• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

استحصال زدہ خواتین اور حقوقِ نسواں کی علم بردار تنظیمیں

بِلاشُبہ عورت کے بغیر کائنات ادھوری، نامکمل ہے۔ عورت اپنی موجودگی سے زندگی کے ہر پہلو میں حُسن و معنویت اور ایک توازن پیدا کر دیتی ہے۔ قدرت نے اِسے محض صنفِ نازک ہی نہیں بنایا بلکہ صابرہ، حکیمہ اور خالِقہ کے درجات پر بھی فائز کیا ہے۔ 

وہ نسلِ انسانی کے تسلسل کی امین، تہذیب کی بنیاد اور معاشرتی اقدارکی محافظ ہے۔ اسلام نےعورت کو وہ عزّت و وقار بخشا ہے، جو اس سے قبل اُسے کسی معاشرے میں میسّر نہ تھا۔ دینِ اسلام نے عورت کےماں کے رُوپ اس قدر تکریم دی کہ جنّت اس کےقدموں تلے ڈال دی۔ 

بیٹی کے طور پر باعثِ برکت اور بہن کی صُورت احترام کا استعارہ قرار دیا، جب کہ بیوی کی شکل میں سُکونِ قلب کا ذریعہ بنایا، مگر افسوس کہ جدید دُنیا کے ترقّی کے دعووں کے باوجود، عورت آج بھی سخت ظُلم و جبر، امتیازی رویوں اور ہراسانی کا شکار ہے۔

اقوامِ متّحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر تین میں سے ایک عورت کو کسی نہ کسی شکل میں جسمانی یا ذہنی تشدّد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں یہ تناسب اور بھی زیادہ ہے، جہاں گھریلوتشدّد، جبری شادیاں، جہیز کے تنازعات، تیزاب گردی، ہراسانی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات عام ہیں۔

گرچہ پاکستان میں شرعی و اخلاقی اور آئینی و قانونی سطح پر عورت کے حقوق کی ضمانت موجود ہے، تاہم عملی سطح پر سماجی رویّوں، روایتی تنگ نظری اور مرد کی بالادستی کے رجحان کے سبب متعدّد مواقع پر عورتوں کو سخت مشکلات ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسلام نے واضح طور پر عورت پر ظُلم کو حرام قرار دیا ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ ’’عورتوں کےبارے میں اللہ سے ڈرو، کیوں کہ وہ تمہارے زیرِعہد ہیں۔‘‘ مگر آج کے معاشرے میں یہی عورت کہیں سڑک پر ہراسانی کا نشانہ بنتی ہے، تو کہیں گھر کے اندر ظلم کا شکار ہے، اور کہیں دفاتر میں اُسے ناانصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یاد رہے، تشدّد صرف جسمانی نہیں ہوتا، بلکہ اس کی کئی اقسام ہیں۔ بالخصوص،ذہنی و نفسیاتی تشدّد عورت کی خُود اعتمادی اور شخصیت کومجروح کرکے رکھ دیتا ہے۔

ہر سال 25 نومبر کو دُنیا بَھر میں خواتین پر تشدّد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا آغاز 1960ء میں اُس وقت ہوا کہ جب ڈومینیکن ری پبلک کے آمرحُکم راں، رافیل ٹروجیلو کے حُکم پر تین بہنوں، پیٹریامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو بےدردی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ تینوں بہنیں ٹروجیلوکی آمریت کے خلاف جدوجہد کررہی تھیں۔

17دسمبر 1999ء کو اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدّد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دُنیا بَھر کی طرح پاکستان میں بھی 25 نومبر کو خواتین پر تشدّد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

یہ دن منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی و جسمانی تشدّد اور اُن کے مسائل سے متعلق آگہی فراہم کرنا ہے۔ یاد رہے، آج بھی دُنیا کے بہت سے ممالک میں خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدّد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اکثر خواتین خُود پر ہونے والے ظُلم کے خلاف آواز بھی نہیں اُٹھا سکتیں۔

گرچہ آج خواتین کے حقوق کے تحفّظ کے لیے متعدّد تنظیمیں، تحاریک اور ادارے سرگرمِ عمل ہیں، لیکن ان میں سے بیش تر محض دکھاوے، نمائش اور فنڈنگ کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ ان کے جلسے، سیمینارز اور رپورٹس محض زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں، جب کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔

بدقسمتی سے یہ این جی اوز اکثر خود نُمائی، اعداد و شمار کی بازی گری اور بیرونی فنڈنگ کے حصول ہی میں سرگرداں نظر آتی ہیں۔ ان کے منشور اور بیانات میں عورت کی آزادی کے نعرے تو گونجتے ہیں، مگر دُور دراز علاقوں، پس ماندہ بستیوں اور محروم طبقات کی خواتین آج بھی ان کی توجّہ سے یک سر محروم ہیں۔

خواتین کے حقوق کے تحفّظ کی دعوے دار ان تنظیموں کے نمائندے بڑے بڑے شہروں کے ہوٹلز اور کانفرنس ہالز میں خواتین کے حقوق کے ضمن میں تقاریر تو کرتے ہیں، مگر بَھٹّوں پر کام کرنے والی، کپاس چُننے والی مزدور عورتیں، گھریلو ملازمائیں، خانہ بدوش بستیوں میں زندگی گزارنے والی مائیں، بیٹیاں، بھیک مانگنے پر مجبور معمرخواتین اور کارخانوں میں کام کرنے والی کم سِن بچّیاں اُن کے ایجنڈے میں کہیں شامل نہیں۔

واضح رہے کہ یہی وہ طبقہ ہے کہ جسے حقیقی معنوں میں مدد، تعلیم، قانونی تحفّظ اور سماجی سہارا درکار ہے، مگر بدقسمتی سے ان اداروں نے ان کی آواز سُننے کی بجائے مغربی تصوّرات پر مبنی آزادیٔ نسواں کے کھوکھلے نعروں کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔

خواتین کے حقوق کی محافظ ہونے کی دعوے دار این جی اوز نے ان پس ماندہ اور ظُلم و ستم کی شکار خواتین کے لیے محفوظ پناہ گاہیں قائم کیں اور نہ اُن کی صحت، روزگار یا تعلیم کے لیے کوئی مؤثر منصوبہ بندی کی گئی اور اس ضمن میں ذرائع ابلاغ اور متعلقہ ادارے دونوں خاموش ہیں۔ یاد رہے، عورتوں کے حقوق کے نام پر بننے والے ادارے جب تک اپنی ترجیحات بدلتے ہوئے زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہ ہوں گے، تب تک ان خواتین کی زندگی تشدّد، استحصال اور بےبسی کے گرداب ہی میں پھنسی رہے گی۔ 

عصرِ حاضر میں ترقّی یافتہ ممالک میں بھی عورت مساوی حقوق کی عدم فراہمی کا تذکرہ کرتی نظر آتی ہے، لیکن عورت کے اصل مقام و مرتبے اور اُس کے مقاصدِ تخلیق کی درست رہ نُمائی اسلام کے علاوہ کسی اور دین نے فراہم نہیں کی۔ دوسری جانب خواتین پر تشدد کرنے والے جہاں کہیں بھی ہوں، اُنہیں کڑی سے کڑی سزادی جانی چاہیے۔ خواہ تشدّد کُھلے عام ہو یا خفیہ، درحقیقت عورت پر تشدّد مَرد کی بہادری کی نہیں، سخت بُزدلی کی نشانی ہے۔

خواتین کسی بھی معاشرے کا حُسن ہوتی ہیں، لیکن کسی پُھول کے خُوب صُورت ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُسے ٹہنی سے الگ کر کے کُچل دیا جائے، بلکہ ان پُھولوں کی حفاظت، اُن کے نکھار میں اضافہ ہماری مشترکہ ذمّے داری ہے۔ دوسری جانب خواتین پر تشدّد بنیادی انسانی حقوق کے بھی منافی ہے اور ایک مہذّب معاشرے کے قیام کے لیے ہمیں خواتین پر تشدّد کا خاتمہ اور اُن کا تحفّظ ہر حال میں یقینی بنانا ہوگا۔ 

اس ضمن میں دینِ اسلام کا بتایا گیا خاندانی نظام ایک عظیم نعمت ہے، جو نہ صرف نسلوں کی حفاظت کا ضامن ہے، بلکہ معاشرے میں جنسی بےراہ روی روکنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں حقیقی معنوں میں عورت کے حقوق کا عَلم بردار بننا چاہیے۔ 

سو، سب سے پہلے گھر میں موجود اپنی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو عزّت دینے سے اِس عمل کا آغاز کیجیے اور معاشرے کو دینِ اسلام میں عورت کو دیے گئے قابلِ قدر حقوق سے آگاہ کرنے میں اپنا کردارادا کیجیے، کیوں کہ آپ بہرطور اِسی طرح تصویرِ کائنات میں کچھ نئے رنگ بَھرسکتے ہیں۔