• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صفحہ: مدبرانہ جوابات، الفاظ کے موتی ...

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ایک سے بڑھ کر ایک افسانہ

’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کے حوالے سے ’’حالات و واقعات‘‘‘ میں منور مرزا کا جان دار تبصرہ پڑھنے کو ملا، پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں ایوب کھوسہ کی خُوب صُورت باتیں لطف دے گئیں۔ ایوب کھوسہ کا تعلق بھی زرعی بینک سے رہا ہے، پڑھ کر اچھا محسوس ہوا کہ ہم بھی زرعی بینک سے وابستہ رہے ہیں اور یہ آپ نے چشمے والی ماڈل کہاں سے تلاش کرلی۔

ویسے انتخاب شان دار تھا۔ عرفان جاوید کے سلسلے ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ ہر افسانہ ایک سے بڑھ کر ایک ہے اور اس مرتبہ تو ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں قرات نقوی بھی موجود تھیں۔ واقعہ پسند آیا اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں کافی عرصے بعد اسماء خان کا خط پڑھنے کو ملا، دیکھ کےبڑی خوشی ہوئی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ’’چشمے والی ماڈل‘‘ کا کیا مطلب؟ سن گلاسز تو کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ آپ تو چشمے والی ماڈل ایسے کہہ رہے ہیں، جیسے اُس کی آنکھوں کی جگہ چشمہ ہی فٹ تھا۔

اندھیرا ہی اندھیرا

ربیع الاول ایڈیشن کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹرحافظ محمّد ثانی نے مقامِ مصطفیٰ ﷺ کے عنوان سے قرآنِ پاک کی روشنی میں جو مضمون تحریر کیا، کافی محنت سے لکھا گیا، اِسی لیے مطالعے سے قلب و جاں کو طمانیت حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں خواتین کے حقوق کی روشنی پھیلائی، تو حافظ بلال بشیر نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی نشانیاں بتائیں۔ 

رابعہ فاطمہ نےرسول اللہ ﷺ کے بحیثیت دوست، اخلاقِ حسنہ اجاگر کیے۔ قمر عباس کی نعتِ رسول مقبولؐ کا تو کوئی ثانی ہی نہیں تھا۔ ونگ کمانڈ (ر)محبوب حیدر سحاب کا6 ستمبر، یوم ِدفاعِ پاکستان سے متعلق مضمون دل سے لکھا گیا۔ قائدِاعظم کے آخری ایام کی رُوداد اسرار ایوبی نےعُمدگی سے قلم بند کی۔ پڑھ کے آنکھوں میں نمی آگئی۔ 

منور مرزا نے غزہ کے حالات پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں بھی حافظ ثانی کا رائٹ اَپ جگمگا رہا تھا اور ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ کی دوسری قسط بھی سر سے گزر گئی۔ 

’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر اسرار احمد نے معلوماتی تحریر پیش کی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی تینوں کہانیاں پسند آئیں، جویریہ شاہ رُخ نے سبق آموز افسانہ تحریر کیا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں تو بس اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: آج یقیناً آپ کی بصارت لوٹ آئی ہوگی۔

آج کچھ درد مِرے دل میں ...

ربیع الاوّل کا شمارہ نظرنواز ہوا۔ وہی ضخامت وجسامت و ہیئت، مگر قیمت میں اضافہ… شاباش، ویل ڈن۔حافظ محمّد ثانی نے’’مقامِ محمّد ﷺ‘‘ جس عرق ریزی، تحقیق، ژرف نگہی اور ریفرنسز سے مملو قارئین کے گوش گزار کیا، لائقِ صد تحسین و قابلِ ستائش ہے، واقعتاً کوئی ثانی نہیں۔ 

رابعہ فاطمہ اور حافظ بلال کے قلم کے شاہ کار بھی شان دار، لاجواب تھے۔ اسرار ایوبی نے قائدِ اعظم کے آخری ایّام کا احوال قلم بند کیا، تو کئی سربستہ اسرار کُھلتے گئے۔ او رہاں، جو پُراسرار اور سنسنی خیز کہانی عاصم بٹ کی دواقساط میں شائع ہوئی، اُسے بغور پڑھنے کے بعد بھی یہ اندازہ نہ ہوسکا کہ ریاض احمد کون تھے؟ 

حمید ناصر نےجس عورت سے گفتگو کی، وہ کون تھی؟ اور پھر کولکتہ سے واپسی پرجب حمید ناصر نے پھر اُس گھر کے دروازے پر دستک دی، تو وہاں کس ریاض احمد سے ملاقات ہوئی۔ بہرحال، پڑھنے کے دوران تجسّس برقرار رہا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ نے تو کمال ہی کردیا، آنکھوں کی طراوت، قلب کی سکینت، ذہن کی بالیدگی کا سامان تھا۔ حافظ ثانی کے قلم کی تحریر سے آنحضرت ﷺ کی حیاتِ طیّب و طاہر و اطہر و مطہر و معطّرکے انوار و محاسن و تجلیّات کی ضیاء پاشی سےروحانیت و شفّافیت کو مزید مہمیز ملی۔

ایسی پاکیزہ وپوتّر تحاریر فریم کروا کے گھرکی دیواروں پر آویزاں کرنی چاہئیں تاکہ ہمہ وقت نگاہوں کے سامنے رہیں۔ منور مرزا نے غزہ کے اندوہ ناک واقعات پر اپنے جذبات و خیالات قرطاسِ ابیض پر بکھیر کےدل سخت غم ناک کر دیا۔ کافی عرصے بعد’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘میں آنکھوں سےمتعلق بھرپور معلوماتی تحریر پڑھنے کو ملی۔ اگلے شمارے کا ’’آپ کا صفحہ‘‘ دیکھا، تو میرا خط شاملِ اشاعت تھا اور ساتھ ہی جواب بھی۔ 

پڑھ کردُکھ ہوا اور قدرے خفگی بھی۔ مجھے بھی جواب الجواب کا حق اور اختیار ہے، جومَیں فوراً استعمال کررہا ہوں۔ تم نے لکھا کہ’’پھرّا ٹیکنالوجی‘‘ استعمال کی جاتی ہے، تو اطلاعاً عرض ہے کہ یہ پھرّے نہیں ڈاکٹرز کے پرسکرائبنگ پیڈز ہیں، جن پر وہ مریضوں کو ادویہ تجویز کرتے ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کےلیےمجھے صرف ایک بار منور راجپوت نے کال کی، جس میں ایک تحریر کے مختصر ہونے کی بات کی۔ 

والدہ مرحومہ کی کہانی 3 سے 4 فُل اسکیپ سفید کاغذات پر لکھ کر بھیجی گئی، جو نہ شائع ہوئی اور نہ ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں نام شامل ہوا۔ ’’ بکھرے موتی‘‘ بھی اگر شایع ہو چکے ہیں، تو اطلاعاً عرض ہے کہ اُن کے بھیجنے کے بعد سے جتنے شمارے اب تک آئے، مَیں نے تمام بغور دیکھے، کسی میں شامل نہ تھے، ہوسکتا ہے کہ کراچی ایڈیشن میں شائع ہوئے ہوں، مگر لاہور میں نہیں۔ تاریخ بتادیں، ’’نیٹ ایڈیشن‘‘ میں چیک کرلوں گا۔ 

تم نے یہ بھی لکھا ہے کہ مَیں اپنے مضامین میں80 فی صد انگریزی جملے لکھتا ہوں، اس لیے بھی وہ ناقابلِ اشاعت ٹھہرے۔ تو کیا مَیں عبرانی، ڈچ، فرینچ، بلتی، نیپالی زبان کے الفاظ استعمال کروں؟ جب اصطلاحات انگریزی ہی میں ہوں، تو لامحالہ لکھا، بولا اور پڑھا بھی انگریزی ہی میں جائےگا، کیوں کہ ان کا متبادل لفظ ہوتا ہی نہیں۔ ؎ رکھیو غالب مجھے اِس تلخ نوائی میں معاف… آج کچھ درد مِرے دل میں سوا ہوتا ہے۔ (ڈاکٹر اطہر رانا، فیصل آباد)

ج: آپ پر توغالباً پہلی بار یہ سانحہ گزرا ہے۔ آپ کی بیش تر تحاریر دیکھ کر ہمارے دل کا درد سوا نہیں، سوا سیر ہو جاتا ہے۔ پر سکرائبنگ پیڈز نسخے لکھنےکے لیے ہی ہوتے ہیں، مضامین کے لیے نہیں۔ جو کاغذ ہاتھ میں آتے ہی لیرو لیر ہو جائے، آپ خود بتائیں، اُس کی تحریر کیسے پڑھی، ایڈٹ اور کمپوز کی جائے۔ ’’بکھرے موتی‘‘27 اپریل 2025ء کےایڈیشن میں شایع ہوا۔ والدہ سے متعلق لکھی گئی آپ کی تحریر متعدّد بار ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملی۔

مہربانی فرماکردوبارہ ارسال کردیں، ترجیحاً شامل کرلی جائے گی۔’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے لیے سیکڑوں معالجین لکھتے ہیں، علاوہ چند ایک الفاظ کے، اُن کی پوری تحریر نہ صرف اُردو بلکہ بہت سادہ، عام فہم انداز میں لکھی ہوتی ہے۔ سو، آپ کے مضامین سنڈے میگزین کے لیے تو موزوں نہیں، کسی اور جریدے کو بھیجنا چاہیں تو ضرور بھیج دیں۔

برق گرانے کی کوشش

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آس رکھتا ہوں کہ اہلِ بزم خوش و خرم ہوں گے۔ ’’ربیع الاوّل ایڈیشن‘‘ موصول پایا، دیکھ اور پڑھ کر آنکھوں کو نور، دل کو سرور حاصل ہوا۔ اے کاش! ایسا ہر بار ہو۔ ’’مقامِ محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ قرآن کی روشنی میں بیان ہوا اور خُوب ہوا۔ ڈاکٹر حافظ محمد ثانی، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کے مضامین عُمدہ تھے۔ 

ولادت سے قبل کی نشانیاں اور رسول ﷺ ، بحیثیت دوست بھی عُمدہ تحاریر ثابت ہوئیں۔ بلال بشیر اور رابعہ کے زوِر قلم کو اللہ تعالیٰ اور وسعت دے۔ ’’یومِ دفاع‘‘ بےشک فخروعزم کا دن ہے۔ محبوب حیدر سحاب چھا گئے۔ قائدِاعظم کے آخری ایام کا تذکرہ اداس کرگیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں ’’بھوک‘‘ نمایاں تھی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر بھی ڈاکٹر صاحب کی تحریر ثانی نہ رکھتی تھی۔

’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر اسرار احمد نے اچھا لکھا۔ ’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ عُمدگی سے مرتب ہوا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ خُوب تھا۔ ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ کے حوالے سے ہم دو چار مرتبہ لکھ چُکے ہیں کہ یہ لوگ ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر برق گرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اُنہیں اُن کی اسپیس ہی تک محدود رکھا جائے۔ قرآت نقوی نے ہمارا خط بنظرِ غائر پڑھا، شکریہ۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج: ’’برقی خطوط‘‘ ننانوےفی صد تو اپنی اسپیس ہی میں محدود رہتے ہیں، سال بھر میں اگر ایک دوبارکچھ بہترین نگارشات کےباعث کالم کا سائز ذرا سا بڑھا بھی دیا جاتا ہے، تو اس میں ہرگز کوئی قباحت نہیں کہ ایک اچھی تحریر کا اتنا حق تو بنتا ہی ہے۔

مدبرانہ جوابات، الفاظ کے موتی

اُمید کرتی ہوں، سنڈے میگزین کی انتظامیہ اور تمام قارئین خیر و عافیت سے ہوں گے۔ بہت عرصے بعد جرات کررہی ہوں لکھنے کی، یقیناً آپ پہچان گئی ہوں گی کہ آپ نے ہمارے خطوط پر بڑی محنت کررکھی ہے۔ اب ارمان یہ ہے کہ سالِ نو کے صفحے پر کوئی اچھا سا کمنٹ مل جائے تاکہ پورا سال خوش رہا جاسکے۔ جریدے کے سرِورق پر براجمان دوشیزہ کسی گہری سسوچ میں گم نظر آئی۔ 

مشورہ ہے کہ اتنا نہ سوچا کرو۔ ’’روشنی کے مینار‘‘ میں نجمی صاحب صحابیٔ رسول حضرت عتبہؓ کی داستان حیات لے کر آئے۔ اِن عظیم صحابۂ کرامؓ کی زندگیاں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ’’فیچر‘‘ میں اخبار فروشوں کی مشکلات کا بھرپور احاطہ کیا گیا، حالاں کہ یہ سب ایک مضمون میں سمیٹنا آسان نہیں تھا۔

’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر زہرہ نگاہ کے اشعار پڑھ کے تو ہم کو بھی آئینہ اچھا لگا اور چہرے پر مسکراہٹ دَر آئی۔ ماڈل کے ڈریسز زبردست تھے۔ عرفان جاوید کی آمد نے ایک بار پھر میگزین میں دل چسپی کئی گُنا بڑھا دی ہے۔ ادب کے فروغ میں اُن کا کردار یقیناً قابلِ رشک ہے۔ زاہدہ حنا کا نام دیکھتے ہی ’’نمشکار‘‘ پڑھنے پر مجبور ہوگئے اور پہلی قسط ہی نے دل جیت لیا۔ 

ڈاکٹر ریاض علیمی کی بات سے متفق ہوں کہ عورت کو آزادی کے نام پر شوپیس بنا دیا گیا ہے۔ تابش دہلوی کی ’’یادداشتیں‘‘ بھی قابلِ مطالعہ تھیں اور اب ہردل عزیز ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بات۔ خطوط اورآپ کے جوابات کے کیا کہنے۔ آپ تو جملوں کی مالا میں الفاظ کے موتی پرونے کا ہنر خُوب ہی جانتی ہیں۔ بہت ہی مدبرانہ جوابات دے کر قارئین کو لکھنے کا حوصلہ بھی دیتی ہیں۔ (شاہدہ ناصر، گلشنِ اقبال، کراچی)

ج: مدبرانہ جوابات… ہاہاہا… ذرا اُن سے پوچھیں، جن کے دِلوں پر اِن جوابات سے باقاعدہ برچھیاں چلتی ہیں۔

              فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ماہِ آزادی کا پانچواں شمارہ پیشِ نظر ہے اور سرِورق پر پانچ ہی بچّے رونق افروز ہیں، جن کے لیے شہ سُرخی ہے۔ ’’پھرلوٹ کےبچپن کے زمانےنہیں آتے…‘‘ بےشک۔ مگر، بچپن کے دوست عشروں بعد بھی کبھی مل بیٹھیں تو یادِ بچپن کا کلائوڈ برسٹ ہوجاتا ہے۔ زیرِ نظر شمارہ فصل انوار، ربیع الاول کا پہلا شمارہ بھی ہے۔ اس لیے صفحہ، مسیحائے قلب ورُوح ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پراہتمامِ خاص تھا۔ 

ڈاکٹر حافظ محمد ثانی کے ’’ہدیۂ عقیدت‘‘ کا ابتدائیہ تھا، ’’کوئی مثل مُصطفیؐ کا کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا…کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا۔‘‘ اور حاصلِ کلام تھا۔ ’’لایمکن الثناء کما کان حقہ، بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔‘‘ ’’حالات و واقعات‘‘پہ جیسے منور مرزا کا اجارہ ہے، ماشاءاللہ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ منیراحمد خلیلی کا قلمی دھارا ثابت ہورہا ہے، قلبِ سلیم تیرِ مِژگان سے مائل اور تیرِنگاہ سے گھائل پیشتر تھا ہی، اب تیرِ قلم کا بھی صید ہوگیا۔

تیونس میں حالیہ آمریت پر اُنہوں نے خُوب تین حرف بھیجے۔ صفحہ ’’رپورٹ‘‘ پر پاکستان اکنامک کے ٹیمپو میٹر PSX (پاکستان اسٹاک ایکسچینج)کے شان دار 78 سالہ سفر کاجان دارتجزیہ پیش کیا گیا۔ عقلِ سلیم نےغورکیا کہ 2013ء سےPSX نےجو بلندیوں کا سفر شروع کیا تھا، اُسے پاناما کیس کی آڑمیں ترقی دشمنوں نے لتاڑ دیا، یعنی ’’تیلی کا تیل جلے، مشعلچی کا دل جلے‘‘۔ 

’’سنڈے اسپیشل‘‘ ایس واری ’’پُرمُژدہ‘‘ (Colours of Happiness) ثابت ہوا، جس میں ماہِ ستمبر (شاعروں کے لیے ستم گر، بہ روئے فصلِ خزاں) کے اہم عالمی ایام کا دل چسپ تذکرہ مع پُر مغز تبصرہ تھا۔ ’’آپ کاصفحہ‘‘ اگر کورٹ آف دی کوئین ہے، تو’’پیارا گھر‘‘ نیارا کاؤنٹر، جو سبز ہلالی پرچموں سے سجا، حُبِ وطن سے دُھلا اور رنگِ گل سے کِھلا تھا۔ مگر’’خاندان‘‘ سے متعلق مضمون کی اِن لرزہ خیز سطور سے دلِ ناتواں ہانپ اور جگرِ جافشاں کانپ سے گئے۔

’’صرف ایشیائی مرد ہی بیگمات کو کم فہم جیسے لقب سے نہیں نوازتے بلکہ عورت بھی اپنے شوہر کو نالائق سمجھتی ہے۔‘‘ بھئی! بندۂ حلیم تو’’جیو اور جینےدو‘‘ کا علم بردار اور ’’Do respect, have respect‘‘ کا مِشعل بردار ہے۔ ’’بزمِ جاناں‘‘ اس بار’’بزمِ اطفال‘‘ میں بدلی تھی کہ کجلے کی کوئی دھار تھی، نہ ہی مِژگاں کی کوئی کجی تار، بلکہ چہار سُو بُلبلے سے گالوں والے، چُلبلوں کی معصوم ادائوں کی بہار تھی۔ منور مرزا کی سیاسی ڈائری میں سردمہر پیوٹن اور گرم مزاج ٹرمپ کی ہاتھ ملاتے، تھپتھپاتے تصویر دیکھ دلِ باذوق گُنگنا اٹھا۔ 

تیرا غم میرا غم، اِک جیسا صنم… (یعنی خود ستائی و کشور کشائی، ہاہاہا!!!) ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ تو ہم قارئین کا جگری دوست ہے۔ ’’خاموش قاتل‘‘ ہیپاٹائٹس کی ہول ناکیاں جگر تھام کے پڑھیں۔ عرفان بینر تل پیش کردہ افسانہ اچھا تھا، تاہم نام (تیز بارش میں ہونےوالاواقعہ) ذرا کچا تھا۔ طوفانی بارش، کالی گھٹا، شامِ برسات، برکھا شب وغیرہ بھلے لگتے۔ پرچھڈوجی!’’کم تے ہونا چاہیدا اے دھیان… ناواں وچ کیہہ رکھیا؟‘‘ 

ثانیہ انور کی طرح سیّدہ تحسین عابدی بھی قارئینِ رسالہ کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا، عوامی احساسات کی عکّاس ثابت ہوئی ہیں۔ سدا بہار سلسلے ’’نئی کتابیں‘‘میں آدھ درجن کتب اختر سعیدی کے زیرِ تبصرہ تھیں۔ ایک کتاب ’’دن بدلیں گے جاناں‘‘ سے دل شاد ہوا، کیوں کہ دل شیدا کو دھڑکا رہتا ہے۔’’موسم کی طرح کہیں تم بدل تو نہ جائو گے۔‘‘ 

اب باتاں صفحۂ خوباں کی، جہاں شہرِ چراغاں (کراچی) سے چار، پنج ند (پنجاب) سے دواورمانچسٹرآف پاکستان(رقعہ راجا) سے ایک، کل سات خطوط کو مدیرہ سے ہم کلامی کی سعادت ملی۔ ہم سمیت زیادہ تر جوابِ شیریں و حوصلہ افزاپہ نہاں تھے، جب کہ ایک آدھ جوابِ ترش ملنے پر بھی چنداں ملول نہ تھے کہ ’’ہونٹوں پہ کبھی اُن کےمیرا نام بھی آئے…آئے توسہی، برسرِ الزام ہی آئے۔‘‘ ہاہاہا۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

گوشہ برقی خطوط

* اتوار کا سورج طلوع ہوا، سنڈے میگزین لے کر ڈرائینگ روم میں بیٹھ گئی۔ ورق پلٹتی جاتی، لیکن کسی ایک جگہ آنکھوں نے قیام نہ کیا کہ اتنےمیں عرفان جاوید کا نام نظر آیا۔ 

یقین کریں، خوشی سے نہال ہوگئی کہ اتنے عرصے بعد عرفان جاوید نے میگزین میں دوبارہ قدم رنجہ فرمائے، ہمارے لیےکچھ تحریر کیا۔ آپ کے توسط سےاُن سے گزارش ہے کہ اپنے مداحوں کو فراق کا غم نہ دیا کریں اور میگزین کے لیے مستقل کچھ نہ کچھ تحریر کرتے رہا کریں۔ (رجا زیدی، لاہور)

ج: دراصل عرفان جاوید جس قدرمشکل اور منفرد موضوعات پر کام کرتے ہیں، وہ اِسی قدر وقفے کے متقاضی ہوتے ہیں۔ ہیرے کی تلاش اور پھراس کی تراش خراش کوئی ایسا آسان کام تو نہیں کہ یوں ہی چلتے پھرتے ہو جائے۔

* حادثات کے حوالے سے ثانیہ انور نے ایک نہایت عُمدہ مضمون تحریر کیا۔ مَیں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک رشوت خور ٹریفک پولیس موجود ہے، تب تک پاکستان میں ٹریفک حادثات کی شرح بلند ہی رہے گی، کیوں کہ ٹریفک پولیس کے بہت سے اہل کار روڈ پر صرف اس لیے آتے ہیں کہ گاڑیوں والوں سے رشوت وصول کی جاسکے۔ انھیں روڈ قوانین کےنفاذمیں کوئی دل چسپی نہیں ہوتی۔

ایک زندہ مثال دیکھ لیں کہ یہ صرف کاروالوں کو سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر جرمانے کرتے نظر آئیں گے، جب کہ اِن کے سامنے سے ٹرک، ٹرالر، ڈمپر، بس ڈرائیورز اور دیگر بڑی گاڑیوں والے بغیر سیٹ بیلٹ کے گزرتے رہتے ہیں، مگر مجال ہے کہ اُن پر جرمانہ تو دُور، تنبیہ ہی کی جائے۔

سیدہ تحسین عابدی کراچی کی حالات کا نوحہ پڑھ رہی تھیں، جو کہ سراسر جھوٹی ہم دردی لگی کہ ایک عام شہری یہ نوحہ پڑھے تو سمجھ بھی آتا ہے، مگر حکومت کی ترجمان کا شہر کی حالت پر افسوس کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

وفاقی اورسندھ کی صوبائی حکومت دونوں پچھلےچند سالوں سےکراچی سے ہدف سے زائد ٹیکس وصولیاں کررہی ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ دونوں کے نزدیک کراچی صرف ٹیکس پیدا کرنے کی مشین ہے، بنیادی سہولتوں (پانی، بجلی، گیس، سڑکیں، اسپتال، تعلیمی ادارے) کی فراہمی ان کی ڈیوٹی میں شامل ہی نہیں۔ اگر واقعی کراچی سےہم دردی ہے، تو نوحہ پڑھنے کی بجائےحکومتوں سے ترقیاتی کاموں کے فنڈز نکلوائیں۔ (محمد کاشف، نیو کراچی، کراچی)

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید