• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر پاکستان ایک ایسی تلخ حقیقت کا سامنا کرتا ہے جو برسوں سے ہمارے سماج میں گہرائی تک پیوست ہے۔ ہمارے ملک میں خواتین کے خلاف تشدد نہ کوئی نایاب واقعہ ہے اور نہ ہی کوئی دور دراز کا مسئلہ۔ یہ ہمارے گھروں کے اندر موجود ہے۔ اعداد و شمار اس بحران کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں۔ سال 2024 میں پاکستان میں خواتین پر تشدد کے بتیس ہزار سے زائد واقعات درج کیے گئے۔ پانچ ہزار سے زیادہ خواتین اور بچیاں ریپ کا شکار ہوئیں۔ چوبیس ہزار سے زائد اغوا یا گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ دو ہزار سے زیادہ گھریلو تشدد کے کیسز سامنے آئے اور پانچ سو سینتالیس خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ مگر یہ صرف وہ واقعات ہیں جو سامنے آسکے۔ قومی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک شادی شدہ عورت اپنے شوہر کے ہاتھوں جسمانی، جذباتی یا جنسی تشدد کا شکار ہو چکی ہے، اور ان میں سے نصف سے زیادہ کبھی مدد نہیں مانگتیں۔

تشدد کے اس مسئلےکو مزید سنگین بناتی ہے سزا نہ ہونے کی روایت۔ ریپ کے کیسز میں سزا کی شرح نصف فیصد کے قریب ہے۔ گھریلو تشدد کے مقدمات میں سزا کی شرح ایک فیصد کے لگ بھگ۔ اسی طرح اغوا اور غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں بھی انصاف کا حصول قریباً ناممکن ہے۔ اسلام آباد میں 2025 کی پہلی ششماہی میں گھریلو تشدد کے کسی بھی کیس میں نہ سزا سنائی گئی اور نہ ہی کوئی فیصلہ سامنے آیا۔ایسے حالات میں گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ کا بل 2025 ایک سنگ میل بن کر سامنے آیا ہے۔ برسوں تک وفاقی سطح پر کوئی قانونی ڈھانچہ موجود نہیں تھا۔ اب قومی اسمبلی نے بالآخر ایک ایسا وسیع اور مضبوط قانون منظور کیا ہے جو خواتین کو ان کے ہی گھروں میں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس قانون کی محرک اور مصنف ہونے کے ناطے میں نے وہ خلا اپنی آنکھوں سے دیکھا جس کا خمیازہ بے شمار خواتین روزانہ بھگتتی تھیں۔ اس قانون کی منظوری ریاست کی جانب سے یہ اعلان ہے کہ اب خاموشی کا دور ختم ہو چکا ہے۔یہ قانون تشدد کے تصور کو اس طرح وسعت دیتا ہے جیسے ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے۔ تشدد صرف ٹوٹی ہڈی یا زخم کا نام نہیں۔ ذہنی دباؤ، خوف پیدا کرنا، توہین آمیز زبان، مالی کنٹرول، جنسی زبردستی اور نفسیاتی اذیت بھی تشدد ہی کی شکلیں ہیں جو عورت کی روح کو مجروح کرتی ہیں۔ اس قانون میں پہلی بار ان تمام صورتوں کو باقاعدہ جرم قرار دیا گیا ہے۔قانون کا دوسرا اہم پہلو تحفظ کا نظام ہے جو پہلی بار ادارہ جاتی بنیادوں پر قائم ہو رہا ہے۔ اسلام آباد کے ہر زون میں پروٹیکشن کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو کیسز کی نگرانی، اداروں کے درمیان رابطہ، ریکارڈ کی حفاظت اور فوری مدد کی فراہمی کو یقینی بنائیں گی۔ یہ کمیٹیاں محض رسمی نہیں بلکہ عملی ذمہ داریاں ادا کرنے کی پابند ہوں گی۔اس کے ساتھ ہی پروٹیکشن آفیسرز کا تقرر کیا جائے گا جو متاثرہ خاتون کا پہلا رابطہ ہوں گے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرانے میں مدد دیں، میڈیکل معائنہ کرائیں، شیلٹر ہوم تک رسائی دیں، ہنگامی پروٹیکشن آرڈر حاصل کرائیں اور عدالتی کارروائی میں رہنمائی فراہم کریں۔ پہلی بار ریاست متاثرہ عورت کو خود سہارا دے گی، اور اسے تنہا نہیں چھوڑے گی۔عدالتوں کو بھی فوری کارروائی کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ ہنگامی پروٹیکشن آرڈرز کے ذریعے شوہر یا مجرم کو گھر سے نکالا جا سکے گا، رابطے پر پابندی لگائی جا سکے گی اور بچوں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے گی۔ اسپتالوں، پولیس اور سوشل ویلفیئر اداروں پر مشترکہ کارروائی لازم ہوگی۔ اب کوئی بھی محکمہ خواتین کو یہ نہیں کہہ سکے گا کہ ’بعد میں آئیے‘۔قانون میں پہلی بار معاشی نقصان کی تلافی بھی شامل ہے۔ بہت سی خواتین صرف اس لیے ظلم سہتی رہتی ہیں کہ ان کے پاس مالی وسائل نہیں ہوتے۔ یہ قانون طبی اخراجات، آمدنی کے نقصان، رہائش کی تبدیلی اور دیگر ضروریات کے لیے معاوضہ دلواتا ہے۔قانون کا ایک اہم ستون تشدد کی روک تھام ہے۔ سرکاری ملازمین کی تربیت، آگاہی مہمات، اسکولوں اور کمیونٹی کی سطح پر شعور بیداری اور درست اعداد و شمار جمع کرنا اب قانون کا حصہ ہیں۔ پاکستان پہلی بار تشدد کے بعد کارروائی کے بجائے اس کی پیشگی روک تھام کے لیے سنجیدہ ہو رہا ہے۔ہمارے ملک کی بے شمار خواتین کی زندگی تشدد کے بوجھ تلے گزر چکی ہے۔ یہ قانون انہی خواتین کی آواز ہے۔ اس کی منظوری یہ اعلان ہے کہ اب ان کی اذیت کو ریاست تسلیم کر رہی ہے، اور گھر کے اندر ہونے والا ظلم اب خاندانی معاملہ سمجھ کر نظرانداز نہیں ہوگا۔یہ قانون پاکستان کو اپنے عالمی وعدوں سے بھی ہم آہنگ کرتا ہے۔ سیڈا، بچوں کے حقوق کا کنونشن، عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق، آئی سی سی پی آر اور پائیدار ترقی کے مقاصد — پاکستان اب ان تمام ذمہ داریوں کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔اس قانون کو ڈرافٹ سے منظوری تک لانا میری سیاسی زندگی کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک رہا ہے۔ میں نے اسے اس لیے آگے بڑھایا کہ عوامی خدمت کا حقیقی مقصد کمزوروں کے ساتھ کھڑا ہونا اور ان نظامی خامیوں کو درست کرنا ہے جو انہیں دہائیوں سے نقصان پہنچاتی رہی ہیں۔یہ لمحہ پاکستان کی ان تمام خواتین کے نام ہے جنہوں نے ظلم برداشت کیا اور پھر بھی ہار نہیں مانی، اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے نام ہے جنہوں نے ہمیشہ کہا کہ ایک قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس کی خواتین محفوظ اور بااختیار نہ ہوں۔اب ذمہ داری سینیٹ کی ہے۔ میں اپنے معزز ساتھیوں سے مطالبہ کرتی ہوں کہ اس بل کو سنجیدگی، دیانت اور قومی ذمہ داری کے ساتھ منظور کریں۔ پاکستان کی خواتین بہت انتظار کر چکی ہیں۔یہ قانون ہمارے ملک کی خواتین کے لیے ایک محفوظ، باوقار اور انسان دوست مستقبل کی بنیاد رکھے گا، اور اسی میں پاکستان کی مضبوطی بھی ہے۔

(کالم نگار رکن قومی اسمبلی پاکستان ہیں)

تازہ ترین