• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے آباء’’تحریر‘‘سے کم کام لیتے تھے، ’’کلام‘‘سے زیادہ، یعنی زبانی روایت کے لوگ تھے۔ ان کے چند مخطوطات تو ہیں مگر ان کا اصل ورثہ منبر و محراب میں گونج رہا ہے۔ دین کی تبلیغ ان کی زندگیوں کا مقصد تھا، انہیں گفتگو عوام سے تھی، ان کا پہلا ہدف قلوب تھے، دین کو عشق و مستی کی نظر سے دیکھتے اور دکھاتے تھے، اور وہ سحرانگیز حد تک وجیہہ لوگ تھے۔ انہیں’’کلام‘‘کا راستہ ہی اپنانا چاہئے تھا۔

یہ جو کلام کی روایت کے لوگ تھے ان کا کتاب سے کیا تعلق تھا؟ مدرسہء غزنویہ میں دادا جان (سید محمد داؤد غزنویؒ) کا کتب خانہ ہے جس میں سینکڑوں کُتب ہیں، اکثر کتابیں’’ماخذ‘‘ہیں، سو عربی زبان میں ہیں۔ ہم نے بھی لڑکپن میں اس لائبریری میں بہت وقت گزارا ہے۔ لائبریری ایک بلند عمارت کی پہلی منزل پر واقع تھی اور شدید گرمیوں میں بھی ٹھنڈی رہتی تھی۔ ہمارا اور لائبریری کا رشتہ جون جولائی کی جھلستی دوپہروں تک ہی محدود رہا۔ لیکن اس دوران ہم کتابوں سے’’کھیل‘‘بھی لیا کرتے تھے۔ کبھی کسی چرمی جلد میں لپٹی بیضاوی شریف کا ’’مطالعہ‘‘ کرنے لگے، اور کبھی’’جلالین‘‘ میں جھانک لیا۔ ان تمام کتابوں میں ایک قدر مشترک تھی، ان سب پر دادا جانؒ نے سرخ پنسل سے سینکڑوں سطروں کو خط کشیدہ کر رکھا تھا۔ دادا جان رسالہ’’توحید‘‘ میں مضمون لکھا کرتے تھے، مگر ان مضامین کی تالیف ان کی ترجیح نہیں تھی۔ ان کی تقاریر و خطبات بھی جمع کریں تو کئی کتابوں کا مواد بنتا ہے، مگر اس طرف ان کی توجہ نہیں تھی۔

والد صاحبؒ بھی زبانی روایت کو ترجیح دیتے تھے، لیکن انہیں تحریر کی اہمیت کا نسبتاً زیادہ احساس تھا، انہوں نے شعوری طور پر خود کو لکھنے کی طرف مائل کیا، درجن بھر رسائل لکھے، اپنے والدِ گرامی پر ایک کتاب ’’سیّدی و ابی‘‘ تحریر و تالیف کی، اور اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی کوشش میں تھے مگر زندگی نے بے وفائی کی۔ ابو جی نے انچاس برس عمر پائی۔

میں نے لکھے ہوئے لفظ کی حرمت والد صاحبؒ سے سیکھی۔ میں نے ابو جی کو زمین پر سے کبھی کوئی شے اٹھاتے نہیں دیکھا سوائے اُس کاغذ کے جس پر کچھ لکھا ہوتا تھا، کوئی اخبار کا تراشہ، کوئی ورق۔ لکھے ہوئے کاغذ کا پاؤں سے چُھو جانا تو کجا، اگر پاؤں کا رُخ بھی کتاب کی طرف ہو جاتا تو وہ سرزنش کرتے تھے۔ ابو جی حج سے لوٹے تو ہمراہ فقط کتابوں سے بھرے صندوق تھے، اکثر کتابیں اپنی خواب گاہ میں رکھا کرتے تھے تاکہ نظر کے سامنے رہیں، ہر وقت میسر رہیں، اور محفوظ رہیں۔ اگر ابو جی کو کبھی بے چین دیکھا تو صرف کسی علمی مسئلے پر۔ ایک دفعہ ایک معروف عالمِ دین ہمارے گھر تشریف لائے تو انہوں نے فتاویٰ امام ابنِ تیمیہؒ بہ زبانِ عربی کسی خاص جِلد کا حوالہ دیا اور کہا ’’آپ کی لائبریری میں تو ہو گی۔‘‘ ابو جی پر اس ’’سانحے‘‘کا اثر رہا، اور پھر حجاز سے آنے والے صندوقوں میں فتاویٰ کی 37 جلدیں بھی شامل تھیں۔ پی ٹی وی پر پروگرام’’بصیرت‘‘کر کے سٹوڈیو سے نکلے تو کسی پروڈیوسر نے کہہ دیا کہ آپ نے لفظ ’’تہلکہ‘‘ کا تلفظ درست ادا نہیں کیا۔ ابو جی گھر لوٹتے ہی لغات میں ڈوب گئے۔

ہم نے اس فضا میں آنکھ کھولی۔ علم کی راہ پر تو ہم دو قدم نہ چل سکے مگر کچھ اطوار ہماری رگوں میں اتر گئے، کتاب کی تکریم، حرف کی حرمت، علم کا احترام۔ سکول داخل ہونے سے پہلے میں پڑھنا سیکھ چکا تھا، اپنے سے پانچ سات سال بڑے بچوں کو’’نونہال‘‘سے کہانیاں پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔ ہر مہینے اماں ہمیں دو کتابیں لے کر دیتی تھیں، جوں جوں فیروز سنز قریب آتا، دل کی دھڑکن تیز تر ہوتی چلی جاتی۔ آج بھی یہی عالم ہے۔ کبھی بیگم صاحبہ سے تکرار ہو جائے تو اس دوران بھی ان سے الفاظ کےصحیح تلفظ پر اصرار کرتا ہوں جس سے وہ مزید سیخ پا ہوتی ہیں، اور صحیح ہوتی ہیں، مگر کیا کیا جائے۔ اچھی کتاب سیکسی لگتی ہے، لفظ پراسرار جزیروں کے مانند اپنی اور بلاتے ہیں، اچھا شعر چاقو کی طرح سینے میں پیوست ہو جاتا ہے، گویا حرف و سخن کی شہوت میں عمر گزار دی گئی۔

جو کتاب دوست فضا ہم نے دیکھ رکھی تھی، کچھ ویسی ہی فضا اپنی اگلی نسل کو بھی دینے کی کوشش کی گئی۔ ہر امتحانی کامیابی اور سال گرہ پر بیٹیوں کو کتابیں تحفے میں دی گئیں۔ تعبیر بچپن میں سوتے ہوئے اپنے تکیے کے نیچے کتابیں رکھ لیا کرتی تھی، پوچھا کیوں رکھتی ہو، تو فرمانے لگیں اس سے مجھے سکون ملتا ہے۔ محور آسانی سے 31 دسمبر 2025 تک اپنا 60 کتابیں پڑھنے کا ٹارگٹ حاصل کر لے گی۔ اور باران صاحبہ کے سرھانے سے’’لیٹرز ٹو ملینا‘‘ ہٹ جائے تو انہیں نیند نہیں آتی۔

ہمیں اپنی کتاب چھپوانے کا کبھی’’شوق‘‘ نہیں چرّایا، ورنہ یہ ’’حرکت‘‘30 سال پہلے بھی کی جا سکتی تھی۔ خیر، قصہ مختصر، اب ہمارے منتخب کالموں کا مجموعہ’’دائرے کے مسافر‘‘عکس پبلی کیشنز سے چھپ چھکا ہے۔ حدیثؐ ہے کہ تم جن لوگوں سے مشابہت پیدا کرتے ہو تمھیں ان میں ہی شمار کیا جائے گا۔ سو یہ بہروپ ’’لفظ‘‘کی محبت میں بھرا گیا ہے۔ دعا ہے کہ’’کاش ہم کو بھی گِن لیا جائے... تیرے کوچے کے بے شماروں میں۔‘‘

تازہ ترین