• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیو ٹالسٹائی کا وار اینڈ پیس کے بعد سب سے بہترین ناول دی ڈیتھ آف ایوان ایلیچ قرار دیا جاتا ہے ۔ برسوں پہلے جب اس ناول کا مطالعہ کیا تھا تو اسکی کہانی میں ایک’’اپنا پن‘‘ محسوس ہوا تھا ۔ ٹالسٹائی ایک ایسے جج کی زندگی کے آخری لمحات کوبیان کرتاہے جو معمولی’’ جرائم‘‘ پر بڑی بڑی سزائیں دینے میں معروف تھا ۔ اس ناول کی کہانی در حقیقت ’’ ٹولا ‘‘ عدالت میں متعین ایک جج کی زندگی کا سفر مکمل ہونے سے قبل کے آخری ایام کی تلخیاں سامنے لاتی ہے ۔ ایک ریلوے اسٹیشن پر ٹالسٹائی کو اس جج کے ستائے پابہ زنجیر مرد و زن مل گئے تھے تو ٹالسٹائی نے دوسروں کو اذیت دینے والے کے آخری دنوں کو ضبط تحریر میں لانے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس جج کے آخری دنوں کی ذہنی کیفیت ، کرب کو محسوس کرتےہوئے ٹالسٹائی نے اس کے ذہن کو ایسے پڑھا کہ وہ یہ سوچتا تھا کہ بندھی ہوئی تمام امیدوں کو توڑنا بہت آسان تھا ۔ اس کیلئے صرف گزری یادوں کو دہرا لینا ہی کافی ہوتا ہے ۔ وہ سوچتا کہ وہ اب سے تین مہینے پہلے کیسا تھا اور اب کیا ہے ؟ پستی کی طرف گرنے کے عمل میں بھی کس قدر استحکام ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک جج پستی کی طرف گرتا ہی کیوں ہے ؟

اس کا جواب سیدھا سادہ سا ہے کہ جج کی طاقت کسی بندوق کے زور پر نہیں بلکہ اس کے آئین و قانون پر سختی سے عمل پیرا ہونے میں ہوتی ہے ۔جب جج از خود ہی قانون کی بالا دستی کی بجائے اپنے کہے کو حرف آخر اور قانون کا درجہ دے رہا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں وہ در حقیقت اس پیڑ کو ہی کاٹنے میں مشغول ہوتا ہے کہ جسکی چھاؤں ہی اس کیلئے حقیقی معنوں میں طاقت ہوتی ہے ۔ جب افتخار چوہدری کے روپ میں ہم ہی آئین و قانون ہیں کا نظریہ ملک میں حاکم بن گیا تو اس وقت ہی یہ صاحبان بصیرت کو صاف دکھائی دینے لگا تھا کہ موجودہ نظام عدل ، عدل فراہم کرنے کی جگہ طاقت کے ایوان کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور اب اسکا اس شکل میں برقرار رہنا طاقت کے بدلتے تقاضوں کے سبب ممکن نہیں رہے گا ۔ کیونکہ یہ صرف افتخار چوہدری تک محدود نہیں تھا بلکہ بعد میں تو ثاقب نثار نے ہر شرم کو اتار پھینکا تھا ۔ سول بیورو کریسی کی تذلیل سے لیکر سیاسی نظام کی چولیں تک ہلادینا جسٹ فار فن کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ جولائی 2017ء میں جو شرمناک کردار بالادستوں کی ہلہ شیری پر سامنے آیا اس نے ملک کے پورے سیاسی نظام ہی کو زخمی کر دیا کہ جسکے زخموں سے نجانے کب تک خون رِستا رہے گا ۔ اس تمام کا منطقی نتیجہ وہی ہونا تھا جو سامنے آیا ہے ۔ اس کیساتھ ساتھ ایک اور بھی تصور کا احساس ہوا ہے کہ تاحیات استثنیٰ کی ضرورت کسی کو بھی اسلئے لاحق ہوئی ہے کہ کبھی ہم بھی کمال سے زوال کی جانب جائیں گے اور مقدمات ہمارے بھی منتظر ہونگے تو ابھی سے اپنے آپ کو آئینی قلعوں میں محفوظ کرلو حالانکہ جو آئین اپنے آپ کو تین بار بےتوقیر ہونے سے نہ بچا پایا ، اسکی ایک شق کسی کو کیا تحفظ دیگی، اس وقت کے طاقتوروں نے جو کرنا ہوگا کر گزریں گے کوئی بلیک لا ڈکشنری دریافت کر ہی لینگے ۔ جس طرح جج کی طاقت آئین و قانون میں مضمر ہوتی ہے اس طرح سیاست دان کی طاقت آئین کے میدان کیساتھ ساتھ کارکردگی کی کسوٹی سے بھی پرکھی جاتی ہے اور اس وقت حکومت کے سامنےیہی میدان ہے اور کارکردگی میں کوئی کامیابی حقیقی معنوں میں تب ہی قابل پذیرائی ہوتی ہے کہ جب اسکے ثمرات سے عام آدمی مستفید ہو رہا ہو ۔ ابھی کچھ روز قبل ہی نگ چارلس کی برتھ ڈے کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پی آئی اے کی بحالی میں برطانوی سفیر جین میریٹ نے بہت کردار ادا کیا ہے ، پی آئی اے کی بحالی ایک ایسا ہدف ہے جو برسوں سے حاصل نہ ہونے کی وجہ سے قومی خزانے پر بڑا بوجھ ہے ۔

اسی تقریب میں مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے برطانوی سفیر جین میریٹ نے پاکستان اور برطانیہ کے مزید اچھے تعلقات پر گفتگو کی ۔ ایسے سفارت کاروں کی پاکستان کے حوالے سے مثبت ومتحرک سوچ کو مزید استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔

سیاسی افق پر ایک بہت ہی اچھی خبر یہ ہے کہ جماعت اسلامی لاہور میں کافی عرصے بعد اپنا اجتماع کر رہی ہے ، جماعت اسلامی پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر واحد مذہبی جماعت ہے جو پورے ملک میں اپنی جڑیں رکھتی ہے اور انکے پاس علم کی دنیا میں مولانا مودودی جیسے نابغہ کی شناخت موجود ہے ۔ سیاسی جماعت اور وہ بھی مذہبی، کی سیاسی جڑیں پورے ملک میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو جوڑے رکھنے کی ایک متحرک قوت ہے اور جب اس قوت کو بھی کمزور کیا گیا تو اس کے اثرات مرتب بھی ہوئے ۔ جماعت اسلامی ایک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس بھی منعقد کروارہی ہے۔ جہاں جماعت اسلامی اپنے گہرے اثرات رکھتی ہے یا رکھتی تھی وہاں پر موجود دیگر سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کو مثبت سیاسی چیلنج کے طور پر لینا چاہئے تا کہ صحت مند سیاسی مقابلہ دیکھنے کو مل سکے ، گالم گلوچ سے پاک ، کارکردگی اور نظریات پر مقابلہ ۔ نابغہ کی بات کی ہے تو انگریزی زبان و ادب کا ایک نابغہ گزشتہ ہفتے ابدی حیات کی طرف منتقل ہو گیا ، پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے سابق سربراہ پروفیسر رضی عابدی کبھی کرشن نگر لاہور میں رہائش رکھتے تھے میرے والد سیدمظفر زیدی نے مجھے انکے پاس پڑھنے کیلئے ان کے گھر بھیجا تو اگلے دن میں اپنے دوست اور آج کے معروف صحافی عبادالحق کے ساتھ انکے پاس پہنچ گیا ۔ پروفیسر رضی عابدی سے فیس کے متعلق بات کی تو انہوں نے ایسا جواب دیا کہ ہمیشہ کیلئے لوح دل پر نقش ہو گیا ۔ مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ دونوں کا بلاناغہ مجھ سے پڑھنے کیلئے آنا ہی میری فیس ہوگی ، جب کبھی استاد محترم کی زیارت نصیب ہوتی تو فرماتے تیرے جیسے کتاب و قلم کے آدمی کا سیاست میں کیا کام ، اس طرف کیوں چلا گیا ہے ؟ آنکھوں میں آنسو اور ہاتھ لرزنے لگے ہیں ، خدا استاد محترم کی قبر پر اپنی رحمتوں کی برسات فرمائے ۔ آمین ۔

تازہ ترین