اٹلی کی عدالت میں دائر کی گئی ایک درخواست پر 1990ء کی دہائی کی بوسنیا جنگ کے دوران مبینہ ’اسنائپر سفاری‘ ٹورز کی باضابطہ طور پر تحقیقات کا اغاز کر دیا گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں الزام عائد کیا گیا کہ اٹلی سمیت مختلف ممالک کے افراد بوسنیا کے دارالحکومت سرائیوو لے جائے جاتے تھے جہاں وہ رقم کے عوض نہتے شہریوں پر گولیاں چلاتے تھے۔
یہ واقعات بوسنیائی سرب فورسز کے ہاتھوں سرائیوو کے محاصرے کے دوران پیش آئے جس میں ہزاروں شہری مارے گئے۔
اسنائپر سفاری تحریک کیا تھی اور کیسے چلتی تھی؟
الزامات کے مطابق 1992ء سے 1996ء کے دوران بندوقوں کے شوقین اور امیر افراد اٹلی کے شہر تریئستے میں جمع ہوتے جہاں سے اِنہیں ویک اینڈ پر سابق یوگوسلاویہ کی ہوائی کمپنی کے ذریعے سرائیوو کے گردونواح کی پہاڑیوں میں لے جایا جاتا۔
وہاں وہ مبینہ طور پر بوسنیا کے سرب ملیشیاؤں کو ادائیگی کر کے شہریوں پر فائرنگ کرتے تھے۔
تحقیقات میں دعویٰ کیا گیا کہ اس قتلِ عام کے لیے انتہائی بھاری رقوم بٹوری جاتی تھیں اور مبینہ طور پر ہدف کے مطابق ایک ’ریٹ لسٹ‘ بھی دی جاتی تھی جس میں بچوں پر فائرنگ کے عوض سب سے زیادہ رقم لی جاتی تھی۔
ان سرگرمیوں کا کِسے علم تھا؟
تحقیقات کے مطابق یہ سب خفیہ اداروں کی معلومات کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
بوسنیا کے ایک سابق فوجی انٹیلیجنس افسر کا کہنا ہے کہ جس انداز سے پروازوں اور رسائی کا انتظام کیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرب ریاستی سیکیورٹی ڈھانچہ اس عمل سے باخبر تھا۔
تحقیقات سے متعلق بوسنیا کی حکومت نے بھی اٹلی کے حکام سے مکمل تعاون کا اعلان کیا ہے۔
سرائیوو کے متاثرین کا مؤقف
سرائیوو میں محاصرے کے دوران پرورش پانے والے افراد کا کہنا ہے کہ ویک اینڈ پر فائرنگ اور ہلاکتوں میں اضافہ معمول تھا اور اس بارے میں ہمیشہ افواہیں گردش میں رہتی تھیں کہ باہر سے لوگ شہریوں کو نشانہ بنانے آتے ہیں۔
متاثرین نے امید ظاہر کی ہے کہ اس نئی تحقیقات کے نتیجے میں جنگ کے دوران ہونے والے جرائم کو دنیا کے سامنے آنے کا موقع ملے گا۔
دیگر ممالک کے افراد بھی شامل تھے؟
غیر ملکی میڈیا کا اپنی رپورٹ میں بتانا ہے کہ اس قتلِ عام میں صرف اٹلی ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک روس اور امریکا کے کچھ افراد بھی ان مجرمانہ سرگرمیوں میں شریک رہے۔
بین الاقوامی عدالت میں دی گئی ایک سابق امریکی کی گواہی میں بھی ’ٹورسٹ شوٹرز‘ کے وجود کی تصدیق کی گئی ہے۔