• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف کو پاکستان میں مسلسل بدعنوانی کے خدشات، گورننس اینڈ کرپشن رپورٹ جاری

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں گورننس اور بدعنوانی سے متعلق رپورٹ جاری کر دی، گورننس اینڈ کرپشن رپورٹ میں پاکستان میں مسلسل بدعنوانی کے خدشات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوری شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف نے کہا کہ اصلاحات سے پاکستان کی معیشت 5 سے 6.5 فیصد تک بہتر ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں اہم سرکاری اداروں کو حکومتی ٹھیکوں میں خصوصی مراعات ختم کرنے، ایس آئی ایف سی کے فیصلوں میں شفافیت بڑھانے اور حکومت کے مالیاتی اختیارات پر سخت پارلیمانی نگرانی کی سفارش کی گئی ہے۔

آئی ایم ایف نے انسدادِ بدعنوانی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پالیسی سازی اور عملدرآمد میں زیادہ شفافیت اور جواب دہی ضروری ہے، گورننس بہتر بنانے سے نمایاں معاشی فائدے حاصل ہوں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس سسٹم پیچیدہ، کمزور انتظام اور نگرانی بدعنوانی کا باعث ہے، عدالتی نظام کی پیچیدگی اور تاخیر معاشی سرگرمیوں کو متاثر کرتی ہے۔

آئی ایم ایف نے ایس آئی ایف سی کی جانب سے سالانہ رپورٹ فوری جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام سرکاری خریداری 12 ماہ میں ای گورننس سسٹم پر لانے کی ہدایت کی ہے۔

ایس آئی ایف سی کے اختیارات، استثنیٰ اور شفافیت پر آئی ایم ایف نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں کمی بدعنوانی کے خطرات کی علامت ہے، بجٹ اور اخراجات میں بڑے فرق سے حکومتی مالیاتی شفافیت پر سوالات ہیں، حکومتی اور بیورو کریسی کے زیر اثر اضلاع کو زیادہ ترقیاتی فنڈ ملے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری 23 تا دسمبر 24 نیب کی 5.3 ٹریلین روپے کی ریکوری معشیت کو پہنچے نقصان کا کم حصہ ہے، پی ٹی آئی حکومت کی 2019 میں چینی برآمد کی اجازت ظاہر کرتی ہے اشرافیہ اپنے مفاد کے لیے پالیسوں پر قابض ہیں۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانیوں کو سروسز کے حصولی کی خاطر مسلسل ادائیگیاں کرنا پڑتی ہے، سیاسی اور معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسوں پر قبضہ کر کے معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔ کرپشن کی نذر ہونے والی رقم سے پاکستان میں پیداوار اور ترقی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اینٹی کرپشن پالیسوں میں تسلسل کی کمی اور غیرجانبداری سے اداروں پر عوام کا اعتماد ختم ہو رہا ہے، بجٹ سازی اور مالی اطلاعات کے نظام کی کمزوریوں سے کرپشن کے خطرات بڑھتے ہیں، سرکاری محکموں میں وسائل کے انتظام اور سرکاری خریداری کے نظام کی خامیوں سے بدعنوانیوں بڑھتی ہیں۔

عالمی مالیاتی فنڈ نے کہا کہ کرپشن کی وجہ سے سرکاری کمپنیوں کے نقصانات ہوتے ہیں، کرپشن کی وجہ سے ٹیکس نظام میں پیچیدگیاں ہیں، ٹیکس اہلکار اور کسٹم اہلکار اپنی صلاحیتوں سے کم کام کرتے ہیں، پاکستان میں ضرورت سے زیادہ ریگولیشن اور رکاوٹیں ہیں۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق تمام معاشی شعبوں کی ترقی کی رفتار ریگولیشن کی وجہ سے جکڑی ہوئی ہے، ہر معاملہ مشاورت سے حل ہو جانے کے بجائے عدالت میں چلا جاتا ہے، عدالت میں بےتحاشہ کیس کی وجہ معاملات نمٹتے نہیں ہیں، پاکستان میں انسداد کرپشن کے تمام کوششیں اب تک مکمل کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اہم فیصلے لینے میں افسران کتراتے ہیں، پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے اہداف کامیابی سے حاصل کیے، پاکستان کا ایف اے ٹی ایف کے اہداف میں سزاؤں پر عمل درآمد سست رہا، منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے خلاف سزاؤں کے فیصلے کم ہوئے۔

عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سرکاری اخراجات میں کمی کے لیے بیشتر کوششیں مکمل کامیاب نہیں ہوئیں، کرپشن کے خاتمے کے لیے کئی اداروں میں بھرپور صلاحیت نہیں ہے، سرکاری اداروں میں بہت سے کام عارضی اور ایڈہاک بنیادوں پر کیے جاتے ہیں، کئی وزارتوں میں موجود افسران متعلقہ وزارت کے امور کی مہارت نہیں رکھتے۔ ٹیکس نظام میں پچیدگیاں حکومتی کمزوری کو ظاہر کرتی ہیں، ٹیکس افسران کی کارکردگی کا احتساب ہونا ضروری ہے، پاکستان کا عدالتی شعبہ تنظیمی طور پر پیچیدہ ہے۔

قومی خبریں سے مزید