• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بگڑتی صورتِحال اور تعلقات کے حوالے سے ثالثی کی پیشکش کی تو بہت سے خیر خواہوں کے دل میں امید کی ایک نئی کرن جاگ اٹھی۔ دوحہ اور ترکیہ میں مذاکرات کے تین ادوار نتیجہ خیز تو کیا بلکہ مزید بدگمانی اور کشیدگی پر منتج ہوئے۔ فریقین نے واپس جا کر اپنے منفی اور حوصلہ شکن بیانات سے معاملات میں مزید بگاڑ اور الجھاؤ پیدا کیا۔ روس و چین خطے میں ترقی اور امن کے خواہاں ہیں کیونکہ سی پیک کا معاملہ حالیہ امن و امان کے پیشِ نظر کھٹائی میں پڑ چکا ہے ۔ ادھر افغانستان میں طالبان حکومت روز بروز کمزور پڑتی جا رہی ہے کیونکہ وہاں بھی حکومت تین گروہوں میں منقسم اور بہت سے معاملات میں ایک پیج پر نہیں ہے۔ تاہم اس کے باوجود ملا ہبت اللہ اخونزادہ کا حکم اور زور اب بھی قائم ہے۔

15 اگست 2021 سے پہلے ہندوستان نے امریکی پٹھو حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دورِ حکومت میں افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا کر ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں کابل انتظامیہ کو مکمل طور پر خرید لیا تھا۔ امریکہ کے بعد کابل میں سب سے زیادہ رسائی رکھنے والی ہندوستانی خفیہ ایجنسی "را" نے پاکستانی سرحد سے متصل علاقوں میں اپنی لاتعداد انٹیلیجنس یونٹس قائم کر لی تھیں۔ ہندوستانی سفارت خانے کے علاوہ ہرات، قندھار، جلال آباد اور مزارِ شریف کے ہندوستانی کونسل خانے بھی پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے بھرتی دفتر اور تربیت گاہیں بنے ہوئے تھے۔ کابل فتح ہونے پر ہندوستان تمام کارروائیاں معطل کر کے افغانستان سے رفو چکر ہو گیا کیونکہ اسے افغان طالبان کا پاکستان کی جانب واضح جھکاؤ اور برادرانہ تعلقات کا بھرپور ادراک تھا۔ اسے خوف تھا کہ نئی طالبان حکومت ماضی میں ہندوستان کی طالبان مخالف حکومت سے تعلقات کی بنا پر اس کے نمائندوں سے نہ جانے کیسا برتاؤ کرے گی۔ ادھر پاکستان میں اس وقت کی ناعاقبت اندیش حکومت سے ایک اور فاش غلطی سر زد ہو ئی۔ طالبان و پاکستان دشمن، اشرف غنی حکومت اور شمالی اتحاد کے وفد کو اس وقت پاکستان بلا کر میڈیا سے بات کرنے کا موقع فراہم کیا گیا جب طالبان کابل فتح کر رہے تھے۔ ایسے میں سابق وزیراعظم عمران خان اور حکومتی نمائندے بیانات داغتے رہے کہ انہیں افغانستان میں اسٹرٹیجک ڈیپتھ یعنی پاکستان ہمدرد حکومت کی ضرورت نہیں البتہ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت معرضِ وجود میں لائی جائے جو تمام افغان دھڑوں کی نمائندہ ہو۔ یعنی فاتح طالبان جیت کر بھی اپنے جانی دشمنوں کو حکومت سازی میں شریک کریں۔ حالانکہ خود پاکستان میں کسی حکومت نے، کبھی بھی حزبِ اختلاف کو حکومت سازی میں شریک کیا نہ اعتماد میں لیا۔ عمران خان خود حزبِ اختلاف سے پارلیمان میں بات کرنا تو درکنار، مصافحہ تک کرنے کے روادار نہیں تھے۔ البتہ افغانستان میں فاتح طالبان کے حق کو تسلیم کرنے کے بجائے دباؤ ڈالتے رہے کہ طالبان اپنے دشمنوں سے مل کر حکومت بنائیں۔ امریکہ کا ساتھ دے کر امارتِ اسلامی افغانستان کی جائز حکومت کا تختہ الٹانے میں معاون فردِ واحد صرف صدر مشرف ذمہ دار تھے جبکہ معصوم پاکستانیوں کو بھی ان کے اس فیصلے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ نتیجتاً پاکستانیوں نے 80 ہزار جانوں کی قربانیاں دیں جن کے متاثرہ خاندانوں کا تو حساب ہی نہیں کیا جا سکتا۔ افغان طالبان ہماری مجبوریوں کو سمجھتے تھے اور انہیں ہمارے مسائل کا بھی ادراک تھا۔ پاکستان نے 30 لاکھ افغان مہاجرین کو اپنے سینے سے لگایا، معاشرے میں انہیں رچنے بسنے دیا، ان سے نئی رشتہ داریاں بنائیں لیکن ساتھ ہی ہماری حکومتِ وقت نے امریکی ایماء پر ان کی قیادت کو قید میں رکھا یا امریکیوں کے حوالے کیا۔ یہی وہ متضاد رویہ تھا جو ہمارے درمیان تلخیوں کی بنیاد بنا اور آج بھی افغان طالبان کے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ کابل فتح ہوا، پاکستانی قوم نے ایسے خوشی منائی جیسے پاکستان کی فتح ہو۔ سب ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے جبکہ ہندوستان پر مردنی چھائی تھی۔ ہماری حکومت کو چاہیے تھا کہ فوری طور پر طالبان حکومت تسلیم کر کے تنظیمِ نو اور دیگر انتظامی امورمیں طالبان کو معاونت فراہم کرتی۔ ان کی انٹیلیجنس اور فوج کی از سرِ نو تربیت کرواتی، امریکی ہتھیاروں اور اسلحہ کی انوینٹری ،مرمت اور دیکھ بھال کے متعلق تربیت دی جاتی۔ طالبان کا ساتھ دے کر انہیں اپنے قریب کیا جاتا۔ کیونکہ افغانستان میں پاکستان ہمدرد حکومت سی پیک راہداری منصوبے کے علاوہ ہماری پشت مضبوط رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ یوں افواج ِپاکستان اپنی شمالی سرحد سے بے فکر ، یکسوئی سے مشرقی سرحد پر توجہ مرکوز رکھ سکتیں۔ آج ہماری دہائیوں کی قربانیاں اور محبتیں سب رائیگاں جانے کو ہیں کیونکہ ہماری ماضی کی ناعاقبت اندیش حکومتوں نے اس بات کی اہمیت کا ادراک ہی نہیں کیا جس کی بھاری قیمت ہمیں آج دہشت گردی کے عفریت سے لڑنے کی صورت میں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

طالبان حکومت ہمارے معاندانہ رویے پر ہم سے متنفر ہوئی تو اس میں شامل بہت سے پاکستان مخالف جذبات رکھنے والوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ پھر کیا تھا! انہوں نے ٹی ٹی پی کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا۔ ہندوستان نے بھی اپنی تربیت یافتہ ٹی ٹی پی کے توسط سے افغان طالبان کے ایک مخصوص گروہ تک رسائی حاصل کر لی۔ آج ان کا پاکستان مخالف گروہ ہندوستان سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے، مالی مفادات حاصل کر رہا ہے، کچھ بعید نہیں کہ بگرام ایئربیس تک ہندوستان کے حوالے کر دیا جائے جبکہ پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کرنے والے افغان طالبان پسِ پشت چلے گئے ہیں۔ ان کے پاس پاکستان کے حق میں دینے کو کوئی دلیل باقی نہیں بچی۔ ملا ہبت اللہ اخونزادہ سادے، کھرے اور سچے انسان ہیں۔ دشمنوں نے مسلسل پاکستان مخالف بیانیہ دے کر انہیں ہم سے دور کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سے رابطہ کیا جائے، ان پر حکومتِ پاکستان کی نیک نیتی، ان کی اپنی حکومت کے دیرپا مفاد، خطے اور امت مسلمہ کے لیے بھائی چارے اور امن کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ رہی بات روس، چین، قطر، ترکیہ یا کسی اور ثالث کی تو عالمی سیاست میں پسِ پردہ محرکات سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ہندوستان اور اسرائیل کی افغانستان میں غیر معمولی دلچسپی، اچانک بت شکنوں کی پذیرائی اور سازش کے لچ تلنے میں امریکہ کی آشیر باد شامل نظر آتی ہے۔ ہندوستانی حکومت کی صوبہ بہار کے انتخابات میں دھاندلی زدہ کامیابی کے بعد فلحال طالبان سے اس کا التفات قدرے ٹھنڈا پڑ جائے گا جو اگلے سال کے اوائل میں مزید صوبوں کے انتخابات میں دوبارہ سے جاگ اٹھے گا۔ تاہم جب تک امریکہ ہندوستان کی پشت سے ہاتھ نہیں اٹھائے گا اور ملاہبت اللہ اخونزادہ پاکستان کے مؤقف کی تائید نہیں کرتے یہ معاملات نہیں سدھریں گے!

  ؎تور ڈالے گی یہی خاک طلسمِ شب و روز

گرچہ الُجھی ہوئی تقدیر کے پیچاک میں ہے

تازہ ترین