• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

”سابق وزیر اعظم عمران خان کی روحانی پیر بشری بی بی تھیں۔ بشری بی بی کا عمران خان حکومت پر گہرا ثرورسوخ تھا۔ وہ بڑے بڑے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی تھیں۔“ یہ الفاظ مشہور برطانوی جریدے دی اکنامسٹ کی رپورٹ کا حاصل وصول ہیں۔ قارئین! دیکھا جائے تو ہمارے تقریبا تمام حکمران ہی کسی نہ کسی پیرفقیر سے روحانی طور پر وابستہ رہے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں انسان چاہے جتنا بھی ماڈرن ہوجائے، جتنا بھی ترقی یافتہ ہوجائے وہ روحانیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ روحانیت سے فرار ممکن نہیں۔ آپ غور سے دیکھیں اور باریک بینی سے جائزہ لیں۔ دنیائے عیسائیت سے تعلق رکھنے والا انسان ہو یا یہودیت سے۔ بدھ مت ہو یا آتش پرست، ہندو مت ہو یا وثنیت، مسلمان ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان۔ دنیا میں بسنے والے ہر بشر کو کسی نہ کسی قدم پر روحانیت کی ضرورت لازماً محسوس ہوتی ہے۔ آپ ہی بتائیں دنیا کا واحد سپر پاور ملک امریکا کا صدر کیوں چرچ جاتا ہے؟ دنیوی اور مادی اعتبار سے اسے کس چیز کی کمی ہے؟ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت کا وزیراعظم کیوں مندر جاتا ہے؟ اسرائیل کا وزیراعظم نیتن یاہو ہر اتوار کو سینی گاگ کیوں جاتا ہے؟ ایک صدر پاکستان ایوان صدر میں بیٹھ کر پیر سے کیوں پھونکیں مرواتےرہے۔ کیا دم درود زیادہ طاقتور ہے؟ سابق صدرپرویز مشرف نے جب لندن سے پاکستان آنے کا حتمی فیصلہ کیا تھا تووہ اپنی بیوی کے ساتھ نقشبندی سلسلے کے شیخ محمد ناظم کی خانقاہ پر بھی گئے تھے۔ ان سے اپنے سیاسی کیریئر کے لئے خصوصی دعا کروائی تھی۔ شیخ ناظم نے ان کے حق میں دعاکی اور ان کے بازو پر تعویذ بھی باندھا تھا۔پاکستانی کے تمام حکمرانوں کا کسی نہ کسی پیر، بابے، درگاہ، خانقاہ اور روحانی مراکز سے تعلق رہا ہے۔ آصف علی زرداری جس وقت قید میں تھے، اس وقت انہوں نے مطالعہ شروع کیا۔ انہیں تصوف کی چند کتابیں میسر آئیں۔ ان کتابوں میں بزرگوں کے احوال پڑھ کر انہوں نے کسی سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ کچھ لوگوں نے ان کی ملاقات میانوالی کے نواب جہانگیر ابراہیم المعروف ”ابرا“ سے کرائی۔ ”ابرا“ نے آصف علی زرداری کے سامنے چند پیش گوئیاں کیں، جن میں سے ایک دو بعد میں سچ بھی ثابت ہوئیں۔ 1993ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو انتخابات کی مہم پر تھیں۔ فیصل آباد میں ان کی ملاقات ایک نجومی سے کرائی گئی۔ نجومی نے زائچہ بنایا اور محترمہ سے کہا آپ یہ انتخابات جیت جائیں گی، مگر یہ اقتدار صرف ڈھائی سال تک ہی چل پائے گا اور واقعی ایسا ہی ہوا۔پیر تنکہ کے ساتھ بی بی کی تصویر بھی بہت سے لوگوں کے پاس محفوظ ہے۔ 1996ءمیں محترمہ اپنے اقتدار میں دوام کے لیے ”پیرتنکہ“ کی درگاہ پر گئی تھیں۔ پیرتنکہ نے ان کی کمر پر چھڑیاں مارکر انہیں لمبے اقتدار کی بشارت دی تھی۔ میاں نواز شریف کے بارے میں بتایا جاتا ہے وہ بھی فیصل آباد کی ایک روحانی شخصیت سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا نام سالار تھا اور سالار ہمیشہ خاموش رہتے تھے۔ ایک مرتبہ میاں نواز شریف کو یہاں کا دورہ کرایا گیا۔ ”سالار“ نے ان کے لیے خصوصی دُعا کی۔ میاں صاحب ایک طویل عرصے تک ان کے پاس حاضری دیتے رہے۔ جنرل ضیاءالحق مرحوم کے بارے میں جاننے والے بتاتے ہیں ان کا علماءومشائخ اور دین داروں کے ساتھ بہت گہرا ربط رہتا تھا۔ وہ اکثر ان کے پاس حاضری دیتے تھے۔ ان میں مشہور حکیم فاضل ظہیر تھے۔ یہ لاہور میں رہتے تھے۔ ان کا تعلق صابریہ سلسلے سے تھا۔ حکیم فاضل نے انہیں اس وقت اقتدار کے بارے میں بتایا تھا جب ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے 17 اگست 1988ءکی صبح حکیم صاحب نے جنرل ضیاءالحق کو بہاولپور کے سفر سے روکنے کے لیے ایوان صدر فون کیا، مگر ان کی صدر سے بات نہ ہوسکی۔ معاملہ چونکہ حساس تھا، اس لیے حکیم صاحب نے ایوان صدر کے کسی دوسرے شخص کو رازنہ بتایا، مگر وہ بہاولپور چھاؤنی فون کرتے رہے اور صدر ضیاءالحق سے ان کا رابطہ نہ ہوسکا۔ شام کو جنرل ضیاءالحق کے جہاز کے ساتھ حادثہ پیش آیا۔ اسی طرح جنرل غلام محمد نے اپنا تعلق ”دیول شریف“ سے رکھا تھا۔ تقسیم سے قبل غلام محمد ان کے مزار پر حاضری دیا کرتے تھے۔ وہاں پر دُعائیں کروایا کرتے تھے۔ جن لوگوں نے روحانیت، مذہبیت کو دیس نکالا دیا ہے، وہ اب پریشان ہیں۔ اگر مادّیت اور دولت ہی سب کچھ ہے تو پھر دنیا کی سب سے بڑی گیس کمپنی کا مالک پاگل ہوکر نہ مرتا۔ گندم کا سب سے بڑا سٹے باز، مفلس، نادار اور غریب ہوکر دنیا سے نہ جاتا۔ نیویارک اسٹاک ایکسچینج کا مالک جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ کر آہیں بھر بھر کے نہ مرتا۔ دنیا کا مضبوط ترین ملک امریکا کا وزیر پریشان ہوکر ایسے کام نہ کرتا جس کی بناپر وہ ذلیل ہوکر گرفتار ہوا اور کال کوٹھڑی میں موت کا انتظار کرتا رہا۔ وال اسٹریٹ کا معاشی بھیڑیا کہلانے والا بزنس مین زندگی کے ہاتھوں زچ ہوکر خودکشی نہ کرتا۔ دنیا کی سب سے بڑی اجارہ داری کمپنی کا مالک اور نیویارک بینک کا صدر پنکھے سے جھول کر نہ مرتا۔ دنیا کے سب سے بڑی یوٹیلیٹی کمپنی کا مالک قلاش ہوکر موت کا انتظار نہ کرتا۔ اگر مادیت ہی سب کچھ ہوتی تو پھر اسکینڈے نیوین ممالک کے لوگ جن کو دنیا بھر کی تمام سہولتیں اور عیاشیاں میسر ہوتی ہیں، اس قدر پریشان نہ ہوتے۔ ڈپریشن کے مریض نہ بنتے۔ خودکشیاں نہ کرتے۔ انسان کی فطرت ہے جب وہ پریشان ہوتا ہے تو اسے کوئی نہ کوئی سہارا چاہیے ہوتا ہے۔ مادیت، دنیویت، آسائشوں سے تنگ لوگوں کو روحانیت ہی چاہیے ہوتی ہے۔ بحکم قرآن دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہی ہے۔ روحانیت کی لذت پانے والے کے سامنے دنیا بھر کی دولتیں، سہولتیں، آسائشیں سب ہیچ ہوتی ہیں۔

تازہ ترین