• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدینے میں موسم قدرے خوشگوار تھا، درجہ حرارت دیکھنے میں زیادہ تھا، محسوس کرنے میں کم۔ کچھ ہوا بھی چل رہی تھی۔ ہم نے ہوٹل میں سامان رکھا اور باہر نکل آئے، سامنے مسجد نبوی تھی، لیکن اس کے ارد گرد بھی ہوٹلز اور فوڈ چینز کا جمگھٹا بنا ہوا تھا۔ مکّے کی نِسبت مدینے میں ماحول نسبتاً ریلیکسڈ تھا، شاید اِس لیے کہ عمرہ کرنے کے بعد بندہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے، یا مدینے کی فضا ہی کچھ ایسی ہے۔ حرم پاک کی طرح مسجد نبوی میں بھی مختلف دروازوں کے نمبر لکھے ہیں مگر رہنمائی کے نشانات یہاں بھی اُس طرح نہیں جیسے اِن جگہوں پر ہونے چاہئیں، پہلی مرتبہ آنے والے اِدھر اُدھر سے پوچھ کر ہی رياض الجنہ، روضہ رسولﷺ اور جنت البقیع میں جاتے ہیں۔ ویسے پاکستان میں یار لوگوں نے اِن امور میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے لیکن پھر بھی بتانا فرض ہے کہ مسجد نبوی میں ریاض الجنہ وہ جگہ ہے جہاں رسول اللہﷺ خطبہ دیا کرتے تھے، اسے جنت کا ٹکڑا کہتے ہیں۔ اندر جانے کیلئے ایک طویل قطار تھی، عورتوں کو یہاں جانے کی اجازت نہیں۔ مسلمان یہاں نوافل پڑھتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں۔ گزشتہ کالم کے ردعمل میں جنابِ اظہار الحق نے مجھے کہا کہ برخوردار، کالم میں ذاتی عبادات کا بیان نہیں لکھا کرتے سو میں اُن کی ’آڈٹ ابزرویشن‘ کو درست مانتے ہوئے یہ نہیں لکھوں گا کہ میں نے کتنی نمازیں یا نوافل پڑھے، ویسے بھی مجھے کچھ یاد نہیں، جتنی دیر میں وہاں رہا، ہوش نہیں تھا۔ جنت البقیع بھی مسجد نبوی سے متصل ہے، اگر کوئی جنازہ ہو تو نماز عصر کے بعد یہاں لایا جاتا ہے، اور اسی کے ساتھ لوگوں کو جنت البقیع میں داخل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ میں بھی اسی طرح ایک جنازے کے ساتھ چلا گیا، آگے ایک وسیع و عریض میدان تھا جس میں دور دور تک قبریں پھیلی ہوئی تھیں تاہم کسی قبر پر نہ کوئی کتبہ تھا اور نہ کوئی نشان، تمام قبریں کچی تھیں اور اُن پر ایک یا دو پتھر گڑے تھے، کسی نے بتایا کہ ایک پتھر والی قبر مرد کی اور دو پتھروں والی عورت کی ہے۔ سینکڑوں جید صحابہ کرام یہاں دفن ہیں مگر پتا نہیں چلتا کہ کون سی قبر کس کی ہے۔ جنت البقیع کے ارد گرد بلند و بالا اپارٹمنٹس ہیں جن کی کھڑکیوں سے یہ پورا میدان دکھائی دیتا ہے۔ روضہ رسولﷺ کی زیارت کرنے کیلئے باب السلام سے داخل ہوا جاتا ہے۔ مجھے اِس کا علم نہیں تھا حالانکہ یہ تمام معلومات انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، لوگوں نے اِس پر تفصیلی ویڈیوز بنائی ہوئی ہیں مگر میں نے جان بوجھ کر یہ تحقیق نہیں کی تھی کیونکہ مجھے نعت کا وہ شعر رہ رہ کر یاد آتا تھا کہ ”ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے اور گلیوں میں قصداًبھٹک جائیں گے۔“ میں بھی بھٹکتا ہوا باب السلام پہنچ گیا۔ اسی اثنا میں مدینے میں موسم کی پہلی بارش شروع ہو گئی، خوشگوار ہوا نے رُت بدل دی، اور پھر جونہی باب السلام سے اندر داخل ہوا، دل کا موسم بھی بدل گیا۔ بھِیڑ اِس قدر زیادہ تھی کہ پہلے لگا کہ شاید روضہ رسولﷺ کی زیارت ہی نصیب نہ ہو، مگر بالآخر وہ لمحہ بھی آیا جب یہ گناہگار روضہ رسولﷺ کی جالی کے بالکل پاس پہنچا اور اپنا سلام حضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔ میں نے زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ سعادت بھی میری قسمت میں لکھی ہوگی۔مدینے کی زیارتیں کمال کی ہیں، موازنہ تو نہیں بنتا مگر مجھے مکّے سے زیادہ مدینے کی زیارتوں نے حیران کیا، شاید اِس کی وجہ ہمارا گائیڈ کم ڈرائیور بھی تھا جو زیارت کرواتے ہوئے پوری تاریخ بھی بتاتا تھا۔ ایک ہوٹل اُس نے دکھایا جو حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کے نام پر تھا، انہی کی جائیداد تھی جو اب وقف ہے، اِس ہوٹل کا بجلی پانی کا بِل، بینک اکاؤنٹ، سب حضرت عثمان کے نام ہے۔ مدینے کی مرکزی شاہراہ پر آئیں تو سامنے احد کا پہاڑ نظر آتا ہے جو سات کلومیٹر پر پھیلا ہے، جنگ اُحد میں جب رسول اللہ ﷺ کے دانت مبارک شہید ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں ایک محفوظ مقام پر لے گئے اور پھر وہاں سے پہاڑ کی جانب ایک غار میں۔ وہ غار اب بھی موجود ہے، وہاں جانا منع ہے مگر لوگ جاتے ہیں اور تصاویر بناتے ہیں۔ ڈرائیور ہمیں راستے میں جا بجا تاریخی جگہیں دکھا رہا تھا مگر اُن جگہوں کی نہ تو کوئی نشاندہی کی گئی تھی اور نہ ہی انہیں تاریخی ورثے کے طور پر محفوظ کیا گیا تھا، مثلاً ایک جگہ اُس نے دکھائی جہاں آنحضرت ﷺ نے جنگ اُحد پہ جانے سےقبل صحابہ کرام کو ٹریننگ دی تھی، یہ جگہ سڑک کے ساتھ تھی مگر وہاں ایسی کوئی نشانی نہیں تھی۔ ہم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک پر بھی گئے، یہ ایک کھلی سی جگہ تھی جسے چاروں طرف سے جنگلے لگا کر محفوظ کیا گیا تھا، اندر قبر کا نشان تو تھا مگر اندازے سے ہی پتا چلتا تھا۔ وہ پہاڑ بھی دیکھا جہاں رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوڑ لگایا کرتے تھے اور وہ پہاڑ بھی جہاں جنگ احد کے موقع پر آپ ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کی ڈیوٹی لگائی تھی اور جنہیں بعد میں حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے آ لیا تھا۔ مسجد الرایہ کی زیارت کی جس میں بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام اور حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے جنگ خندق کے بارے میں مشورہ کیا تھا۔ حضرت ابوذر غفاری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی مسجد بھی مدینہ میں ہے، یہ وہی مسجد ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تو حسن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اور حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ آپ ﷺ کے کاندھے پر سوار ہو گئے تھے۔ مسجد قبلتین وہ مسجد ہے جہاں نماز کے دوران اللہ کا حکم ہوا کہ قبلے کا رُخ تبدیل کر دیا جائے تو آپ ﷺ نے دوران نماز اپنا رُخ بیت المقدس سے کعبے کی جانب کر لیا۔ بئر غرس وہ کنواں ہے جس کا پانی نبی پاک ﷺ بہت شوق سے پیتے تھے اور حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو وصیت کی تھی کہ اسی کنویں کے پانی سے غسل دینا۔ لوگوں کی یہاں طویل قطار تھی، گائیڈ نے بتایا کہ یہاں ایک گلاس پانی پانچ ریال کا فروخت کیا جاتا ہے۔ خاکِ شفا باغ باہر سے دیکھا، اِس باغ کو اب لیز پر دے دیا گیا ہے اور اندر داخلے کی اجازت نہیں۔ مدینے کی شام ڈھل رہی تھی۔ مسجد قبا کے قریب مغرب کا وقت ہو گیا، یہ وہی جگہ تھی جہاں رسول اللہ ﷺ مکّے سے ہجرت کے بعد پہنچے تھے۔ مدینے کے لوگ کہتے تھے کہ مکّے والوں کے پاس کعبہ ہے، ہمارے پاس کیا ہے، تو آپ ﷺ نے یہ مسجد تعمیر کی اور فرمایا کہ یہاں نماز پڑھنے کا ثواب عمرے کے برابر ہوگا۔ سامنے سورج ڈوب رہا تھا، مگر وہ سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا جو چودہ سو سال پہلے طلوع ہوا تھا۔

تازہ ترین