صرف اِتنا تھا کہ اُس کی میل کی ایڈیٹنگ مشکل ہوجاتی ہے اور آپ کی ’’رام کہانی‘‘ میں سےکام کی چند سطریں نکالنا مشکل معلوم ہوا۔ آئندہ آناچاہیں، تو ضرور آئیں، مگر زیادہ سے زیادہ دو سطروں کے ساتھ۔
* دوبارہ گزارش کررہا ہوں کہ میرا مضمون، ’’میرا اسکول سوسال کا ہوگیا‘‘ آنے والے سنڈے میگزین میں شائع فرما دیں۔ (واجد علی شاہین، لاہور)
ج: ناقابلِ اشاعت ہے۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk