• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جماعت اسلامی کے اجتماع عام کے حوالے سے معاملات کو صرف اپنی سیاسی پسند یا نا پسند کی سوچ سے بلند ہو کر اس کے پاکستانی سماج اور سیاست پر اثرات کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہوگا ، صرف مخالفت برائے مخالفت کا رویہ اپنی وقتی تسکین کا تو باعث بن سکتا ہے مگر اس سے حالات کا حقیقی ادراک نا ممکن بن جاتا ہے ۔ جماعت اسلامی کا قیام پاکستان کے بعد پہلا اجتماع عام بھی مئی 1949 ءمیں لاہور میں منعقد ہوا تھا اور اب اسکی بحالی کیلئے بھی لاہور میں ہی اجتماع عام کا انعقاد کیا گیا ، سوال صرف اتنا ہے کیا جماعت اسلامی اپنے سابق ووٹر کو دوبارہ اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ میں جماعت اسلامی کے حوالے سے اس لئے اپنی گزارشات پیش کرتا ہوں کہ یہ واحد مذہبی سیاسی جماعت ہے جو اپنی جڑیں سارے پاکستان میں مضبوطی سے رکھتی تھی اور سیاسی جماعتوں کا پورے ملک میں مؤثر ہونا ، ملک کو ایک لڑی میں پرونےکیلئے بہت کارگر ہوتا ہے اور پھر مذہبی تشخص رکھنے کے باوجود فرقہ وارانہ تشخص سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا مزید اہمیت کا باعث بن جاتا ہے ۔ اجتماع سے قبل لاہور میں خارجہ امور پر بھی جماعت اسلامی نے ایک نشست کا اہتمام کر رکھا تھا۔

دنیا بھر سے ماہرین کا اکٹھ تھا اور اس میں اس نشست کے منتظم آصف لقمان قاضی نے مجھے بھی مدعو کر رکھا تھا ، ان کے والد قاضی حسین احمد سے میری زمانہ طالب علمی میں ہی جان پہچان ہو گئی تھی ، بعد میں سید منور حسن سے بھی شناسائی رہی ، مجھ طالب علم کا اختلافی نظریہ بھی ان دونوں بزرگوں نے خوش دلی سے سماعت کیا ، بڑے لوگ تھے ۔ بہرحال یہ تو برسبیل تذکرہ گفتگو تھی مگر جماعت اسلامی کی اس کاوش پر کچھ غیر ضروری اقدامات بھی محسوس ہوئے ۔

مثال کے طور پر ایسے افراد کو جماعت اسلامی نے اپنا اسٹیج استعمال کرنے دیا جو اب’’بیروز گار‘‘کہلاتے ہیں، ، دوئم یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ صرف’’نظام بدلو ‘‘کے نعرے سے اپنے ووٹر کو متاثر نہیں کیا جا سکتا ، ماضی کے درخشندہ قصے اپنی جگہ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ نظام کی تبدیلی کا قابل عمل اور عوام کیلئے قابل فہم پروگرام پیش کیا جائے ویسے یہ ضرورت صرف جماعت اسلامی تک ہی محدود نہیںبلکہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو اس پر زبانی جمع خرچ سے ہٹ کر حقیقی بنیادوں پر محنت کرکے ایسا پروگرام پیش کرنا چاہئے جو بالخصوص نوجوان نسل کیلئے امید کا باعث ہو ۔یہاں فلسطینیوں کے نمائندے اس بات پر مضطرب نظر آئے کہ پاکستان غزہ کے حوالے سے اپنی پوزیشن کو کس پلڑے میں ڈالے گا ۔ ویسے اس حوالے سے صرف فلسطين میں ہی اضطراب موجود نہیں ، بیجنگ بھی یہ جاننے کیلئے بے قرار ہے کہ پاکستان کا عرب دنیا اور غزہ کے حوالے سےنقطہ نظر کیا ہے ؟

کیونکہ حالیہ سلامتی کونسل کی قرار داد اور اس کے حق میں پاکستان کے ووٹ دینے کے وقت چین اور روس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا اور بعد میں چین نے اس سلامتی کونسل کی جانب سے توثیق پانے والے غزہ امن بورڈ اور آئی ایس ایف پر تنقید کی کیوں کہ اس میں اقوام متحدہ کا کردار نہیں ہے اور آزاد فلسطينی ریاست کے حوالے سے’’ دل کےخوش رکھنےکو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ جتنی بھی امید موجود نہیں ۔ پھر پاکستان نے سلامتی کونسل میں اس کے حق میں ووٹ دینے کے باوجود برملا یہ کہا ہے کہ اس میں پاکستان کی جانب سے تجویز کردہ امور مثال کے طور پر فلسطينی ریاست کے قیام وغیرہ کا کوئی باضابطہ وعدہ نہیں ہے ، بس ایک مبہم عبارت ہے ۔ پھر اہم ترین امر یہ ہے کہ اس کو حماس نے مسترد کردیا ہے اور دنیا چاہے اس پر لاکھ پردے ڈالے مگر حقیقت یہی ہے کہ فلسطين کے آخری انتخاب میں عوام کی غالب اکثریت نے حماس پر اعتماد کا اظہار کیا تھا ۔ اس قرار داد کی رو سے آئی ایس ایف غزہ کو غیر مسلح باالفاظ دیگر حماس سے اسلحہ چھینے گی کیوں کہ حماس خود تو ان کے آگے غیر مسلح نہیں ہوگی ۔ پھر اسرائیل ترک فوج کی آمد کو بھی ’’ ویٹو‘‘ کر چکا ہے اور اس کے بعد غیر عرب ممالک میں پاکستان اور انڈونیشیا ہی رہ جاتے ہیں جن سے فوجی موجودگی کا کہا جائے گا ۔ اس حد تک تو اس قرار داد کی حمایت درست ہے کہ کم از کم وہاں پر قتل عام تو رکےلیکن اگر پاکستان اپنی فوج بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا بہت باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئے کہ چین اس کو پاکستان کی مشرق وسطیٰ پالیسی کے حوالے سے کیسے دیکھے گا ؟ عرب دنیا میں پاکستان کا ایک مقام موجود ہے اور اس اقدام کو عرب عوام کیسے پرکھیں گے ؟ اور جب حماس ہی اس کی مخالفت کر رہی ہے تو آئی ایس ایف میں شمولیت کا مطلب اس سے ٹکراؤ ہوگا جو کسی طور بھی پاکستان کیلئے مناسب اقدام نہیں ہوگا ۔ پاکستان کی فوجی موجودگی صرف اس صورت میں ہونی چاہئے جب فلسطین میں اس پر اتفاق رائے پایا جاتا ہو ورنہ عرب ممالک خود اس کو فوجی طور پر دیکھیں اگر دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اور پاکستان کو چاہے کسی بھی طرف سے جتنا مرضی دباؤ آئے ایسے کسی اقدام سے گریز کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ بلاشبہ پاکستان کی عرب دنیا کی سیاست میں دھوم دھڑکے سے آمد ہوئی ہے ، برسوں بعد اردن کے بادشاہ نے پاکستان کا دورہ کیا ہے مگر اس پوزیشن کو صرف اس صورت میں ہی مزید مستحکم کیا جا سکتا ہے، اگر وہاں کے کسی بھی تنازع میں ہم الجھنے سے مکمل طور پر اجتناب کریں۔

تازہ ترین