ماڈل ٹاؤن لاہور میں پولیس کا جو کردار ٹیلی ویژن سکرینوں پر نظر آیا وہ (excessive and brutal) درندگی کا بدترین نمونہ تھا۔ وہ بھی شرمناک تھا اور اسلام آباد ایئر پورٹ پر پولیس کا ڈنڈا بردار ورکروں کے آگے بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگنا بھی باعث ِشرم تھا۔ دونوں جگہوں پر کہیں تربیت یافتہ پروفیشنل پولیس نظر نہیں آئی۔ ہر دو جگہوں پر اس کا طرزِ عمل ایک منظّم فورس کی بجائے ایک غیرمنظّم ہجوم کا سا تھا۔ دونوں جگہوں پر پولیس کے conductکا فیصلہ غالباً کچھ اور لوگوںنے کیا جو اس ادارے کیلئے بدنامی، نفرت اور جگ ہنسائی کا باعث بنا۔ پولیس کا طرزِ عمل کس موقع پر کیسا ہونا چاہیے ! اس کا فیصلہ پولیس کی سینئر کمانڈ کو خود کرنا چاہیے اور ہرحال میں وردی کی عزّت کا تحفظ پیشِ نظررہنا چاہیے۔ کئی باخبر صحافی ’’اندر کی کہانی‘‘ شائع اور نشر کرچکے ہیں کہ منہاج القرآن میں کسی بھی قسم کے آپریشن کی سی سی پی او اور ڈی آئی جی آپریشنز نے مخالفت کی تھی۔ دوسری طرف کمشنر لاہور نے بھی مخالفت کی مگر ان سب کے انکار کے باوجود کچھ بااختیار لوگ (جن میں سے دو کو وزیرِاعلیٰ نے عہدوں سے ہٹادیا ہے) اصرار کرتے رہے۔ معمولی سی سوجھ بوجھ والا شخص بھی جانتا تھا کہ اس موقع پر کسی بھی قسم کی پولیس کارروائی کی سخت مزاحمت ہوگی اور نتیجہ خون خرابے کی صورت میں ہی نکلے گا۔ اس سانحے نے بلاشبہ پولیس کے علاوہ حکومت کی ساکھ کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے لیکن ان واقعات میں پولیس کا ایک انتہائی کمزور پہلو بھی کھل کر سامنے آیا ہے اور وہ ہے تربیت یا عدم ِتربیت۔ یہ وہ میدان ہے جس میں فوج نے صحیح معنوں میں اپنی برتری ثابت کی ہے۔ فوج کے تربیتی ادارے اداروں سے بدرجہا بہتر ہیں کیونکہ فوجی افسروں کیلئے ٹریننگ ایک prideہے جبکہ سول افسران کیلئے سزا اور فٹیگ ۔
پست اور غیر معیاری(Poor & substandard) ٹریننگ کے نتائج ہم بارہا بھگت چکے ہیںمگر کوتاہی اور چشم پوشی۔ مجرمانہ چشم پوشی برقرار ہے اور ذرا کم نہیں ہورہی۔ اعلیٰ معیار کی تربیت سے ہم اپنی ضرورت اور منشاء کے مطابق پولیس افسر تیار کرسکتے ہیں۔ تربیت نہ صرف ان کی استعداد میں اضافہ کرتی ہے بلکہ ان کے طرزِ عمل کا بھی تعین کرتی ہے۔ اعلیٰ تربیت کی حامل ٹرینڈ فورس نہ تو نہتے افراد کے ساتھ بہیمانہ سلوک کرتی ہے اور نہ ہجوم کے آگے ہجوم کی طرح بھاگتی ہے۔ حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں مگر پولیس کمانڈ کو خود اپنی ترجیحات طے کرنا ہونگی۔
پولیس لیڈرشپ ٹریننگ سے غفلت برتے گی تو ایسے ہی نتائج کا سامنا کرے گی اور پولیس کا طرزِ عمل ایسا ہی ہوگا جیسا ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد ایئر پورٹ پر نظر آیا ہے۔ مجھ سے کئی بار پوچھا گیا کہ اگر آپ کسی ادارے کے سربراہ بنیں تو پہلا کام کیا کریں گے؟ میرا جواب دوٹوک ہے کہ ابتدائی بریفنگ کے بعد سب سے پہلی میٹنگ تربیتی امور کے بارے میں کروں گا۔ مختلف محکموں اور مختلف صوبوں کے سینئر افسران ہم سے آکر پوچھتے ہیں کہ موٹروے پولیس جیسا نیک نام ادارہ ایمانداری اور خوش اخلاقی جیسے امتیازی اوصاف برقرار رکھنے میں کیسے کامیاب ہے؟ آج میں پورے اطمینان کے ساتھ جواب دے سکتا ہوں کہ’’ کچھ incentivesکے علاوہ اعلیٰ معیار کی تربیت سے‘‘ہمیں کئی ماہ تک موٹروے پولیس کے ٹریننگ کالج کیلئے مطلوبہ معیار کا سربراہ نہ مل سکا۔ کئی افسر خواہشمند تھے مگر ہمارا واضح فیصلہ تھا کہ مشکوک کردار کے کسی شخص کو تربیت گاہ کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جائیگا۔ بالآخر ڈی آئی جی احسان صادق جیسے ایماندار اور committedافسر کو ڈھونڈ کر ٹریننگ کالج کا کمانڈنٹ مقرر کیا گیا۔ صوبوں کے انسپکٹر جنرلز کو کس نے روکا ہے ؟ انہیں چاہیے کہ وہ بہترین افسروں کو (جنہیں زیرِ تربیت افسران رول ماڈل سمجھتے ہوں) تربیتی اداروں میں تعینات کریں۔
پولیس کا طرزِ عمل اس قدر شرمناک کیوں ہوتا ہے؟ اور صحیح طرزِ عمل کیا ہے اس پر اگلے کالم میں بات ہوگی۔
قومی سطح پر پولیس کے سب سے بڑے تربیتی ادارے یعنی نیشنل پولیس اکیڈیمی کے سربراہ کے طور پرچند روز پہلے ایک ایسے پولیس افسر کو مقرر کیا گیا ہے جن کی’’ شہرت‘‘کے باعث ان کی تعیناتی نے پولیس کے حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑادی ہے۔ پولیس اکیڈیمی کو (نہ جانے کیوں؟) وزارتِ داخلہ کے ماتحت کردیا گیا ہے اور اس وزارت کے ماتحت اداروں میں کوئی تعیناتی منسٹر صاحب کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ گذشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے پولیس کا سب سے بڑا تربیتی ادارہ کسی سربراہ (کمانڈنٹ) کے بغیر ہی چلتا رہا۔ پھرایک مہینے کیلئے مجھے کمانڈنٹ کا اضافی چارج دیا گیا تو دن رات ایک کرکے اکیڈیمی کا ڈسپلن ٹھیک کیا۔ زیرِ تربیت اے ایس پی صاحبان کو تفتیش کے جدید طریقوں سے روشناس کرایا گیا، اعلیٰ معیار کے گیسٹ سپیکرز مدعو کئے گئے، سپورٹس اور ڈیبیٹس کے مقابلے کرائے گئے، زیرِ تربیت افسروں کو پولیس کے عملی چیلنجز سے روشناس کیا گیااور نیک نام افسروں نے اپنے تجربات ان کے ساتھ share کئے۔ انہیں رزقِ حلال کی طرف راغب کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔چار ہفتوں بعد نوجوان اے ایس پی اپنے دوستوں سے کہتے رہے کہ’’ہم کئی مہینوں سے مختلف ٹریننگ اکیڈیمیوں میں تھے مگر اس ایک مہینے میں ہمیں پتہ چلا ہے کہ ٹریننگ کیا ہوتی ہے۔‘‘پھر ایک روز معلوم ہوا کہ ایک اور صاحب کو اکیڈیمی کا کمانڈنٹ مقرر کردیا گیا ہے اور وہ بھی صرف ایک روز کیلئے کہ ا ن کی پروموشن actualiseکرانا تھی۔ اس پر ایک سینئر پولیس افسر نے تبصرہ کیا کہ’’ لگتا ہے نیشنل پولیس اکیڈیمی کو صرف حلالہ کرانے کیلئے رکھا گیا ہے‘‘۔
یہ حقیقت تلخ بھی ہے اور افسوسناک بھی کہ وزارتِ داخلہ کے کسی کارپرداز کے پاس پولیس کے سب سے بڑے تربیتی ادارے کیلئے کوئی وقت نہیں ہے اور وزارتِ داخلہ کے بڑوں میں سے کبھی کسی نے تربیتی امورپر تبادلہ خیال کیلئے اور ان کے مسائل جاننے کیلئے کبھی نیشنل پولیس اکیڈیمی کا دورہ نہیں کیا۔ حالانکہ یہ وہ اہم ادارہ ہے جہاں سے تربیت حاصل کرکے نکلنے والے افسران کل ایس پی، ڈی آئی جی اور آئی جی بنیں گے اورضلعوں، ڈویژنوں اور صوبوں کی کمان سنبھالیں گے۔ کمانڈنٹ اور اس کی ٹیم ہی زیرِتربیت افسروں کی کردار سازی کرتی ہے۔ انہیں Motivateکرتی ہے۔ صحیح اور غلط کا فرق بتاتی ہے اور سمت کے تعین میں ان کی راہنمائی کرتی ہے۔ کیا ایک ایسے شخص کو اس ادارے کا سربراہ مقررکرنا درست ہے جس کا اپنا کردار مشکوک ہو، جس پر مالی اور اخلاقی کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات ہو ں، جو دوبارآئی جی سندھ رہا اور دونوں بار سپریم کورٹ کو ہٹاناپڑا۔ جسے تیسری بار آئی جی سندھ لگانے کیلئے زرداری صاحب نے پھر اصرارکیامگر پرائم منسٹر نے انکارکردیا۔ ایک پولیس افسر ہی نہیں ایک عام شہری کی حیثیت سے بھی میرا حق بنتا ہے کہ میں جان سکوں کہ میرے مستقبل کے محافظوں کو کس ماحول میں تیار کیا جارہا ہے!
کیا وزارِت داخلہ کو ایک سال کی تلاش کے بعد پولیس لیڈرزکی ٹریننگ کیلئے موصوف سے بہتر کوئی شخص نہیں ملا؟ کیا ایسے سربراہ کے زیرِ سایہ تربیّت حاصل کرنے والے پولیس افسر شہریوں کو انصاف اورتحفظ دے سکیں گے؟ محترم وزیرِ داخلہ خودایک ایماندار شخص ہیں اس لئے ہم ان کا بڑااحترام کرتے ہیں مگر بصد احترام گذارش ہے کہ اس بے حد ہم ادارے کی سربراہی کیلئے یہ انتخاب نہایت غیر موزوں ہے اس کے فوری ازالے کی ضرورت ہے۔ وزارِت داخلہ کی مصروفیات کے پیشِ نظر بہتر ہے کہ نیشنل پولیس اکیڈیمی اور پولیس بیورو جیسے ادارے وزارِت داخلہ کی بجائے براہِ راست وزیرِ اعظم یا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ماتحت کردئیے جائیں۔
نوٹ:وفاقی دارلحکومت کو فوج کے حوالے کردینے کے فیصلے سے کسی صورت اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ مجھے بھی امن وامان کے دشت کی سیاحی میں تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ جبکہ خود ٹانک اور ہنگومیں ایسے چیلنجز سے نبردآزما رہا ہوں۔کئی تجربہ کار پروفیشنلز اور امن وامان کے بہت سے ماہرین بھی اسی شہر میں رہائش پذیر ہیں۔ کسی ایک بھی پروفیشنل افسر نے امن وامان یا دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے اسلام آباد میں رینجرز کی تعیناتی کو پسند نہیں کیا۔ اسلام آباد کے پڑھے لکھے شہریوں نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کی رائے میں اس سے احساسِ تحفظ کی بجائے خوف وہراس پیداہوا ہے۔ ایسا فیصلہ کرنے سے پہلے کیا کسی سینئر پولیس افسر کی رائے لی گئی تھی؟ کیا کسی نے رینجرز بلانے کا مشورہ دیا تھا؟وزارتِ داخلہ انٹرنل سیکیورٹی کی ذمہ دار ہوتی ہے مگر یہ دنیا کی واحد وزارتِ داخلہ ہوگی جس میںنیچے سے اوپر تک ایک بھی پروفیشنل پولیس افسر نہیں ہے۔کسی شہر کو خصوصاً دارالحکومت میں فوج (رینجرز کی کمانڈ فوجی افسروں کے پاس ہوتی ہے، اس لئے رینجرز کا مطلب فوج ہے) بلالینا سول اداروں کی نااہلی اور ناکامی اور دوسرے لفظوں میں سول حکومت کی ناکامی سمجھا جاتا ہے۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہم خود دنیا کو اپنے ملک کے بارے میںایسا منفی تاثر کیوں دینا چاہتے ہیں؟اسلام آباد کراچی ہرگزنہیںہے ، اس کو کراچی بنانے کی کیوں کوشش کی جارہی ہے؟ پولیس کو reinforceکرنے کیلئے اسلام آباد پولیس کے پاس تربیت یافتہ Elite Forceموجود ہے انہیں اہم اور حساس مقامات پر تعینات کیا جاسکتا ہے ۔ Elite Force کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے۔ وہ کون سا چیلنج ہے جس سے رینجرز، ایلیٹ فورس سے بہتر نمٹ سکتے ہیں؟ سول اداروں کی استعدادِ کار بڑھانے اور پولیس کو آپریشنل اٹانومی دینے کی ضرورت ہے۔ جدید دور کے مرض کا علاج دقیانوسی فارمولوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ سپیشلسٹوں کی بجائے نیم حکیموں اور عطائیوں کے نسخے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔