• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عندلیب زہرا، راول پنڈی

صُبح بہت اداس، بہت بوجھل تھی… کسی اپنے کی کمی، محبوب کی عدم موجودگی، کسی بھولی بسری یاد کے مثل۔ ’’زندگی کتنی مشکل ہے ناں۔‘‘ سامنے کیلنڈر پر نظر پڑی اور دل کی اداسی کا سبب سمجھ آگیا۔ ’’ایک اور ویڈنگ اینورسری گزرگئی آپ کے بناء؟‘‘ اُس نے خود کلامی کی۔ وہ شاعرانہ مزاج کی لڑکی تھی۔ بارش، خوش بو، پھولوں، رنگوں کی دیوانی۔ اُجلی رنگت اور شفّاف آنکھیں، جن میں خواب چمکتے، نرمی جھلکتی تھی، جب کہ اِس ’’جنجال پورہ‘‘ میں فرصت کے پل بڑی مشکل سے میسّر آتے۔ 

وہ اپنی شادی خانہ آبادی کی سنہری یادوں کے ساتھ سفر کر رہی تھی۔ ’’کتنے خواب لے کر مَیں پیا کی دہلیز پرآئی تھی۔‘‘ اتنے میں نند نے باہر سے آواز لگائی۔ ’’بھابھی!بھائی کا فون ہے، سُن لیں۔‘‘وہ ٹھنڈی سانس بھر کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ساس، سُسر، دیور اور نند اپنا حالِ دل کہہ کر اب اُس کے منتظر تھے۔ اُس نے ریسیور تھام لیا۔ ’’کیسی ہو عارفہ؟ بچّے کیسے ہیں؟ 

کسی چیز کی ضرورت ہو توامّی ابّو سےکہہ دیا کرو۔‘‘ احسن جلدی جلدی کال نپٹا رہا تھا۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی، ویڈنگ اینیورسری، اُس کا پیار، اُس کی یاد… لیکن حلق میں نمکین گولہ سا پھنس گیا اور وہ بس ’’جی، جی‘‘ ہی کہتی رہ گئی۔’’اچھا اپنا بہت خیال رکھنا، سوئیٹ ہارٹ… ہیپی اینیورسری۔‘‘ آخری جملے سرگوشی میں ادا کیے گئے اور اُس کی ساری کلفت دُور ہوگئی۔ وہ بھی کچھ کہنا چاہتی تھی، لیکن کال کٹ گئی اور وہ تشنگی سی لے کر کمرے میں واپس چلی آئی۔

ساس، سُسر اب اپنے جوڑتوڑ میں مصروف تھے۔ نندوں نے میک اپ، جیولری کی فرمائش کی تھی۔ بس اُس کا کاسہ خالی رہ گیا تھا۔ اور یہ تشنگی کئی برس سے تھی۔ عارفہ کی ہرجگہ تعریف ہوتی تھی۔ سُسرال، میکے، پڑوس میں۔ غرضیکہ جہاں کہیں ایک اچھی، تابع دار بہو اور بھابھی کا تذکرہ ہوتا، عارفہ کا نام ضرورشاملِ گفتگو ہوتا۔ 

شوہر بیس بائیس برس سے پردیس میں تھا۔ سال، دو سال بعد، بس مہینے بھر کے لیےچکر لگاتا۔ سمجھ نہ آتا، کیا کہے، کیا سُنے۔ اُس بہن کی دعوت، اُس بھانجی کی شادی، بھائی کا کاروبار، لین دین… اور تیس دن یوں گزرتے جیسے تیس گھڑیاں۔ احسن کا آنا جانا عارفہ کے لیے ہوا کا ہلکا سا جھونکا ثابت ہوتا۔ اپنی کہنے سُننے کا وقت ہی نہ ملتا۔ بس ایک سبق جو پہلی رات یاد کروا دیا تھا، اُسی کا اعادہ ہوتا۔ ’’میرے گھر والوں کو خوش رکھنا۔‘‘ 

اس زمانے میں موبائل، انٹرنیٹ تو عنقا تھے۔ جب کہ پی ٹی سی ایل بھی خال خال نظرآتا۔ کال آتی توسارا گھرانہ فون سُننے کو بےتاب، اپنی کہنے کو بےقرار۔ جب تک فون عارفہ کے پاس آتا، اُسے سمجھ ہی نہ آتا کہ کیا کہے۔ بس، دوشناسا افراد کی سلام، دُعا ہوتی، اور ٹائم ختم۔ خط لکھتی تو سب احسن کے خط کا جواب پڑھنا چاہتے۔ ’’کوئی پرائیویسی نہیں۔‘‘

اکثر عارفہ جھنجھلا جاتی۔ گھر کی تعمیر، ساس سُسر کا حج، بہن بھائیوں کے فرائض سب احسن نےادا کیے تھےاورعارفہ نے کبھی کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی تھی۔ کبھی شوہر سے کوئی ناجائز مطالبہ کیا، نہ بےجا پریشان۔ سہیلیاں کہتیں۔ ’’عُمرہ کے بہانے چلی جاؤ۔ وزٹ ویزے ہی پر چلی جاؤ۔‘‘ وہ پھیکا سا مُسکرا دیتی۔ کبھی سرجھکا کرچُپکے سے آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسو صاف کرلیتی کہ اُس کی باری ہی نہ آتی تھی۔ اکثر ملنے والے کہتے کہ باہر رہنے والے مرد دوسری شادی ضرورکرتے ہیں۔ 

عارفہ سوچوں میں الجھ جاتی۔ پھر سر جھٹک دیتی۔ اُس کی مُٹھی میں بس شادی کے اولین دنوں ہی کی یادیں تھیں۔ شاید مہینہ بھر یا اس سے کچھ دن اوپرکی۔ وہ انُھیں ہی سرمایہ سمجھتی۔ مفلس کی پونجی کی طرح، جسے روز گِنا، سینت سینت کر رکھا جاتا۔ انھی یادوں، باتوں کے سہارے تو وہ سسرال میں وقت گزار رہی تھی۔ اب تو بچّے بھی باپ کے بغیر رہنے کے عادی تھے۔ اُن کے لیے باپ کا ڈرافٹ ہی باپ کا وجود تھا۔ 

دادا اور چچا سے ضدیں منوا لیتے۔ عارفہ اچھی بیوی، بھابھی اور بہو تھی، لیکن اپنے ذہنی دباؤ کا کیا کرتی، جو اظہار کا راستہ مانگتا۔ اُسے لگتا، وہ سب کو خوش کرتے کرتے خود کوناراض کر بیٹھی ہے اور انھی دِنوں اُسے احساس ہونے لگا، جیسے اُس نے کپڑے ٹھیک سے نہیں دھوئے۔ وہ بار بار کپڑے صاف کرتی، دھوتی، لیکن غیرمطمئن رہتی۔ فرش دھوتی، پونچھا لگاتی۔ 

ہر عمل کی تکرار کرتی، پانی بہاتی رہتی۔ ہاتھ بار بار دھوتی۔ وہم کی عادت نے اس کےکاموں میں تاخیرشروع کردی تھی۔ وہ کنفیوز سی رہتی۔ سب اپنے اپنے مفادات کےحصول میں اِس قدرمگن تھے کہ اُس کے مسئلے کی طرف کسی نے دھیان ہی نہ دیا۔ ’’بھابھی پہلےسے زیادہ صفائی پسند ہوگئی ہیں۔‘‘ دیور نئی موٹرسائیکل چمکاتا بولا تھا۔’’بہو کو شروع سے پانی بہانے کی عادت ہے۔‘‘ 

ساس نے طنزاً کہا۔ ’’بھابھی کا ہاتھ ہر معاملےمیں کُھلا ہے۔ کیا سرف، کیا صابن، اچھا ہے، خرچا ابّا جی کے پاس ہے۔‘‘ نند کا تبصرہ تھا۔ اُسے ہمہ وقت ایک دباؤ، گھٹن کا احساس ہوتا۔ مِلنے جُلنے والے رشک کرتے کہ باہر کی کمائی ہے۔ لیکن اُس کی اندر کی تنہائی کسی کو نظر نہ آتی۔ صرف پندرہ سالہ عادل نے ماں میں آنے والی تبدیلی محسوس کی اوراپنے دوست کے والد سے ڈسکس کیا، جو سائیکالوجسٹ بھی تھے۔ وہ اپنی عُمر سےزیادہ ذہین اورحسّاس تھا۔

اُسے اپنی ماں سے محبّت تھی، اُس کی قربانیوں کی قدر بھی۔ ’’آپ کی والدہ سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ آپ ان کی بات سُنیں۔ اُن کو اظہار کا موقع دیں اوراُن کا بہت خیال رکھیں۔‘‘ ڈاکٹرنے کہا، تو عادل بیٹیوں کی طرح ماں کاخیال رکھنے لگا۔ وہ اُس کی سب باتیں سُنتا۔ 

ہر ہر بات، ماضی کی، بچپن کی اور ایک اچھی، پکّی سہیلی کی طرح راز رکھ لیتا۔ ’’مَیں آپ کو چھوڑ کر کبھی کہیں نہیں جاؤں گا۔‘‘ وہ ماں کے کندھے پر سر رکھ کر یقین دہانی کرواتا۔ عارفہ مُسکرا دیتی، لیکن وہموں سے چھٹکارا نہ پاتی۔ آخرکار، اُس نے ذکرِ خدا میں سُکون تلاش کرلیا۔ اور اب… دلِ مُضطر پُرسکون تھا۔

عادل یونی ورسٹی میں آچکا تھا۔ وقت جیسے پر لگا کر اُڑ رہا تھا۔ احسن اپنا کانٹریکٹ مکمل کر کے واپس لوٹ آئے۔ اپنی دانست میں وہ اپنے حصّے کے تمام فرائض مکمل کرچُکے تھے۔ آرام کی حاجت تھی، لیکن عُمر کی نقدی ختم ہوچُکی تھی۔ سو، دل کے اٹیک سے جاں بر نہ ہوسکے اور سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اب عارفہ کوایک اور دریا کا سامنا تھا۔ سب فرائض اُسی کے ذمّے آن پڑے تھے۔ 

پہلے بیٹیوں کی شادیاں کیں، پھر عادل کے لیے بھی لڑکی تلاش کرلی۔ نرم مزاج، ہنس مُکھ ثمرین اُسے بہت پسند آئی تھی۔ ’’ثمرین ہمارے گھر میں اجالا بھردے گی۔‘‘ اُس نے عادل سے کہا تھا۔ عارفہ بہت ملن سار ساس ثابت ہوئی۔ ثمرین نے بھی بہت جلد سب کے دل میں گھر کرلیا تھا۔ دو بچّے بھی ہوگئے، اویس اور رانیہ۔ اُنھی دنوں عادل کو باہرجانے کا ایک موقع ملا۔ 

وہ اپنے بہتر مستقبل کےلیے بہت پُرجوش تھا۔ عارفہ نے اُسے بچپن کا وعدہ یاد دلایا۔ ’’تم توکہتے تھے، مجھے چھوڑ کر کبھی باہر نہیں جاؤگے…‘‘سنہری دھوپ نے پورا ماحول سنہرا کردیا تھا۔ اُس نے سامان سیٹ کرتے ہوئے ماں کا چہرہ پڑھا اور کندھوں سے تھام کر کہا۔ ’’امّی! ثمرین ہے ناں آپ کے پاس…‘‘وہ خاموشی سے اُس کا چہرہ تکتی رہی۔ اور وہ بہتر مستقبل کی خاطر بیرونِ مُلک چلا گیا۔ گھر میں پھیلا سناٹا اُس کا دل اداس کر دیتا۔

ثمرین سےوہ کتنی باتیں کرتی بھلا۔ ’’امّی! ثمرین کو پاس ہی رکھیے گا، ورنہ بھائی آپ کو بھول جائیں گے۔ بچّوں کے بہانے تو پھر پاکستان آتے جاتے رہیں گے۔‘‘ اُسے بیٹیاں ایسے مشورے دیتی ہوئی، بالکل اپنی دادی اور پھوپھو کا عکس لگتیں۔ وہ چُپ چاپ اُن کے چہرے دیکھتی۔ اویس، عادل سے فرمائشیں کرتا۔ یہ چیز وہ چیز…بہنیں اپنے بچّے آگے کر دیتیں۔ ماموں یہ، ماموں وہ… بس فرمائشیں، خواہشات، خواب، لالچ…عارفہ اُس سمے ثمرین کا چہرہ پڑھنے کو کوشش کرتی۔ جیسے اپنے ماضی کاعکس تلاش کررہی ہو۔ تحائف اُس کےلیے بھی آتے، لیکن وہ بےدلی سےایک جانب رکھ دیتی۔

اور پھر ایک دن اُس نے ثمرین کو کھانے کی میز پر بلایا۔ ’’ثمرین! بیٹا! آبھی جاؤ۔ سب تمھارا انتظار کررہے ہیں۔‘‘’’بس مما! ایک منٹ آئی …‘‘ وہ چوتھی بارہاتھ دھو رہی تھی۔ عارفہ نے ٹھٹک کر اُسے دیکھا۔ ’’بھابھی دُھلے کپڑے باربار دھوتی ہیں۔ اِنھیں کیا ہوگیا ہے۔‘‘ صبا نے کوفت سے ماں سے شکایت کی۔ عارفہ کسی خیال میں کھو سی گئی۔ 

وہ ثمرین کے رویوں میں واضح تبدیلی محسوس کررہی تھی۔ اور تب ہی اُس نے عادل سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔’’عادل!بیٹا تم خُود واپس آجاؤ یا ثمرین کو اُدھر بلا لو۔‘‘اُس نے فون پرعادل سے کہا تھا۔ ’’لیکن کیوں مما!وہ آپ کے پاس ہے۔ مَیں بھی مطمئن ہوں۔ 

ابھی کچھ سال یہاں سیٹ ہونےمیں لگیں گے۔‘‘عادل حیران تھا۔ عارفہ چند ثانیے خاموش رہی، جیسے کچھ سوچ رہی ہو، پھربولی۔ ’’تمھیں یاد ہے عادل!! مَیں صفائی ستھرائی نہ ہونے کے وہم میں مبتلا ہوگئی تھی اور علاوہ تمھارے، سب مجھے خبطی سمجھنےلگے تھے۔‘‘

عادل چُپ چاپ سُن رہا تھا۔ ’’وہ میرےاندر کی تنہائی، گھٹن، دباؤ تھا، جو مَیں نے دہری ذمّے داریوں کی صُورت اُٹھا رکھا تھا۔ جن فرائض کی ادائی میں تمھارے ابّو کو میرے پاس ہونا چاہیے تھا، مَیں وہاں بالکل اکیلی ہوتی۔ پیسے، ڈرافٹ ہی سب کچھ نہیں ہوتے میری جان۔ نفسیاتی، جذباتی سہارا، ہردُکھ سُکھ کا شریک بھی چاہیے ہوتا ہے۔ 

بس مَیں ثمرین اور بچّوں کو تمہارے پاس بھیج رہی ہوں۔ کانٹریکٹ پورا کر کے تم لوگ اکٹھے واپس آجانا۔ اِس گھر کے دروازے تم لوگوں کے استقبال کے لیے ہمیشہ کُھلے رہیں گے۔‘‘ اُس نے قطعیت سے کہہ کر فون بند کردیا۔ ’’امّی! یہ کیا کررہی ہیں۔ وہ بھائی کوہمیشہ کے لیے الگ کردے گی۔ 

خرچا بند کروا دے گی، آپ کا۔‘‘ بیٹیاں سخت ناراض تھیں۔ ’’عارفہ باجی ساری عُمرتنہا رہی ہیں اور اب آخری عُمر میں بھی تنہائی…‘‘کسی کو بھی اُس کا فیصلہ پسند نہ آیا تھا۔ لیکن عارفہ نے تو اللہ سے لَو لگا رکھی تھی، جس نے اُسے توکل کرنا سکھادیا تھا۔ ’’مَیں عادل اورثمرین کی خوشیوں کو کبھی اپنی خُود غرضی کی بھینٹ نہیں چڑھنےدوں گی۔‘‘ وہ اپنے فیصلے پر سوفی صد مطمئن تھی۔

آج ثمرین کی فلائٹ تھی، وہ دُعاؤں میں رخصت ہوئی۔ اُس کی آنکھوں میں جگنو چمک رہے تھے ،لیکن لب مسکرا رہے تھے۔ عارفہ نے آگے بڑھ کر اُسے بوسہ دے کر رخصت کیا۔ رات بہت گہری تھی۔ سیاہ آسمان پر کہیں کہیں تارے تھے، جو تاریکی ختم تو نہیں کر پا رہے تھے، ہاں اُس کا احساس ضرور معدوم کر رہے تھے۔ عارفہ کھڑکی سے باہر آسمان دیکھ رہی تھی۔

ٹھنڈی ہوا چہرے سے ٹکرا رہی تھی۔ اَن گنت سوچیں ذہن میں تھیں۔ ’’مرد کبھی مجبور نہیں ہوتے، بس مجبوریوں کے جواز پیش کرتے رہتے ہیں۔ مجبور تو ہم عورتیں ہوتی ہیں۔ شوہر دُور ہے، دیس میں ہے یا پردیس میں۔ ہمیں توصبر اور خاموشی کے سبق گھٹی ہی میں پلادیے جاتے ہیں۔ مجھے کہاں کہاں احسن کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ 

ہر دُکھ، سُکھ، راحت، بیماری میں، بچّوں کےساتھ، خاندانی تقریبات میں، سُسرالی اونچ نیچ کے دوران اور اپنی نہ ختم ہونے والی خوف ناک تنہائی میں…‘‘عارفہ نے اپنی بند مٹھی کھولی اور اپنی لکیریں کھوجنے لگی۔ ’’ہم عورتیں تو اپنا یہ دُکھ کسی سے بیان بھی نہیں کر سکتیں۔ بس، سب مجھے نفسیاتی مریضہ سمجھنے لگے تھے۔‘‘ 

اُس نے اپنا سر جھٹکا۔ ’’شُکر ہے، مَیں نے ثمرین کے جذبات واحساسات سمجھنے میں زیادہ تاخیر نہیں کی۔‘‘ عارفہ نے گھڑی دیکھی، تو رات آدھی سے زیادہ بیت چُکی تھی۔ اُس نے ٹانگوں پر کمبل پھیلایا اور سُکون سے آنکھیں موند لیں۔ آج اس کے ذہن پر کوئی دباؤ نہ تھا۔ ایک عورت نے دوسری عورت کا دُکھ سمجھ لیا تھا۔ سحر قریب ہونے کو تھی۔

چھےماہ بعد، جب لندن کی سرد ہوائیں جسم میں کپکپاہٹ سی لا رہی تھیں۔ عادل نے گردن موڑ کر دیکھا تو ثمرین گہری سوچ میں تھی۔ اُس نے مُسکرا کرسر جھٹکا۔ وہ ایسی ہی تھی۔ ’’امّی کا فیصلہ درست تھا، جو اُنھوں نے ثمرین کو یہاں بھیج دیا۔‘‘ وہ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا۔ مگر کچھ دنوں سے اُسے لگ رہا تھا، جیسے ثمرین کچھ کہنا چاہتی ہے اور کسی الجھن میں ہے۔ 

آخر ایک روزاُس نےاپنے دل کی بات کہہ ہی ڈالی۔ ’’مَیں سوچتی ہوں کہ ہم عورتیں ایک دوسرے کےدُکھ سےواقف تو ہوتی ہیں، لیکن ایک دوسرے کی دردآشنا نہیں بنتیں۔‘‘ ثمرین نے کافی پھینٹتے ہوئے اُسے مخاطب کیا تھا۔ اُس نے لیپ ٹاپ کی اسکرین سے نگاہیں ہٹا کر ناسمجھی سےاُس کی طرف دیکھا۔‘‘

آپ کی والدہ کا حق تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتیں، لیکن آپ کے دادا، دادی، پھپھو وغیرہ روایتی خودغرضی کا شکار ہوگئے۔ آپ کی امّی نےعُمر بھردہری ذمےداریاں نبھائیں یہاں تک کہ اندرونی طور پر شدید گھٹن کا شکار ہوگئیں۔‘‘ اُس کے لہجے میں درد نمایاں تھا۔ عادل گم صُم ہوگیا۔ نہ جانے کیا کچھ یاد آگیا تھا۔ ’’اب کیا یہ المیہ نہیں کہ وہ بڑھاپے میں بھی تنہائی کا دُکھ سہیں۔ 

آپ کی والدہ کا یہ حق ہے کہ وہ ہمارے پاس آ کررہیں۔ تاکہ ہم اپنی خدمت اور وہ اپنی دُعاؤں سے پردیس کو بھی دیس بنا دیں۔‘‘ ثمرین نے مضبوط لہجے میں کہا اور پاکستان کا نمبر ملانے لگی۔ پوری فضا میں ایک سکون سادر آیا تھا۔ ایک اور عورت نے دوسری عورت کا درد سمجھ لیا تھا۔ باہر روئی کے گالے بڑی خاموشی سے گررہے تھے۔ اور دُور پاکستان میں کھڑکی سے جھانکتی دھوپ عارفہ کے چہرے پہ چھلکتی خوشی پڑھ رہی تھی۔

سنڈے میگزین سے مزید