مریم شہزاد
’’کیوں آجاتی ہیں، ہر تھوڑے دن بعد ہماری پریڈ کروانے… بھیڑ، بکریاں ہیں کیا ہم؟ بس آئیں گی، سر سے پیر تک دیکھیں گی، الٹے سیدھے سوالات کریں گی اور مُسکراتی ہوئی چلی جائیں گی، کچھ نئی بکریاں دیکھنے۔‘‘ اقصیٰ غصّے میں بولتی چلی گئی۔ دراصل آج پھر کسی خاتون کا فون آیا تھا اور وہ اپنے بیٹے کے لیے کل اقصیٰ کو دیکھنے آنا چاہ رہی تھیں۔
امّی نے اقصیٰ کو بتایا تو وہ تپ ہی گئی۔ اُس کو ویسے ہی شادی کے نام پر طرح طرح کی رسومات سے سخت چڑ تھی اور یہ آئے روز کسی نئی خاتون کا اس طرح چلے آنا اُسے شدید کوفت میں مبتلا کر دیتا تھا۔ ’’اچھا بس!! کوئی فالتو بات نہیں ہوگی اُن کے سامنے، تم کو اِسی لیے پہلے سے بتا دیا ہے کہ ذہنی طور پر بھی تیار رہو، اور اُن کے آنے پر کوئی چِڑ چِڑ نہ کرو۔‘‘ امّی نے اُسے سختی سے تنبیہ کی اور کمرے سے نکل گئیں۔ وہ پہلے بھی اُسے بارہا سمجھا چکی تھی، مگر وہ یہ سب سمجھنے کو تیار نہ تھی۔ ان کے جانے کے بعد بھی اقصیٰ دیر تک غصّے سے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی رہی۔
دوسرے دن بیگم فراز مقررہ وقت پر اُن کے گھر پر تھیں۔ اور اقصیٰ امّی کے سمجھانے کے باوجود بھی تیار نہ تھی۔ ’’نہیں جانا مجھے…!‘‘ اُس نے ایک بار پھر احتجاج کی کوشش کی، مگر پھر امّی کے سختی سے گھورنے پر کمرے میں آہی گئی۔ بہت بےدلی سے سلام کیا، مگر دوسری طرف سے پُرجوش جواب سُن کر چونک سی گئی۔ ’’کیا حال ہیں بیٹا آپ کے…‘‘ ’’جی، الحمدُللہ۔‘‘ اُس نے آہستگی سے کہا۔ بیگم فراز جہاں دیدہ خاتون تھیں۔
اُن کی اپنی بھی چار بیٹیاں تھیں، وہ سمجھ گئیں تھیں کہ اُس کو اِس طرح سے خواتین کا دیکھنے آنا اچھا نہیں لگتا۔ ’’کچھ ناراض سی لگ رہی ہے اقصیٰ بیٹی… کیوں بھئی، مُوڈ خراب ہے؟‘‘ بیگم فراز نے مُسکراتے ہوئے اقصیٰ سے براہِ راست پوچھا، تو امّی نے شرمندگی سے اقصیٰ کی طرف دیکھا اور بولیں۔ ’’نہیں، نہیں… بس ابھی کالج سے آئی ہے ناں، تو گرمی اور راستہ…اس لیے شاید کچھ تھک گئی ہے۔‘‘
اقصیٰ بھی اُن کے اس طرح پوچھنے پر گڑبڑا سی گئی تھی، اس لیے سنبھل کر بیٹھ گئی۔ بُرا نہ مانیں، تو اقصیٰ سے کچھ سوال کرلوں…‘‘ بیگم فراز بولیں۔ ’’جی، جی کیوں نہیں!‘‘ امّی نے تیزی سے کہا۔ ’’کیوں اقصیٰ !! بیٹا کیا بہت بُرا لگتا ہے اس طرح خواتین کا اپنے بھائی یا بیٹے کے لیے دیکھنے آنا؟‘‘
اقصیٰ نے پہلے امّی کو اور پھر اُن کو دیکھا۔ اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دے۔ اور جواب دے بھی یا نہیں۔ سو پہلو بدل کر رہ گئی۔ ’’آپ اپنی بیٹی کو اجازت دے دیجیے کہ میری باتوں کا جواب دے دے۔‘‘ بیگم فراز دوبارہ گویا ہوئیں۔ اقصیٰ نے امّی کی طرف دیکھا تو اُنھوں نے سر ہلا دیا۔ ’’جی… بہت بُرا لگتا ہے۔‘‘
’’اچھا پھر آپ کے خیال میں کیا طریقۂ کار ہونا چاہیے، شادی سے پہلے مائیں کس طرح اپنے بیٹوں کے لیے دلہن تلاش کریں؟‘‘ اب تو اقصیٰ بالکل ہی سٹپٹا گئی اور کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی۔ ’’جی، پتا نہیں۔‘‘ ’’بیٹا! آپ کے خیال میں بیٹوں کی مائیں، لڑکیوں کو کیوں رد کردیتی ہیں؟‘‘ وہ پوچھ رہی تھیں۔
’’دماغ کی خرابی کی وجہ سے۔‘‘ (اُس نے دل ہی دل میں کہا) مگر بولی صرف اتنا ’’خوب سے خوب تر کی تلاش میں۔‘‘ ’’اچھااااا… یہ بتاؤ کہ اپنے بھائی کے لیے لڑکی دیکھنے جانا پڑے تو کیا کرو گی، پہلی لڑکی دیکھتے ہی رشتہ دے دو گی…‘‘ ’’شاید نہیں۔‘‘ اُس نے بے اختیار کہا۔ ’’پھر کیا کروگی؟؟‘‘ اُنہوں نے اشتیاق سے پوچھا۔ ’’آپ یہ تو نہیں کہیں گی کہ کتنی بد تمیز لڑکی ہے، بہت فضول بولتی ہے؟؟‘‘ اُس نے پوچھا۔ ’’ارے نہیں !! تم اطمینان سے بتاؤ کہ تم کیا کرو گی۔‘‘ ’’مَیں یہ دیکھوں گی کہ بھائی سے میچ کرتی ہے یا نہیں، ان کے ساتھ جچے گی یا نہیں؟‘‘
اقصیٰ نے سوچ کے جواب دیا۔ ’’اور تمھاری امی اپنی بہو میں کیا خُوبیاں دیکھنا چاہیں گی؟؟‘‘ انہوں نے اگلا سوال کیا۔ ’’امّی… میرا خیال ہے کہ امّی یہ دیکھیں گی کہ اس کو گھر کے کام آتے ہیں یا نہیں؟؟‘‘ ’’اب تمہارا کیا خیال ہے کہ تم کو کیوں رد کیا جاتا ہے؟؟‘‘ ’’مطلب۔۔؟؟‘‘ اقصیٰ نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔ ’’مطلب تم کم شکل ہو؟ تم کو کام کاج نہیں آتا؟ تمہارے اخلاق خراب ہیں؟ یا تم جاہل، بد تمیز ہو؟‘‘ ’’جی نہیں… ایسی ہرگز کوئی بھی بات نہیں ہے۔ آپ چاہے کسی سے بھی پوچھ لیں۔‘‘ وہ قدرے ناگواری سے بولی۔
’’چلو، مَیں تمھیں بتاتی ہوں۔ ہم مائیں، جب اپنے بیٹوں کے لیے اُن کی شریکِ حیات ڈھونڈنے نکلتی ہیں، تو بہت کم ایسی ہوتی ہیں، جو صرف خُوب صُورتی کو معیار بناتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکے کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور لڑکی ہر لحاظ سے مناسب ہونے کے باوجود لمبی ہونے کی وجہ سے رد کردی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تعلیم کم، زیادہ ہونے کی وجہ سے۔
کبھی سب کچھ ٹھیک ہوتا ہے، مگر استخارے میں انکار ہوجاتا ہے۔ کبھی عُمر میں زیادہ فرق ہوتا ہے اور کبھی ہماری طرف سے سب اوکے ہو، تو لڑکی والوں کو لڑکا اور اس کے گھر والے سمجھ نہیں آتے۔ بس، سو باتوں کی ایک بات کہ جب تک ہم وہاں نہ پہنچ جائیں، جہاں اللّہ تعالیٰ نے ہمارے بیٹوں کے جوڑ بنائے ہیں، تب تک تلاش جاری رہتی ہے۔
تم سمجھ رہی ہو ناں میری بات…‘‘ بیگم فراز نے بہت دھیمے لہجے میں اپنا موقف اس کے سامنے رکھا۔ تو اقصیٰ نے ہاں میں سر ہلایا۔ ’’اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہیں چار پانچ سال منگنی رہ کر ختم ہوجاتی ہے اور کسی دوسری جگہ چٹ منگنی، پٹ بیاہ ہوجاتا ہے۔‘‘ امّی نے بھی اُسے سمجھانا چاہا۔ ’’اور پھر اِس طرح سے گھر پر آکر عزت سے لڑکیوں کو دیکھنا اور پسند کرنا۔ بہت اچھا ہے، کچھ گھرانوں میں تو لڑکا بھی ساتھ دیکھنے جاتا ہے، تو ماں باپ کے لیے وہ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ ایک نامحرم کے سامنے اپنی بیٹی کو بُلانا پڑتا ہے۔‘‘ اقصیٰ دل ہی دل میں اُن کی باتوں سے قائل ہوچُکی تھی۔
’’اور، اب سب سے بڑی بات یہ کہ اقصیٰ بہت اچھی بچّی ہے، یقیناً اِس کی سمجھ میں میری بات آگئی ہوگی، تو اب وہ اپنی اُن تمام سہیلیوں کو بھی سمجھا سکتی ہے، جو اِس عمل کو ناپسند کرتی ہیں۔ لیکن افسوس تم میرے بیٹے کی جوڑ کی نہیں ہو، تم تک ان شاءاللہ جلد ہی وہ پہنچ جائیں گے، تم جن کے لیے بنی ہو، اور ہماری تلاش ابھی جاری ہے، جب تک ہم کو اللّہ ہمارے بیٹے کے جوڑ تک نہیں پہنچا دیتے۔‘‘ بیگم فراز نے اقصیٰ کو پیار کیا اور اُس کی امّی سے واپسی کی اجازت لے کر گھر سے باہر کی طرف چل دیں۔
اُن کے جانے کے بعد، اقصیٰ نے خُود سے عہد کیا کہ اب وہ امّی کو پریشان نہیں کرے گی۔ بے شک، اللّہ تعالیٰ نے سب کا جوڑ بنایا ہے اور ان کو ملانا بھی اللّہ پاک ہی کا کام ہے۔اب چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، جو ہمارے نصیب کا جوڑ ہے، وہ مل کر ہی رہے گا۔