• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرتعیش، آہنی اُڑتے گھروندے کی میزبانی، انتہائی پُرلطف تجربہ

ہوائی جہاز کا سفر اپنی نوعیت کا ایک انوکھا تجربہ ہے۔ یہ وہ واحد ذریعۂ سفر ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے انسان خوش بھی ہوتا ہے اور خوف زدہ بھی۔ خوش اس لیےکہ ہوائی جہاز دِنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر کے انسان کو اپنی منزلِ مقصود پر یا اپنے پیاروں کے پاس پہنچا دیتا ہے اور خوف زدہ اس لیے کہ اس سفر کے دوران جب جہاز رن وے پر بھاگنے کے بعد بتدریج ہوا میں بلند ہونا شروع ہوتا ہے، تو انسان کا (جو زمین کا باسی ہے) اپنے دیرینہ مسکن سے رشتہ بالکل کٹ جاتا ہے۔

آج کل زیادہ تر ہوائی جہاز پینتیس سے چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں اور زمین سے یہ دُوری بِلاشُبہ بہت زیادہ ہے۔ ویسےتوہوائی جہاز ایک آہنی مشین ہے، جو پرندوں کی طرح پر پھیلائے فضا میں اُڑتی آپ کو ایک سے دوسری جگہ لے جاتی ہے، لیکن اگر ہم بغور مشاہدہ کریں، تو محسوس ہوتا ہے کہ ہوائی جہاز محض ایک سواری نہیں،ایک منفرد طرز کا مکمل گھر ہے، جو ہمیں آسمان کی بلندیوں پر، بادلوں کے بیچوں بیچ زندگی کی ایک نئی جھلک دِکھلاتا ہے۔

فضائی سفر کے آغاز میں جہاز کے دروازے پر موجود مُسکراتی ہوئی میزبان اپنی نرم آواز میں مسافروں کو اس قدردِل موہ لینے والے انداز میں خوش آمدید کہتی ہے کہ بعض لوگ خصوصاً پہلی بارسفر کرنے والے اچھی خاصی غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، لیکن یہ واقعتاً بالکل ایسا ہی ہے، جیسے ہم کسی گھرمیں داخل ہوں، تو میزبان دروازے پر ایک مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتا ہے۔ 

بعض اوقات یہ ایئر ہوسٹسز نشست تک بھی رہنمائی کردیتی ہیں، مگر رش کی صُورت میں، خُود ہی دائیں سے بائیں اپنا سیٹ نمبر اور انگریزی حروفِ تہجی پڑھتے ہوئے نشست تک پہنچاجاتا ہے۔ جب ہم اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے، جیسے مخصوص وقت کے لیے ایک عدد کیوبیکل الاٹ کردیا گیا ہے کہ جس میں اپنے پڑوسی کو کُہنی مارنے یا اس کی کُہنی برداشت کرنےکی سہولت مُفت میں ملتی ہے۔ نشست خاصی آرام دہ ہوتی ہے، جسے حسبِ ضرورت نیم دراز ہونے کے لیے وسیع کیا جاسکتا ہے۔

بشرطیکہ حد سے متجاوزنہ ہو، وگرنہ عقبی نشست پر بیٹھا مسافر شدید غصّے سے گھورنے لگے گا۔ دورانِ سفر، اگلی نشست کی پُشت بھی بےحد اہم ہوتی ہےکہ یہی وہ جگہ ہے، جو خود پر نصب فولڈنگ ٹیبل کے ذریعے ضیافت اُڑانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ نیز، اس پر موجود ایل ای ڈی طویل دورانیے کے سفر میں دل بہلائے رکھتی ہے، گویا کہ اپنے بیڈرُوم میں نیم دراز ٹی وی سے لُطف اندوز ہورہے ہوں۔ اس میں ہر مزاج کے شخص کے لیے اپنی مرضی کے پروگرامز دیکھنے کی سہولت موجود ہوتی ہے۔

مسلمان ممالک کی ایئر لائنز کے طیّاروں میں قرآن کی تلاوت سے لے کرای بُکس تک اور تمام ایئر لائنز میں موسیقی، ڈرامے، ٹی وی شوز، فلمز غرض ہر طرح کی ورائٹی دست یاب ہے۔ اگر اس ایل ای ڈی میں دست یاب مواد کےعلاوہ کچھ دیکھنا چاہیں یا اہلِ خانہ، دوستوں سے دورانِ پرواز رابطہ کرنا چاہیں، تومناسب ادائی پر وائی فائی کی سہولت بھی مل سکتی ہے اور اگر کوئی اِن میں سے کسی میں بھی دل چسپی نہ رکھتا ہو، تو اُس کے لیے سفر کا براہِ راست نقشہ، اس کی تفصیل بھی ایک چینل پر لگاتارمہیا کی جاتی ہے۔

اس سے بھی اُکتا جائیں، تو دن کے سفر کی صُورت کھڑکی کے باہر پھیلے بادلوں کا نظارہ کریں، جو اپنے اندر ایک الگ ہی حُسن سموئے ہوتے ہیں۔ کبھی علیحدہ علیحدہ تیزی سے محوِ پرواز چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی صُورت، تو کبھی یوں کہ جیسے تاحدِ نگاہ رُوئی کے سفید نرم گالوں سے بنا نرم قالین بچھا ہو۔ 

کبھی کبھار یہ بادل جہاز کو مکمل طور پرڈھانپ بھی لیتے ہیں اور ہمیں گہری سفیدی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ نیز، بعض اوقات سیاہ بدلیوں کا رُوپ بھی دھار لیتے ہیں،جن میں بجلیاں چمک رہی ہوتی ہیں۔ فضائی سفر کے دوران اس تجربے کا مشاہدہ خوف کا عُنصر پیدا کرتا ہے۔

جہاز میں اکثر’’ٹربولینس‘‘ نام کی ایک چیز سے بھی واسطہ پڑتا ہے،جو ہواکےدباؤ میں تبدیلیوں کےجہاز پر اثرات کے باعث تھرتھراہٹ کی شکل میں پیدا ہوتی ہے۔ کبھی کبھار تو یہ ہلکی پُھلکی ہو کر گزر جاتی ہے، مگر بعض اوقات اِس قدر شدّت اختیار کرلیتی ہے کہ مسافر سہم کر سیدھے بیٹھ جائیں اور خدانخواستہ اگر کبھی کسی ایئر پاکٹ میں خلا سے، جو ہوا کی گردش کے باعث بنتا ہے، سابقہ پڑجائے، تو پھرالامان الحفیظ … الغرض، یہ سب کچھ ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ ہمارا یہ اُڑتا ہوا گھر واقعتاً آسمان کی وسعتوں میں تیر رہا ہے، جس میں تفریح، حُسن، تنہائی اور سُکون کے ساتھ خالقِ کائنات کی قوّتوں کا احساس اورہیبت بھی ہوتی ہے۔

فضائی سفر کے دوران، کھانے پینےکی اشیاء ٹرالیز پرلائی جاتی ہیں، جن سےاُٹھنے والی اشتہا انگیز خوش بُوئیں اُن کی آمد سے قبل ہی اُن کے آنے کا اعلان کر دیتی ہیں۔ ہمیں تو یہ ٹرالیاں جادوئی الماریاں لگتی ہیں، جن میں ڈھیروں مسافروں کے لیے انواع و اقسام کے کھانے، چائے، کافی، قہوے اور جوسز کے علاوہ دیگر مشروبات کی بوتلیں یوں سمائی ہوتی ہیں کہ اگر آنکھوں سے دیکھا نہ ہو، توکسی کے بتانے پر یقین نہ آئے۔

ہر نشست کے پاس رُک کر ایئرہوسٹسز ایک کے بعد ایک سجی سجائی ٹرے نکالتی چلی جاتی ہیں، جن پر ڈسپوزایبل برتنوں میں، کھانا انتہائی سلیقے سے سجا ہوتا ہے۔ ٹرے حوالے کرنے کے بعد فضائی میزبان مسافروں سے اُن کے پسندیدہ مشروب سے متعلق پوچھتی ہے اور مرضی کا مشروب گلاس میں ڈال کر ہاتھ میں تھما دیتی ہے۔

حال ہی میں کینیا کےسفر کے دوران ایک خاصا طویل القامت شخص ہمارا ہم سفر تھا۔ وہ اپنی سیٹ پر ترچھا ہو کر یوں بیٹھا تھا کہ اُس کے گُھٹنے ہمارے گُھٹنوں میں گُھسے جا رہے تھے۔ بہتیرا شاکی نظروں سے دیکھا، مگر وہ خفیف سی آواز میں ’’سوری‘‘ کہنے کے تھوڑی ہی دیر بعد دوبارہ گُھٹنوں کی کُشتی میں مصروف ہوجاتا۔ سو، چاروناچار صبروشُکر کیے محوِ سفر رہے۔

کھانے کے بعد مشروب کی باری آئی، تو وہ بار بار ریڈ وائن کا مطالبہ کرتا رہا، یہاں تک کہ ادائیگی کر کے منگواتا رہا، جس کی ناگوار مہک نے کافی پریشان کیے رکھا۔ بعدازاں، ترنگ میں آکے ہمارا انٹرویو شروع کردیا اور یہ جاننے کے بعد کہ ہم ڈاکٹر ہیں، خود کودرپیش مختلف طبّی مسائل سے متعلق سوالات کی ایسے بوچھاڑ کردی کہ جان چُھڑوانا مشکل ہوگئی۔

ابتدا میں تو ہم نے بھی کمال حُسنِ اخلاق سے اُس کی پوری طرح تشفّی کی، لیکن جب سلسلہ رُکنے ہی میں نہ آیا، تو ہم نے سونے کی اداکاری کرتے ہوئے آنکھیں موند لیں اور یوں یہ سلسلہ تھما۔ بہرحال، بین الاقوامی سفرکے دوران بعض اوقات ایسی ناگوار صُورتِ حال بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔

ہوائی جہاز میں موجود ٹوائلٹ بھی اپنی نوعیت کی ایک دِل چسپ چیز ہوتی ہے۔ چھوٹے سے حصے پر مشتمل یہ بیت الخلاحیران کُن سہولتوں سےآراستہ ہوتا ہے۔ اِس کی صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ٹِشو پیپرز، ہینڈ سینیٹائزر، کلون اورڈی اوڈرائزر کی موجودگی، کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے ٹوائلٹ کا تاثر دیتی ہے۔

ہوائی جہاز میں موجود کموڈ کی صفائی کا انتظام بھی خاصا منفرد ہےکہ جہاز میں پانی کی سپلائی کم ہوتی ہے اور صفائی کی ضرورت زیادہ، تاکہ بدبو نہ پھیلے، اس لیے کموڈ میں ایک انتہائی طاقت وَر سکشن پمپ نصب ہوتا ہے جونہی صفائی کے لیے بٹن دباتے ہیں، توسکشن پمپ زوردار آواز کے ساتھ تھوڑا سا پانی استعمال کرتے ہوئے کموڈ مکمل طور پر صاف کردیتا ہے اور یوں ٹوائلٹ میں آنےوالا اگلا مسافر کسی قسم کی کراہیت محسوس نہیں کرتا۔

پُرانے ہوائی جہازوں میں کموڈ کی صفائی کےلیے جہاز کے باہر موجود بہت کم دباؤ والی ہوا کے سکشن کو استعمال کیا جاتا تھا، جو نچلی سطح یا زمین پر کارآمد نہ تھا۔ بہرحال، بتدریج ترقّی کے نتیجے میں اب یہ نیا سسٹم زیرِاستعمال ہے۔

یہ ’’پُرتعیّش اُڑتا ہوا گھر‘‘محض سہولتوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس میں زندگی کے آثار بھی دکھائی دیتےہیں۔ کوئی مسافر موسیقی میں کھویا ہوا ہے، کوئی فلم دیکھ رہا ہے، کوئی کھڑکی سے بادلوں کو تَک رہا ہے، تو کوئی پُرسکون نیند کے مزے لے رہا ہے۔ بچّوں کی ہنسی اور کبھی کبھار رونے کی آواز، ٹرالیزکی کھڑکھڑاہٹ، کھانے کی خوش بُو اور مسافروں کی دبی دبی آوازیں، سب مل کرایساماحول بنادیتے ہیں، جیسے کسی بڑے گھر کے مختلف کمروں میں لوگ رہائش پذیرہوں۔

بعض فضائی سفر تو اتنے مختصر ہوتے ہیں کہ فضائی میزبان مطلوبہ بلندی پر پہنچتے ہی اناؤنسمنٹ کردیتی ہے’’ ہم لینڈنگ کا آغاز کرنے والے ہیں، لہٰذا براہِ کرم سیٹ بیلٹ مت کھولیں۔‘‘ اِسی طرح متعدد سفر چار سے آٹھ گھنٹے پر محیط ہوتے ہیں، جیسا کہ مشرقِ وسطیٰ، یورپ کے ممالک کا سفر، لیکن کچھ سفر اتنے طویل ہوتے ہیں کہ انسان واقعتاً گھبرا جاتا ہے، مثلاً امریکا یا آسٹریلیا کی پروازیں۔ 

اِن کا دورانیہ 14سے 16گھنٹے تک ہے۔ اتنےطویل سفرکے دوران، خواہ کتنی ہی سہولتوں سے لُطف اندوز ہوں یا سوتے رہیں، وقت کاٹنا خاصا صبرآزما ہوتا ہے۔ سو، خدا خدا کرکے جب منزل پر پہنچتے ہیں، ہوائی جہاز کے پہیے رن وے چُھوتے ہیں، تو منہ سے بےساختہ ایک لمبی سکون بَھری سانس نکلتی ہے۔ 

لینڈنگ کےساتھ ہی زمین سے اپنا رابطہ بحال کرنے کی خواہش کے زیرِاثر اکثر مسافر اوورہیڈ لاکر سے سامان نکال کربے قراری کے عالم میں کھڑے ہو جاتے ہیں کہ انسانی فطرت میں موجود اضطراب ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے اور پھر جونہی گیٹ ملنے کے بعد جہاز کے دروازے کھُلتے ہیں، مسافر تیزی سے باہر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دروازے پر موجود فضائی میزبان مسکراتے ہوئے الوداعی کلمات ادا کرتی ہے، تو ایک طویل سفر اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔

تاہم، زمین پرقدم رکھنےکی بےچینی کے باوجود دل کےکسی گوشے میں ایک خواہش ضرور جاگتی ہے کہ یہ گھرآئندہ بھی ہمارا ٹھکانا بنتا رہے۔ کیوں کہ یہ گھر زمین پر نہیں، آسمان پر ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنی زندگی میں کم ازکم ایک بار اِس ’’اُڑتے ہوئے گھر‘‘ کی میزبانی کا مزہ ضرور لینا چاہتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہوائی جہاز کا سفر محض ایک سفر نہیں، زندگی کے ایک نئے رُخ کا مکمل تجربہ ہے۔ ہوا کے دوش پر بنا، بادلوں کے بیچ تیرتا ایک گھر ہمیں صرف منزل تک نہیں لے جاتا، یہ احساس بھی دلاتا ہے کہ سہولت، صفائی، ترتیب و توازن مل کر زندگی کو کس قدر خُوب صورت بنا سکتے ہیں۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’متفرق‘‘

٭ ہر ناکام انسان نکھٹو (عمران رفیع، کراچی) ٭ حجاب (عرشمہ عمر) ٭ حجامہ (پروفیسر حکیم سیّد عمران فیاض) ٭ بین الاقوامی شہر کی حالتِ زار، کریم آباد کا انڈر پاس، فاریہ چوک، کراچی:پاکستان کی شناخت (صغیر علی صدیقی، کراچی) ٭ سیرت النبیؐ، ماہ و سال کے آئینے میں، سپوتِ کشمیر(بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور) ٭ صمود فلوٹیلا، سیرت النبیؐ، غزہ مارچ، محاصرہ (صبا احمد، کراچی)٭ نظرِبد، حُسنِ خلق، ہمارےاساتذہ (زہرایاسمین، کراچی)٭ ہمارا اور مغربی نصاب (جاوید سیہوانی) ٭ اب نہیں، تو کب؟ (خدیجہ طیب، اسلام آباد) ٭ اسلام میں عورت کا مقام (افروز عنایت) ٭ صبح سویرے (ڈاکٹر شاہد ایم، شاہد، واہ کینٹ) ٭ استاد، کاروانِ علم (ثاقب نظامی، لیہ) ٭ کانفرنس کی رپورٹ (ڈاکٹرایم عارف سکندری، حیدرآباد) ٭ حزن (بلقیس متین، کراچی) ٭ ذہنی صحت کا عالمی یوم (ارشد حسین) ٭ گل نواز بٹ شہید (ذوالفقار حیدر نقوی، اپر ٹنڈالی، مظفر آباد) ٭ آفتابِ صحافت (صلاح الدین ندیم) ٭ ہاتھ دھونے کا عالمی دن، نگہداشت اور تعاون (محمّد صفدر خان ساغر، راہوالی، گوجرانوالہ) ٭ تھیم پارک، ملتان (مسز شہناز صدیقی، ملتان روڈ، لاہور) ٭ کچھ توجّہ اِدھر (محمد اویس حیدر، سیٹلائٹ ٹائون، جھنگ) ٭ زبان سے قوم کی پہچان، سڑکوں کےکھڈے (خلیل الرحمان) ٭ توتوں کے شائقین (مرزا محمّد رمضان) ٭ وانیہ نور کا حوصلہ (دلشاد عالم) ٭ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص) ٭ پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم (محمّد افتخار علی ظفر، فاروق آباد) ٭ وزیرِ بلدیات کے نام (ملک خالد محمود اعوان) ٭ بات تو سچ ہے مگر (نرجس مختار، خیرپور میرس) ٭ انصاف کی تشنگی (زاہد رئوف کمبوہ، گوجرہ) ٭ اجتماعِ عام (ہنیزہ قادر)۔

سنڈے میگزین سے مزید