• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو انسان اِس بے رحم دنیا میں رہنے کے جتنے مرضی اصول سیکھ لے یا رواقی فلسفیوں کی کتابیں چاٹ لے، جب فیصلہ کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو نہ کوئی اصول یاد رہتا ہے اور نہ کوئی فلسفہ۔ اِس کے باوجود کچھ باتیں ایسی ہیں جنہیں اُسی طرح رَٹ لینا چاہیے جیسے بچپن میں ہم پہاڑے رَٹ لیا کرتے تھے۔ استانی کو جو بچہ پیارا لگتا تھا اُس سے دس کا پہاڑا سنتی تھی اور جس پر غصہ آتا تھا اُس سے اُنّیس کا۔ یہ چند باتیں بھی پہاڑوں کی طرح ہی ہیں، اِن کا ماخذ کیا ہے، سند کیا ہے، کس کا تجربہ ہے، کچھ پتا نہیں، لیکن باتیں سچ ہیں۔

پہلی بات۔ زندگی میں کوئی شخص ایک ہی مرتبہ ملتا ہے، دوسری مرتبہ نہیں۔ اُس جیسا کوئی مل سکتا ہے مگر وہ نہیں ملے گا کیونکہ ہر شخص منفرد ہوتا ہے، یہ ممکن ہی نہیں کہ اُس شخص کی کاربن کاپی دوبارہ مل جائے، لہٰذا زندگی میں اپنے تجربات اور ترجیحات کا فیصلہ اِس بات کو مدنظر رکھ کر کریں۔ اور نہ صرف یہ کہ اُس جیسا شخص دوبارہ کبھی نہیں ملے گا بلکہ چند سال بعد وہ خود بھی ویسا نہیں رہے گا جیسا آپ نے اسے چھوڑا تھا۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ دوسری بات، جس کا خیال رکھنا ہمارے جیسے ممالک میں زیادہ ضروری ہے، آپ جتنے نظروں میں آئیں گے اتنی ہی زیادہ آپ کو اپنی حفاظت کرنی پڑے گی۔ ایک شخص جس کو کوئی بھی نہیں جانتا، وہ اگر مردان میں جعلی سگرٹوں کا کارخانہ بھی کھول لے تو اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، لیکن اگر کوئی سیلبرٹی محض سگریٹ کی ڈبی ہاتھ میں پکڑ کر تصویر اتروا لے تو قیامت آ جائے گی، سوشل میڈیا کے وہ جہادی بھی اُس کے پیچھے پڑ جائیں گے جو ذاتی زندگی میں چاہے چرس ہی کیوں نہ پیتے ہوں۔ سو، آج کی دنیا میں بہتر یہی ہے کہ بندہ Low profile رہے، زیادہ شوخا نہ ہو، نیند اچھی آئے گی، نظر ٹھیک رہے گی اور قد بھی بڑھے گا۔

تیسری بات۔ کرما قوانین پر یقین کرنا چھوڑ دیں۔ یہ قوانین دنیا میں لاگو نہیں۔ دنیا بڑی بے رحم ہے، اسے نہ آپ کے جذبات کی پروا ہے اور نہ خواہشات کی۔ دنیا میں کوئی شخص صبح اٹھ کر آپ کے بارے میں نہیں سوچتا کہ آپ کا بھلا کیسے ہوگا، ماسوائے اُس صورت میں جب کسی کو آپ سے غیر مشروط محبت ہو، اور اگر ایسا ہے تو دیکھیے اصول نمبر ایک۔ یہ دنیا صرف آپ کی مہارت، قابلیت اور صلاحیتوں کے مطابق آپ کو ردعمل دے گی، اگر آپ میں ڈسپلن ہے، لگن ہے، جستجو ہے، تو آپ اِس دنیا سے کسی صلے کی توقع رکھیں ورنہ لاٹری نکلنے کا انتظار کریں یا پھر اپنے کسی دور پار کے عزیز رشتہ دار کے فوت ہونے کا، جو مرتے وقت کروڑوں کی جائیداد آپ کے نام کر جائے۔

چوتھی بات۔ طاقت سے بڑا کوئی قانون نہیں، حتمی تجزیے میں برہنہ طاقت کا فیصلہ ہی آخری ہوتا ہے، یہ حقیقت ہم پاکستانیوں سے بہتر کون جانتا ہے! یہ بات تو درست ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ اپنے نظریات اور افکار پر سمجھوتہ کر لے، اور نہ ہی اِس کا یہ مطلب ہے کہ بلا سوچے سمجھے پہاڑ سے ٹکرا جائے۔ اِس دنیا میں جینے کا راستہ بہت دانشمندی سے نکالنا پڑتا ہے، اگر آپ کو اپنے اصول، اپنے آدرش پیارے ہیں تو پھر اُن کی قیمت ادا کرنے کے بارے میں سوچ رکھیں، طاقتور آپ سے وہ قیمت ضرور وصول کرے گا۔ آپ نے صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کتنی قیمت دے سکتے ہیں! پانچویں بات۔ جس دن بندہ اپنی ساکھ کی فکر کرنا چھوڑ دیتا ہے اُس دن وہ حقیقی آزادی حاصل کر لیتا ہے۔ ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگوں کو اِس بات میں طنز کا عنصر لگے مگر بات یہ سنجیدہ ہے۔ اگر آپ کو اپنی ریپوٹیشن کی پروا نہیں تو پھر آپ کا جو دل کرے گا آپ وہ کریں گے، اِس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ آپ ایسا ہی کریں، بتانا فقط یہ مقصود ہے کہ آپ کی آزادی بڑھتی جائے گی جتنی آپ اپنی ساکھ کی پروا کم کرتے جائیں گے۔

چھٹی بات۔ مستقل مزاجی سے بڑا کوئی وصف نہیں، یہ وہ خوبی ہے جس کی بدولت ایک عام شخص، جو نہ زیادہ ذہین ہو اور نہ قابل، بلکہ اوسط درجے کی صلاحیت کا حامل ہو، وہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور خداداد صلاحیت کے حامل شخص سے آگے نکل سکتا ہے۔ ممکن ہے ایک جینئس کا زندگی گزارنے کا پلان آپ سے بہتر ہو مگر وہ پلان کسی کام کا نہیں اگر اُس پر مستقل مزاجی سے عمل نہیں ہوتا، دوسری طرف اگر کوئی شخص مناسب سا پلان بنا کر محض مستقل مزاجی کے ساتھ اُس پر عمل کرنا شروع کر دے تو اُس کی جیت کے امکانات کچھوے کی طرح بڑھ جائیں گے۔ ساتویں بات۔ حکیم سنیکا نے کہا تھا کہ حقیقی زندگی کی نِسبت ہم تخیل میں زیادہ لطف اٹھاتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی کو سُکھی کرنا چاہتے ہیں تو اِس بات کو پلے سے باندھ لیں۔ زندگی میں ہم جن باتوں کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے، اُن میں سے اسّی فیصد باتیں کبھی وقوع پذیر ہی نہیں ہوتیں، اور باقی کی بیس فیصد وہ ہوتی ہیں جن پر اصول نمبر چھ پر عمل کرکے زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی میں کوئی پریشانی یا مصیبت نہیں آئے گی، بالکل آئے گی مگر وہ نہیں جس کے بارے میں آپ نے سوچ رکھا ہوگا، سکائی لیب اگر گرنا ہے تو گِر کے رہے گا، زندگی کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ آپ کو حیران کرے گی، کبھی خوشی سے اور کبھی غم سے۔ ”قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں... موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں۔“

آٹھویں بات۔ لوگ تعریف میں بخل سے کام لیتے ہیں سو اپنی صلاحیتوں پر محض اِس لیے شک نہ کریں کہ کسی نے آپ پر مہر تصدیق ثبت نہیں کی۔ عین ممکن ہے کہ اُلٹا لوگ آپ پر رشک کرتے ہوں جبکہ آپ خود کو Under estimate کرکے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ تاہم اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اپنے آپ کو نیوٹن سمجھیں جبکہ ریاضی میں آپ فیل ہوتے ہوں۔ نویں بات۔ کاش۔ یہ لفظ اپنی زندگی کی لُغت سے نکال دیں۔ دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں جس کی زندگی میں کوئی پچھتاوا نہیں، ضرورت فقط یہ فیصلہ کرنے کی ہے کہ کیا آپ اُس پچھتاوے کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں یا زندگی میں آگے بڑھ کر کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ پچھتاوا پیچھے رہ جائے! یہ انتخاب آپ کا ہے۔ دسویں بات۔ نا خوش رہنے کی سب سے بڑی وجہ، حد سے زیادہ سوچنا ہے۔ یہ وہی بات ہے جو سنیکا نے کی مگر انداز مختلف ہے، Overthinking میں لفظ اوور پہلے سے شامل ہے، کچھ نہ کچھ Overthinking سب ہی کرتے ہیں اور اِس سے چھٹکارہ ممکن نہیں البتہ اِس کا حد سے زیادہ استعمال، صحت اور باہمی تعلقات دونوں کیلئے ’ہانی کارک‘ ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا، چھٹی کا دن ہے، اتوار کی سردی کا لُطف اٹھائیں۔

تازہ ترین