• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا ملک پہلے ہی قحط الرجال کا شکار ہے۔صاحب کردار لوگ راہی ملک عدم ہو رہے یا گوشہ نشینی میں عافیت سمجھ رہے ہیں۔ذاتی مفادات،لالچ،حرص اور بدعنوانی کے تعفن سے دماغ پھٹ رہا ہے اور مزید ستم یہ ہے کہ اس صورتحال پر رونے کو نہ کندھا دستیاب ہے نہ حدیث دل سننے والے صاحب دل افراد،اس اجاڑ اداس اور سنسان ماحول میں جسٹس ریٹائرڈ افتخار چیمہ جیسے صاحب کردار لوگوں کا کوچ کر جانا ناقابل تلافی نقصان ہے۔آپ عدالت میں تھے تو عدلیہ کا وقار تھے سیاست میں آئے تو پارلیمان کے وقار میں اضافہ کیا۔مرحوم ایم حمزہ کی طرح سر پر جناح کیپ سجائے عاجزی و انکساری کے ساتھ پارلیمنٹ کی کارروائی میں حصہ لیتے تو نوجوان سیاستدانوں کو اخلاقیات اور روایات کے اسباق پڑھا دیتے۔پاکستان کے سیاسی و سماجی منظرنامے میں کچھ خاندان ایسے ہوتے ہیں جن کی پہچان صرف سیاست نہیں بلکہ خدمت، شرافت اور علم و عدل کی روایت ہوتی ہے۔ وزیرآباد کا چیمہ خاندان انہی خانوادوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی خاندان کے نامور فرزند جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ ہیں، جنہوں نے عدلیہ سے سیاست تک کا سفر ایسی دیانت داری سے طے کیا کہ ان کا نام قانون، خدمت اور شائستگی کی علامت بن گیا۔افتخار احمد چیمہ ایک ممتاز تعلیمی و دینی ماحول میں پلے بڑھے۔ ان کے والد محترم نے اپنے بیٹوں کی تربیت علم، ایمانداری اور خدمتِ خلق کے اصولوں پر کی۔ یہی تربیت تھی جس نے اس گھرانے کو عدلیہ، بیوروکریسی،اور پولیس جیسے باوقار اداروں تک پہنچایا۔ ان کے بھائی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ سابق رکنِ قومی اسمبلی ہیں جبکہ ذوالفقار احمد چیمہ پاکستان پولیس کے مایہ ناز افسر اور آئی جی کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ افتخار احمد چیمہ نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اپنایا، مگر جلد ہی عدلیہ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ عدالت کے ایوانوں میں انصاف، قانون کی بالادستی اور عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے جانے جاتے رہے۔ اپنے عدالتی دور میں انہوں نے کئی اہم فیصلے دیانت داری، غیر جانب داری اور جرات مندی سے کیے۔ وہ جج بن کر صرف قانون کے محافظ نہیں رہے بلکہ عدل کے امین بھی ثابت ہوئے۔ ان کے فیصلے آج بھی عدالتی حلقوں میں مثال کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد جب انہوں نے سیاست کا رخ کیا تو ان کے حلقے کے عوام نے انہیں محبت اور اعتماد کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر تین مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کے دور میں وزیرآباد میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا گیا۔ انہوں نے عوامی خدمت کو اپنی سیاست کا مقصد بنایا۔ تعلیم کے فروغ، صحت کے نظام میں بہتری اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے ان کی کاوشیں نمایاں رہیں۔ ان کے جلسوں میں شائستگی، گفتار میں وقار اور طرزِ سیاست میں اخلاق کا عنصر نمایاں نظر آتا تھا۔

افتخار احمد چیمہ کے سیاسی رویے میں انتقام، اشتعال یا الزام تراشی کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ وہ سیاست میں بھی عدل و توازن کے قائل تھے۔ اپنے مخالفین کے لیے بھی ان کی زبان میں نرمی اور رویے میں شرافت رہتی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے حلقے کے عوام انہیں صرف ایک سیاست دان نہیں بلکہ بزرگ اور رہنما کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔

جسٹس افتخار چیمہ کے فرزند بیرسٹر عثمان چیمہ نے قانون کے میدان میں اپنی پہچان قائم کی ہے۔ وہ جدید قانونی علوم، بین الاقوامی قانون اور سماجی خدمت کے امتزاج کے ساتھ ایک فعال نوجوان رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی اہلیہ اور بچوں نے بھی اس علمی وراثت کو سنبھالا ہوا ہے۔ حال ہی میں بیرسٹر عثمان چیمہ کی صاحبزادی نے اپنی کم عمری میں بین الاقوامی سطح پر تعلیمی ریکارڈ قائم کر کے پاکستان کا نام روشن کیا۔ اس کامیابی نے نہ صرف خاندان بلکہ پورے وزیرآباد اور گوجرانوالہ کو فخر سے سرشار کر دیا۔ جسٹس افتخار چیمہ کی قابل فخر اور باصلاحیت پوتی نے اپنے دادا کی طرح علم و فضل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور آج ایک دنیا انکی صلاحیتوں کی معترف ہے۔علم کے میدان میں وہ پاکستان کی سفیر ہیں۔

سیاست میں کردار کا بحران ہو تو افتخار چیمہ جیسے لوگ روشنی کا مینار بن کر یاد آتے ہیں۔ وہ سیاست میں اس دور کے نمائندہ تھے جب گفتگو میں تہذیب تھی، اختلاف میں شائستگی تھی، اور خدمت میں خلوص تھا۔ آج جب سیاست میں الزام، انتقام اور ذاتی مفادات کا غلبہ ہے، تو جسٹس افتخار چیمہ جیسے کرداروں کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔افتخار احمد چیمہ کا طرزِ زندگی سادگی، اصول پسندی اور خدمت کا مظہر ہے۔ وہ سیاست میں بھی عدل کے وہی معیارات چاہتے تھے جو عدالت میں رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی گفتگو میں کبھی غرور نہیں بلکہ شکر اور عاجزی نمایاں رہتی ہے۔ ان کے قریبی ساتھی بتاتے ہیں کہ وہ اکثر کہا کرتے تھےکہ سیاست عبادت تب بنتی ہے جب نیت خدمت ہو، ورنہ یہ سب وقتی کھیل ہے۔

آج جب وزیرآباد کے عوام اپنے علاقے کی ترقی کے ماضی اور حال کا موازنہ کرتے ہیں تو جسٹس افتخار چیمہ کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔انکے بھااب بھی اپنے حلقے کے لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں، اور عوام کے دلوں میں ان کا مقام بدستور قائم ہے۔اگرچہ ن لیگ نے ضمنی انتخاب میں ان کے خاندان کو ٹکٹ نہ دیا، مگر عوامی دلوں میں ان کا سیاسی اور اخلاقی سرمایہ برقرار ہے۔ شاید اقتدار کی کرسی وقتی ہوتی ہے، مگر کردار اور خدمت کی یادیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور افتخار احمد چیمہ کا کردار اسی سچائی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔اللہ کریم جسٹس افتخار چیمہ کے درجات بلند فرمائے اور قوم کو ان جیسے باکردار رہنما بھی عطا فرمائے آمین۔

تازہ ترین