• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’آپ کہیے کہ تم زمین میں سفر کرو۔پس غور کرو کہ کس طرح اللہ نے ابتدا میں مخلوق کو پیدا کیا ہے۔پھر اللہ دوسری بار نئی پیدائش کریگا بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ( القرآن سورۃ العنکبوت آیت 20)

ایک اور دل فریب منظر کتنی نسلیں یکجا ہیں۔ پڑپوتے پوتے بیٹے بیٹیاں مائیں بہنیں بزرگ نوجوانوں کے تمتماتے چہرے۔ پیشانیوں پر دمکتا عزم۔ آنکھوں میں پاک سرزمین کے دوام کی تمنا ۔سرکار بھی موجود اور پرائیویٹ سیکٹر بھی۔ لکھنے والے والیاں ۔ناول نگار، 'افسانہ نویس،شاعر، ٹریول ایجنٹس، ٹور آپریٹر '،وی لاگرز 'سفر نامہ نگار: ارادہ ایک ہی سندھ میں:روحانی، ثقافتی، تاریخی ،تفریحی ،سیاحت کا فرو غ۔شاہ لطیف کے سروں کے متوالے بھی۔ شہباز قلندر کے دیوانے بھی۔ میر تقی میر کے غم گسار بھی۔ اقبال کے چارہ ساز بھی۔ کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم کے پی کے کے طلباء ۔سندھ میں مقیم پنجاب کے تاجر ،صنعت کار ۔بلوچستان کے درد مند پاکستانی بھی۔ دیہی سندھ بھی اپنی فراخ دلی کے ساتھ۔ شہری سندھ بھی اپنی تہذیبی میراث لیے۔اسٹیج پر لگے بیک ڈراپ میں سندھ کے لازوال تاریخی مقامات ۔سکھر بیراج، موہن جو ڈرو، شاہ جہانی مسجد 'گورکھ ہل، رنی کوٹ،مکلی بھی نظر آرہے ہیں اور باب خیبر '،شاہی قلعہ لاہور،زیارت بلوچستان،یہ عمارتیں ہم سب کو دیکھ رہی ہیں ہم ان کو ۔ایک لگن کی خوشبو ۔ ایک طرف فیملی ایجوکیشن سسٹم کے اسکول کی سماعت اور گویائی سے محروم بیٹے بیٹیاں قومی ترانہ اشاروں میں پیش کر رہی ہیں۔ جیسمین ہال میں موجود کم از کم چار پاکستانی نسلیں اس ترانے کے احترام میں مودب کھڑی ہیں ۔ پاکستان کو اللہ تعالی نے کیا نہیں دیا ۔ہر قسم کا زمینی حسن کتنے ملکوں کے پاس پہاڑ نہیں ہیں۔ کئی کے پاس سمندر نہیں ۔کہیں صرف ریگزار ہیں پڑوس سےپینے پانی کا لینا پڑتا ہے ۔پاکستان میں سب کچھ ہے ایک ہی دن میں سارے موسم دیکھے جا سکتے ہیں پس اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔مایوسی اور بے سمتی کے دور میں ایک منزل کا تعین کیا جا رہا ہے۔ میں عرض کر رہا ہوں کہ اگر میڈیا 'ٹریول ایجنٹس، ٹور آپریٹرز، ہوٹل مالکان 'اہل قلم، مختلف سرکاری محکموں کے وزراء، اعلیٰ عہدے دار سب مل کر یہ ٹھان لیں کہ ہم نے اپنے تاریخی قلعوں،مقبروں،قبرستانوں، شاہی باغات، یادگار عمارات، بلند ترین پہاڑی چوٹیوں، دور تک پھیلے ہوئے دشتوں ' کو اپنے نوجوانوں کو بھی دکھانا ہے اور غیر ملکی سیاحوں کو بھی دعوت نظارہ دینی ہے۔ سیاحتی ترقیاتی کارپوریشن کے ایم ڈی کہتے ہیں کہ دنیا بھر سے محققین اسکالرز ہر سال ساڑھے چار ہزار کے قریب مختلف ملکوں سے موہنجوڈارو پر تحقیق کیلئے آتے ہیں ۔بہت خاموشی سے مزید ریسرچ کرتے ہیں ۔یونیسکو اس ریسرچ کی سرپرستی بھی کرتی ہے۔ میڈیا ان کی آمد سے اور ان کی تحقیق سے اگر ہم وطنوں کو آگاہ کرتا رہے تو یقینا ًواہگہ سے گوادر تک پاکستانیوں کے ذہنوں سے اداسی دور ہو سکتی ہے یہ اثاثے یہ میراث ہماری ہے۔ موہن جو ڈرو ،’ہڑپہ،‘ ٹیکسلایا مہر گڑھ۔ہمارے پانچ ہزار سال سے مہذب ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ ویسے ہمیں گڑے مردے اکھاڑنے کا بہت شوق ہے جسکا حاصل کچھ نہیں ہوتا اور یہ جو پیرس سے، برسلز سے ، امریکہ سے محققین آتے ہیں کھدائی کی نگرانی کرتے ہیں پھر یہ جانتے ہیں کہ یہاں انسانیت کتنے ہزار سال پہلے سے موجود تھی ۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اب ان کھنڈرات کے آس پاس جو آبادیاں ہیں ان میں بھی کیا وہ تہذیب ہے یا تمدن کے آثار ہیں۔ ممکن ہے آج سے دو تین ہزار سال بعد ہمارے خرابوں پر بھی کوئی ریسرچ کرنے آئے ۔اس تقریب کے مہمان خصوصی سید ذوالفقار علی شاہ ہیں جواں سال جواں عزم وزیر سیاحت و ثقافت اور آثار قدیمہ۔ ان خاموش وزارتوں کو انہوںنے گویائی عطا کر دی ہے۔ سندھ پر اللہ سائیں خاص مہربان ہے اور سندھ کے سیدوں پر تو بہت ہی خصوصی عنایات ہیں ۔’’پیرن میرن جو خیر،سیدن جو بادشاہی‘‘تقریب سے عین ایک رات پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تقریب کے مہمان خصوصی سید ذوالفقار علی شاہ کو اسلام آباد بلا لیا۔ رات گئے سید ناصر حسین شاہ وزیر بلدیات ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ کو زحمت دی گئی۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر انہوں نے اپنے پروگرام میں کچھ تبدیلیاں کیں۔وہ اپنے خطاب میں کہہ رہے ہیں کہ سندھ میزبانی کیلئے صدیوں سے نیک نام ہے۔یہاں سیاح بھی گزرے زمانوں سے آ رہے ہیں اور یہ بہت اچھی کوشش ہے کہ سندھ میں سیاحت کے موسم سے لطف اندوز ہونے کیلئے دوسرے صوبوں سے ،ملکوں سے سیاح بلانے کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو بروئے کار لایا جائے ۔سردیاں سندھ میں سیاحت کیلئے سب سے زیادہ موزوں ہیں۔ سیاحت کے شعبے کے بزرگ سردار رفیق خان 'ندیم شریف، خواجہ جہاں زیب، فیصل احسان، بلاول سومرو، 'معز سلیم احمد،سبیل اعوان بھی سیاحت کے فروغ کیلئے عملی تجاویز دے رہے ہیں۔ سندھ سیاحتی ترقیاتی کارپوریشن کے مینجنگ ڈائریکٹر فیاض علی شاہ چپکے سے یہ نوید لے کر آئے ہیں کہ سید ذوالفقار علی شاہ اسلام آباد سے واپس کراچی پہنچ گئے ہیں وہ ایئرپورٹ سے سیدھے تقریب میں پہنچ رہے ہیں۔ تقریب کے ناظم اے کے میمن جب سامعین کو یہ نوید دیتے ہیں تو ایک نیا ولولہ پیدا ہو جاتا ہے۔سید ناصر حسین شاہ ایوادڈ تقسیم کر کے جا چکے ہیں۔ لیکن ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے سامعین میں بزرگوں نوجوانوں خواتین کو یہ سرشاری ہو رہی ہے کہ سندھ میں سرکار اور پرائیویٹ شعبہ سیاحت کیلئے حقیقی معنوں میں مخلص ہے کئی ٹریول ایجنٹ کہہ رہے ہیں کہ ٹورزم کیلئے ایسی تقریب جس میں سب ذمہ داران موجود ہوں شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ سید ذوالفقار علی شاہ حاضرین کا اتنے طویل عرصے تک بیٹھے رہنے پر شکریہ ادا کر رہے ہیں ۔ لیکن وہ اس بات پر خوش ہیں کہ وہ بالاخر تقریب میں پہنچ گئے ۔ انہوں نے چیرمین بلاول سے گزارش کی کہ انہیں سیاحت کے فروغ کیلئے ایک تقریب میں کراچی پہنچنا ہے تو چیئرمین انہیں اپنے جہاز میں ساتھ لے آئے۔اس سے بلاول بھٹو زرداری کے نزدیک سیاحت کی اہمیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔وہ مختصرا وزارت سیاحت سندھ کے اب تک کے اقدامات اور آئندہ کے منصوبوں سے آگاہ کر رہے ہیں ۔مایوسی دور ہو رہی ہے ایک نیا ولولہ مل رہا ہے کہ سیاحت ایک ایسا خوبصورت شعبہ ہے جہاں شہری سندھ اور دیہی سندھ ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں ۔ میڈیا ٹریول،ایجنٹس، ٹور آپریٹرز ،ہوٹل مالکان ،کرنسی ایکسچینج مالکان اور حکومت سب پاکستانی مل جل کر دنیا کو وہ پاکستان دکھا سکتے ہیں جہاں امن ہے قربتیں ہیں۔ اللہ تعالی کی عنایات ہیں اور ایسی ایسی نعمتیں جنہیں کوئی جھٹلا نہیں سکتا ۔اسی لیے سب حاضرین مل جل کر دل کی گہرائی سے با آواز بلند کہہ رہے ہیں’’پاکستان زندہ باد‘‘۔

تازہ ترین