• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے گیارہ سال کی عمر میں جب اپنے والد کی ائیر کریش میں شہادت کا علم ہوا توان سے ملنے انھیں دیکھنے کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں ۔گیارہ سال کی عمر تک والدہ مجھ سے والد کی شہادت کو چھپائے ہوئے تھیں انہوں نےمجھے یہی باور کروایا کہ میرے والد کاروبار کے سلسلے میں امریکہ مقیم تھے لیکن مجھے حیرت ہوتی کہ ایسی بھی کیا کاروباری مجبوریاں کہ انہوں نے کبھی ہماری خبر گیری تک نہیں کی ،اس احساس نے مجھے ان سے کسی حد تک نالاں کرنے کیساتھ ساتھ مجھ میں عجیب احساسِ محرومی کو جنم دیا جسکے تحت میں عام لوگوں میں گھلنے ملنے سے کترانے لگا۔والدہ نے اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے اکلوتا بیٹا ہونے کے باوجود مجھے خود سے دور بورڈنگ سکول میں بھیجنا گوارا کیا۔ جب چالیس سال کی عمر میں اپنے تئیں میں نے کاروبار میں بے پناہ کامیابیاں سمیٹ لیں تو یکایک بچپن کے احساسِ محرومی نے ایک بار پھر مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔اس بار جنم لینے والا احساسِ محرومی رفیع بٹ کے متعلق ریسرچ میں سامنے آنیوالے حقائق کا نتیجہ تھا۔رفیع بٹ کی کرشماتی شخصیت، انکی کاروباری بالغ نظری اور کامیابیوںکے مقابل مجھے اپنی کامیابیاں ہیچ نظر آنے لگیں۔ صرف سولہ سال کی عمر میں اپنے والد کی اچانک وفات کے بعدتین بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کے با وصف رفیع بٹ نے حزن و ملال کی تصویر بننے کی بجائے اپنے والد کی آلاتِ جراحی کی دکان سنبھال کر عملی زندگی کا آغاز کیا۔اس وقت جب کاروباری حلقوں میں ہندوؤں اور انگریزوں کا اجارہ تھا، میٹرک پاس رفیع بٹ نے چھ کارکنان کیساتھ اپنے والد کے دکان نما کارخانے کو سنبھالا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی تندہی، لگن اور جانفشانی سے پرانی انارکلی سے گڑھی شاہو نسبتاًبڑے کارخانے میں کاروبار شفٹ کر لیا۔صرف نو سال کے مختصر عرصہ میں رفیع بٹ نے اپنے کاروبار کو اس قدر وسعت دی کہ قذافی سٹیڈیم کے بالمقابل آلاتِ جراحی کی برصغیر کی سب سے بڑی فیکٹری قائم کر لی جہاں دو غیرملکی منتظمین کے ساتھ لگ بھگ چھ سو سے زائد کارکنان غلام نبی اینڈ سنز کا نظم و نسق سنبھالتے۔ کاروباری لین دین کے حوالے سے جب رفیع بٹ نے بینکوں کے مسلمانوں کے ساتھ ناروااور امتیازی سلوک کو دیکھا تو محض ستائیس سال کی عمر میں مسلمانوں کا پہلا بینک ـ’’سینٹرل ایکسچینج بینک لمیٹڈ ‘‘قائم کر کے انگریزوں اور ہندوؤں کے مقابل مسلمانوں کو ایک خود مختار مالیاتی ادارہ قائم کر کے احساسِ تفاخر سے روشناس کروایا۔ان دنوں آل انڈیا مسلم لیگ کے تحت قائدِ اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کو متحد کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے، تیس سال کی عمر میں رفیع بٹ کا قائدِ اعظم محمد علی جناح سے رابطہ ہوا اور انہوں نے اپنی کاروباری مصلحتوں کی پرواکیے بغیر اپنے آپ کو قائدِ اعظم کی سربراہی میں مسلمانوں کے الگ ملک کے حصول کے مشن میں پیش کر دیا۔ رفیع بٹ کی قائدانہ شخصیت اور کاروباری بالغ نظری نے خود قائدِ اعظم کو بھی بے حد متاثر کیایہی وجہ تھی کہ قائد اور رفیع بٹ کے مابین ناصرف روابط پختہ تر ہو تےگئے بلکہ رفیع بٹ قائدِاعظم کے معتمدِ خاص کا درجہ پا گئے۔تحریکِ پاکستان کی کامیابی کیلئے رفیع بٹ نے مالی ایثار کے ساتھ ساتھ اپنے کاروباری حلقوں کو بھی تحریکِ پاکستان کی معاونت کیلئے تیار کیا اور انکی قائد سے ملاقاتوں کا اہتمام کیا۔اسکے باوجود رفیع بٹ عملی سیاست سے دور رہے ایک بار انہوں نے ارادہ بھی کیا لیکن قائدِ اعظم نے انہیں اپنی تمام تر توجہ پاکستان کی صنعتی اور معاشی پیش بندی پر مرکوز رکھنے کی ہدایت کی۔آل انڈیا مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی میں شامل کر کے قائدِ اعظم نے رفیع بٹ کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا۔مائنز اینڈ منرلز اور میٹلرجی کی سب کمیٹیوں کی قیادت کرتے ہوئے رفیع بٹ نے قدرتی وسائل کو بروئے کار لا کر معیشت کی مستحکم بنیادوں پر تشکیل کی راہ دکھائی ۔نیشنل آرکائیوز آف پاکستان میں محفوظ رفیع بٹ اور قائدِ اعظم کے مابین خطوط کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انکی آپس میں کیسی قربت تھی۔رفیع بٹ نے برصغیر کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر تعلقات قائم کر کے اپنی شخصیت کے سحر انگیز پہلو کو تقویت بخشی ۔رفیع بٹ نے بیرون ممالک کاروباری حلقوںسےگہرے روابط قائم کیے یہاں تک کہ امریکہ میں اپنا دفتر بھی قائم کر لیا اسی دفتر کو ہندوؤں کے پراپیگنڈاکا موثر جواب دینے کیلئے رفیع بٹ نے قائدِ اعظم کو آفر کی کہ اس دفتر کو بروئے کار لاتے ہوئے ہندوؤں کے مسلمانوں کے متعلق پھیلائے گئے بے سروپا پروپیگنڈا کا جواب دیا جاسکے ۔امریکہ کے سفر کے موقع پر رفیع بٹ نے اپنی انشورنس کا بینی فشری قائد کو مقرر کیا تاکہ کسی حادثے کی صورت میں ازالے کے طور پر ملنے والی رقم بھی تحریکِ پاکستان کے کام آسکے۔رفیع بٹ نے مختلف ممالک کے کاروباری حلقوں سے روابط قائم کر کے مجوزہ پاکستان میں فرٹیلائزر اور ائیر کنڈیشننگ کے یونٹس قائم کرنےکیلئے ابتدائی اقدامات کیے۔تحریکِ پاکستان کی کامیابی کے بعد رفیع بٹ نو زائیدہ مملکت کی معاشی اور صنعتی بنیادوں کو مضبوط بنانے کیلئے خاصے پر عزم تھے لیکن شاید قدرت کو کچھ اور منظور تھا رفیع بٹ قیامِ پاکستان کے محض ایک سال اور قائد کی رحلت کے محض دو ماہ بعد 26نومبر کو کراچی سے لاہور آتے ہوئے صرف 39سال کی عمر میں وہاڑی کے قریب فضائی حادثے میں داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے۔رفیع بٹ نے انتالیس سال کی عمر تک سماجی کاروباری اور معاشرتی لحاظ سے وہ وہ کارہائے نمایاں سرانجام دے کر ممتاز حیثیت اختیار کر لی جو اس وقت کسی مسلمان کیلئے سوچنا بھی محال تھا۔ رفیع بٹ اس لحاظ سے بدقسمت ثابت ہوئے کہ ان کی وفات قائد کی وفات کے بعد ہوئی ورنہ قائدِ اعظم رفیع بٹ کی خدمات کا پوری طرح احاطہ کر کے رفیع بٹ کو تاریخ کی گرد میں گم نہ ہونے دیتے۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین