• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی مالیاتی ادارے( آئی ایم ایف) نے ایسے وقت میں پاکستان کیلئے اربوں ڈالر کے قرضے جاری کئے جب وہ دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور بین الاقوامی برادری میں اسکی معاشی ساکھ بری طرح ڈگمگا رہی تھی۔ لیکن اس ادارے کو اپنے قرضوں کی واپسی یقینی بنانے کیلئے یہ بھی دیکھنا تھا کہ پاکستان کی معیشت یہ اہلیت رکھتی بھی ہے یا نہیں اس مقصد کیلئے اس نے قرضوں کے اجرا کے لئے کچھ ناگوار شرائط عائد کیں اور طویل مذاکرات میں کچھ اصول وضوابط مقرر کئے جن پر عملدرآمد کی ضمانت حاصل کرنے کے بعد اس نے قرضے جاری کردئیے ۔

مخالف سیاسی حلقے اور اقتصادی ماہرین اس پر حکومت کے لتے لینے لگے کہ اس نے اپنا اقتصادی نظام آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے اور تمام فیصلے اس کی ڈکٹیشن کے تابع کردئیے ہیں۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی تھی مگر جب کوئی ملک ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں اس کے معاشی نظام کا ڈھانچہ انہدام کے خطرے سے دوچار ہوچکا ہوبلکہ کاروباری زندگی اور ریاست کی سلامتی بھی خطرے میں ہوتو ایسے ہی مواقع کے لئے عالمی برادری نے اتفاق رائے سے آئی ایم ایف جیسے ادارے قائم کر رکھے ہیں جو مشکل وقت میں ایسے ممالک کی مدد کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف اقتصادی محاذ پر قائم ایسا ہی ادارہ ہے۔ وہ نہ صرف قرضے دے کر متاثرہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرتا ہے بلکہ ایسی تجاویز اور سفارشات بھی پیش کرتا ہے جن پر عمل کرکے یہ ملک نہ صرف اپنی اقتصادی مشکلات پر قابو پاتا ہے بلکہ قرضے بھی سود کے ساتھ واپس کرتا ہے۔

آئی ایم ایف نے حال ہی میں پاکستان کی اقتصادی صورتحال کے بارے میں ایک فکر انگیز رپورٹ جاری کی ہے جس میں نہ صرف اس کو درپیش معاشی چیلنجز کی نشاندہی کی گئی ہے بلکہ دوچار نہیں ، سو کے قریب سفارشات بھی پیش کی ہیں جن پر عمل کرکے پاکستان اپنے معاشی مسائل پر قابو پاسکتا ہے۔ اپنی رپورٹ میں اس نے پاکستان میں مالی کرپشن کی بدترین صورتحال کو بے نقاب کرتے ہوئے 53سوارب روپے کے ایک اسکینڈل کو بے نقاب کیا ہے جس سے سیاسی مخالفین کوحکومت کو بدنام کرنے کا موقع مل گیا ہے اور وہ اس پر بدعنوانی میں ملوث ہونے کے تیر چلانے لگے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سیاسی اتحاد اور بعض دوسری سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کرپشن کے اس بدترین اسکینڈل کی تحقیقات کی جائے اور اس میں ملوث لوگوں کے نام ظاہر کئے جائیں۔ جو لوگ پہلے حکومت کو آئی ایم ایف کی کٹھ پتلی قرار دیتے تھے اور اس کی ڈکٹیشن پر چلنے کے طعنے دیتے تھے اب وہ اسی ادارے کے انکشافات کی داد دے رہے ہیں اور اس کی سفارشات پر عملدرآمد کا مطالبہ کررہے ہیں یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ آخرسرکاری خزانے کے 53سوارب روپے کہاں گئے اور کون لوگ انہیں کھاگئے۔ ان کے خدشات بلاشبہ درست ہیں اور حکومت بھی اس سلسلےمیں مشوش ہے۔خود آئی ایم ایف نے اپنی سفارشات پر عملدرآمد کا سختی سے تقاضا کیا ہے اور قانونی اقدامات پر زور دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ سفارش بھی ہے کہ حکومت کرپشن کے خاتمے کے لئے سرکاری عمال کو اپنے اثاثوں کے گوشوارے پیش کرنے کا حکم دے۔حکومت نے اس تجویز کو قبول کرلیا ہے۔ آئی ایم ایف نے جو دوسری اہم سفارشات پیش کی ہیں ان میں نیب پربھی تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ سیاسی دباؤ کے تحت کرپشن روکنے میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ بدعنوانی میں کمی نہ ہونے کے باعث ملکی شرح نمو کی صلاحیت ف5اعشاریہ 6فیصد تک متاثر ہورہی ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ طرز حکمرانی، قانون کی شکست و ریخت ،احتساب کے فقدان ،ریاستی اداروں کی مشکوک مراعات، ٹیکس نظام کی کمزوریوں، سیکورٹی ایکسچینج اورسی سی پی جیسے اداروں کی بے عملی،ریاستی ڈھانچے میں اوپر سے نیچےتک پھیلی ہوئی وسیع منظم اور بدترین کرپشن اقتصادی اصلاحات کو ناکام بنارہی ہیں۔

آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا ہے کہ قرضوں کا اہتمام کرنے والے متعدد ادارے ایک ہی نوعیت کےکام میں لگے ہوئے ہیں جس سے فیصلے سست اور بے ربط ہوجاتے ہیں۔ من پسند کمپنیوں کو نوازنے کا نظام سرکاری خریداری کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ ٹیکس اہلکاروں کو اختیارات بدعنوانی کو جنم دے رہے ہیں۔ اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی اور ایس آئی ایف سی ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ ریاست کی ملکیت تمام اراضی ایک مرکزی ڈیٹا میں درج کی جائے ۔ عدلیہ کے فیصلوں میں تاخیر کے بھی منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں اس لئے ججوں کی تقرری کے لئے معیاری اصول مرتب کئے جائیں اور عدالتی نظام میں دیانتداری کے فروغ کے لئے کام کیا جائے۔ ایف بی آر کی شفافیت بڑھائی جائے۔اس طرح کی کئی اور سفارشات بھی آئی ایم ایف نے پیش کی ہیں جس کی ضرورت پاکستان کا عام آدمی بھی محسوس کرتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح7فیصد تک پہنچ گئی ہے جو پانچ سال پہلے6اعشاریہ 43فیصد تھی۔ لیبر سروے کے مطابق24سال تک کے نوجوان سب سے زیادہ بے روزگار ہیں۔ خواتین، کسان اورگھریلو ملازمین بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال میں کرپشن کا بڑاحصہ ہے اور یہ صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے دوسرے کئی ممالک بھی ایسے ہی حالات سے دوچار ہیں۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ جنوبی سوڈان ،صومالیہ، وینزویلا، شام، یمن ،لیبیا وغیرہ میں سب سے زیادہ کرپشن ہے۔ پاکستان ان سے بہتر ہے مگر صرف دوچار قدم ۔ کرپشن صرف رشوت خوری کانام نہیں، اختیارات کابے جا استعمال بھی کرپشن ہی کی ایک صورت ہے اور پاکستان میں یہ اختیار بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ تھانوں، کچہریوں اور سرکاری اسپتالوں وغیرہ میں اس کا استعمال روزمرہ کا معمول ہے۔ جہاں قوانین کی سرعام دھجیاں اڑائے جانے کی شکایات عام ہیں۔ ایسے میں ملکی معیشت کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف کی تجاویز پر عملدرآمدوقت کی ضرورت ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت ان سفارشات سے متفق ہے اور خرابیوں کے ازالے کیلئے اقدامات کرنا چاہتی ہے۔

تازہ ترین