تاریخ گواہ ہے کہ نااہلی کے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف نے پرتشدد احتجاج کرنے ، بغاوت یا پاکستان کو آگ لگا دینے کی کال نہیں دی بلکہ انکے لبوں پر ایک ہی پیغام تھا کہ میں اپنا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑتا ہوں، جس پر خدائے بزرگ و برتر کے حکم پر فطرت جوش میں آگئی اور پھروہی کچھ ہوا جو ہوا کرتا ہے، جنھوں نے مسلم لیگ ن کیلئے گہرے گڑھے کھودے تھے انہی گڑھوں میں ایک ایک کرکے اپنے دور کے تمام جابر بقلم خود جاگرے، پروپیگنڈا کرنیوالے جو مرضی کہتے رہیں لیکن سچ تو یہی ہے کہ آج میاں نواز شریف ، شہباز شریف، مریم نواز شریف سمیت قیادت و کارکنان کو نظر بند کر نیوالے اپنا بویا ہوا کاٹ رہے ہیں، اگر نواز شریف ، شہباز شریف خود پر اوراپنے اہل خانہ و پارٹی پر کئے گئے مظالم کا انتقام لینا چاہتے تو قیدی کو جیل میں اے سی سمیت مرغ مسلم اڑانے کی سہولتیں نہ مل رہی ہوتیں اور نہ ہی ہر ہفتے ملاقاتیوں کی فوج اسے ملنے جیل میں جاسکتی۔
پانچ کٹھ پتلی ججوں کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کو عہدے سے ہٹانے اور تاحیات نااہل کرنے کے غیر آئینی فیصلے پرجن بند دماغ جہلانے لڈیاں ڈالی تھیں آج ان جیسے ناسمجھ مسلسل پراپیگنڈا کررہے ہیں کہ 27 ویں ترمیم کے بعد ججوں کے استعفے، ایک مذہبی جماعت پر پابندی اوراثاثے منجمد کرنے کی کارروائی کے پیچھے فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف ہیں، ان پر واضح کردوں کہ پاکستان کے معاشی اور سیاسی حالات کی بحالی کے پس منظر میں صرف چند شخصیات نہیں بلکہ پوری ریاست کھڑی ہے ،ججوں کے استعفوں میں وہ تمام وجوہات شامل ہیں جو گناہ گار کو معصوم سے الگ کرتی ہیں، گزشتہ دور حکومت میں پھیلائے گئے اخلاقی گند اور آئینی کیچڑ کی صفائی مکمل سنجیدگی اور یکسوئی سے جاری ہے، اب اس کے راستے میں کوئی بھی آیا تو اسے نہ کسی قسم کی آزادی اور نہ کوئی معافی ملے گی۔
تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عدالتوں کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کی جارہی ہے، کسی ہائیکورٹ یا ماتحت عدالت پر نگران جج مقرر نہیںکئے گئے ، جو جج مستعفی ہو ئے ہیں اس کے پس منظر میں ان ججوں کے بوئے ہوئے کانٹے ہی نظر آئیں گے۔
وطن دشمنوں اور عوام کش افراد کے جھوٹ اور چور بازاری کے تمام راز فاش ہوتے جارہے ہیں یعنی اچھائی آخر کار برائی پر غلبہ پالینے کی جدوجہد کررہی ہے، جیلوں میں بند تمام قیدی خدائے بزرگ و برتر کی پکڑ کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ انھوں نے کلمے کے نام پر قائم وطن کو آگ لگانے کی مہم چلائی ، یاد رہے جب کوئی اللّٰہ کے شکنجے میں پھنس جاتا ہے تو نہ فیض کام آتا ہے نہ جادو چلتا ہےنہ کوئی ٹونہ کارگر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی ڈرامہ موثر ثابت ہوتا ہے۔
عوام نے دیکھا ہے کہ عقیدت میں حد سے بڑھ جانیوالوں کی طرح کلٹ میں شامل پیروکار بھی اپنے دیوتا کیخلاف ہر اعتراض، ہر سچائی کو مسترد کرتے رہےہیں، تاریخ گواہ ہے کہ مشرکین اورجابروں، ظالموں کا انجام کیا ہوا؟ سمجھدار عوام خوش ہیں کہ صرف چند سال میں ہی اللّٰہ کی پکڑ میں آیا سیاسی کلٹ اپنے انجام کو لوٹ رہا ہے، غرور کے بت ایک ایک کرکے ٹوٹ کر زمین بوس ہوتے جارہے ہیں۔
غضب خدا کا فیض حمید بغاوت کیس میں تین ریٹائرڈ ساتھیوں کے علاوہ ایک بندہ بھی فیض کی حمایت میں گواہی کیلئے پیش نہیں ہوا جو اس سے اندھا دھند فیض یاب ہوتے رہے، افسوس صد افسوس جس کیلئے فیض نے اپنا سب کچھ برباد کر ڈالا اس نے ہی فیض کے حق میں گواہی دینے سے صاف انکار کردیا، سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس نے اپنے جتھے کو بھی فیض کی حمایت میں بولنے سےمنع کردیا۔
عوام کو سمجھنا ہوگا کہ قیادت وہ نہیں ہوتی جو اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کیلئے عوام کے بچوں کو مروا دے، حقیقی قیادت وہ ہوتی ہے جو عدل، سچائی اور اللّٰہ کی راہ پر چلتے ہوئے عوامی فلاح کے منصوبوں پر کام کرے، جو بھی اس اصول سے ہٹتا ہے اس پر اللّٰہ کی پکڑضرور آتی ہے اور جب پکڑ آن پہنچتی ہے تو پھر کوئی نعرہ کام نہیں آتا، اس حقیقت کی وضاحت قرآن سے مل جاتی ہے کہ جو اپنے نفس کو غرور پر ابھارتا ہے اللّٰہ تعالیٰ اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے اور خود پرست ،انسان دشمن افراد کا انجام ہمیشہ دردناک رسوائی ہوتا ہے۔