• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ واقعہ اُن دنوں کا ہے جب اوپر سے لے کر نیچے تک ہر کسی کو استثنیٰ حاصل تھا، جب دل کیا کسی کے ہوٹل کے کمرے میں دھاوا بول دیا، آئی جی کو اغوا کر لیا، میڈیا پر اپنے مخالفین کی کردار کُشی کی، اُن کیخلاف غلیظ مہم چلائی، بغیر کسی ثبوت کے انہیں گرفتار کیا، جیل بھیجا، لوگوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر ٹی وی پر اُنکی تصویریں چلائیں، عدالتوں میں ضمانت کی درخواست سماعت کیلئے مقرر نہ ہونے دی....طویل داستان ہے جو چار سطروں میں سمیٹی نہیں جا سکتی۔ واقعہ دہرا دیتا ہوں۔

دروازے کی گھنٹی بجتی ہے۔ صاحب خانہ نے گھڑی دیکھی، رات کا پہلا پہر تھا، اُنکے سونے کا وقت ہو چلا تھا، شب خوابی کا لباس پہنے انہوں نے دروازہ کھولا تو بھونچکے رہ گئے۔ دروازے پر ڈیڑھ درجن پولیس کی گاڑیاں اور باوردی اہلکار بندوقیں سنبھالے یوں چوکس کھڑے تھے جیسے انہوں نے گھر سے کسی دہشت گرد کو برآمد کرنا ہو۔یہ سفید پوش لوگوں کا محلہ تھا اور جس گھر پر یہ دھاوابولا گیا تھا وہ بھی ایسے ہی ایک مڈل کلاس شہری کا گھر تھا۔اُس شریف آدمی نے بدقت تمام اپنے حواس مجتمع کرکے پولیس والوں سے شان ِنزول پوچھی تو ایک تھانیدار نے آگے بڑھ کر جواب دیا کہ آپکو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔کس جرم میں؟ یہ بعد میں بتائیں گے۔ کوئی پرچہ،کوئی مقدمہ؟ وہ بھی ہو جائے گا، بس ساتھ چلیں۔ اپنی دوائیاں لے لوں، کپڑے تبدیل کر لوں؟ جی نہیں، ایسے ہی آ جائیں۔پھر وہی ہوا جو ایسے معاملات میں ہوا کرتا ہے، اُس شخص کو بغیر کوئی وجہ بتائے حوالات میں پھینک دیا گیا۔ اگلی صبح متعلقہ ایس ایچ او نے پرچہ کاٹا جس میں لکھا کہ رات وہ گشت پر تھا جب اسے (مخبر سے) اطلاع ملی کہ عرفان صدیقی نامی ایک آدمی نے کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا مکان ایک شخص کو کرائے پر دیا ہے،اطلاع مصدقہ تھی لہٰذا فوری طور پر ’ملزم‘کے گھر پر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کر لیا گیا۔اگلے روز ملزم عرفان صدیقی کوہتھکڑی لگا کر اسلام آباد میں ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں پیش کیا گیا جس نے اطمینان سے ملزم کو چودہ روز کیلئے جیل بھیج دیا۔ باقی تاریخ ہے۔

عرفان صاحب کو کسی نام نہاد کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتار نہیں کیا گیا تھابلکہ انکے نظریات کی وجہ سے ہتھکڑی لگائی گئی تھی۔ عرفان صدیقی کے پاس یہ اختیار موجود تھا کہ وہ کسی بھی قسم کی سیاسی وابستگی سے دور رہتے، شاعری کرتے، افسانے لکھتے، اردو نثر کی نوک پلک سنوارتے اور بطور استاد ریٹائر ہو کر کسی کونے میں پڑے رہتے۔ عام طور سے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اِس قسم کے ادیب لوگ جب کسی سیاست دان کا ساتھ دینگے تو پھر انہیں سیاست کی آلائشوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا؟ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔دنیا بھر میں دانشور، ادیب، یونیورسٹیوں کے پروفیسر، اپنے سیاسی نظریات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں اورحکومتیں اِن نظریاتی لوگوں کے مشوروں سے نہ صرف استفادہ کرتی ہیں بلکہ انہیں کابینہ کا حصہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ایک طرف تو ہم ’جاہل سیاست دانوں‘کی عقلوں کا صبح شام ماتم کرتے ہیں کہ کس قسم کے ان پڑھ لوگ ہم پر مسلط ہیں مگر جونہی کوئی دانشور اپنے نظریات کی بنا پر اِنکا ساتھ دے تو یکدم الزامات کی بوچھاڑ کرکے اُسکی کردار کشی شروع کر دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں زندہ معاشروں میں دانشوراپنے نظریات رکھتے ہیں اور اُن پر فخر کرتے ہیں جبکہ ہم نظریاتی دانشوروں کو طعنے دے کر کہتے ہیں کہ تمہیں سیاسی نظریات کی دلدل میں کودنے کی ضرورت نہیں، چپ چاپ پڑے اینڈتے رہو یا زیادہ سے زیادہ بے ضرر قسم کے افسانے، سفرنامے یا کہانیاں لکھا کرواور بہت مروڑ اٹھے تو علامتی شاعری کر لیا کرو۔

خیر، عرفان صدیقی کے گھر کا دروازہ اَب بند ہو چکا ہے۔ وہ گھنٹی جو رات کے پہلے پہر بجی تھی، اب خاموش ہے۔ عرفان صدیقی صاحب، جو کبھی اپنے ہی گھر کے دروازے پر ڈیڑھ درجن پولیس گاڑیوں اور بندوق بردار اہلکاروں کے سامنے بے یار و مددگار کھڑے تھے، اب مٹی اوڑھ کر سو چکے ہیں۔ اُن کی کہانی پرانی ہو چکی ہے مگر اسکا دکھ تازہ ہے۔ عرفان صدیقی صاحب کیساتھ جو کچھ ہوا، وہ دراصل انکے نظریات کی پاداش میں ہوا۔ انہوں نے سچ بولنے کی جرأت کی، اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے اور اسکی قیمت انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے گئے لمحات سے چکانی پڑی۔ آج جب عرفان صدیقی اس دنیا میں نہیں رہے، تو انکے مخالفین نے اپنی نفرت کی سیاست کا رقص جاری رکھا، اُنکی شخصیت کو مجروح کرنے اور اُنکے کردار کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی، مگر حقیقت یہ ہے کہ عرفان صدیقی صاحب ان تمام تنقیدوں، طعنوں اور لعن طعن سے بلند تھے۔ انہوں نے ہمیشہ حق بات کہی، خواہ اس کیلئے انہیں کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانی پڑی۔ وہ جانتے تھے کہ اس ملک میں سچ بولنا ایک خطرناک پیشہ ہے، پھر بھی وہ خاموش نہیں بیٹھے۔ اُن کے مخالفین شاید یہ بھول گئے کہ عرفان صدیقی کوئی عام سیاست دان نہیں تھے بلکہ وہ ایک دانشور، ایک مفکر اور ایک صاحبِ قلم انسان تھے۔

اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ عرفان صدیقی بطور نثر نگار بہتر تھے یا بطور سیاست دان تو میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ اُن کی نثر پڑھ کر ہم جیسوں نے اردو لکھنی سیکھی۔ مجھے یاد ہے جب پرویز مشرف دور میں نوائے وقت میں اُن کے کالم شائع ہوا کرتے تھے تو کیسے کیسے استعارے اور تراکیب وہ استعمال کیا کرتے تھے اور اُنکا یہ اسلوب آخری وقت تک پوری آب و تاب کے ساتھ برقرار رہا۔ اور صرف اسلوب ہی نہیں بلکہ ایسی ایسی دلیل وہ اپنی زنبیل سے نکال کر لاتے تھے کہ مد مقابل چکرا کر رہ جاتا تھا۔ وہ اپنا مقدمہ ایسی عمدگی کے ساتھ بُنتے تھے کہ قاری عش عش کر اٹھتا تھا بشرطیکہ قاری پڑھا لکھا ہو۔ میں نے اکثر لوگ دیکھے ہیں جو اپنی تحریروں میں تو خوبصورت لگتے ہیں مگر ذاتی زندگی میں ملو تو اُن کی شخصیت کا سارا سحر ختم ہو جاتا ہے، عرفان صدیقی ذاتی زندگی میں بھی ایسے ہی نفیس اور خوش طبع تھے جیسے اُن کی تحریر تھی، گفتگو کرتے وقت اُنکی زبان سے الفاظ یوں ادا ہوتے تھے جیسے اُن کے حکم کے غلام ہوں، کہاں کون سا لفظ ادا کرنا ہے کیسا محاورہ بولنا ہے، یہ اُن پر ختم تھا۔ میری اُن سے کئی ملاقاتیں ہیں، کئی یادیں ہیں جو اُن سے وابستہ ہیں، اِس خاکسار کے کالموں پر اُن کے تبصرے ہیں جو شاید اب بھی فون میں محفوظ ہوں۔ عرفان صدیقی بہت جلدی چلے گئے، ابھی ہمیں اُن کی ضرورت تھی، نہ جانے خدا کو اُن کی کیا ضرورت آن پڑی!

تازہ ترین