• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد وفاقی حکومت کے ایک وزیر صاحب گاڑی کی چھت پر چڑھ گئے اور انہوں نے بڑھک مار کر جشن منایا۔ ایک وزیر اعلیٰ صاحبہ نے قومی اسمبلی کی چھ اور صوبائی اسمبلی کی سات نشستوں پر ضمنی الیکشن میں کامیابی کو جنرل الیکشن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ضمنی الیکشن دراصل ایک ریفرنڈم تھا جس نے حکومت کی گڈ گورننس پر عوامی اعتماد کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے کچھ عاجزی دکھائی اور اپنی پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کو اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی پالیسیوں پر اعتماد کا مظہر قرار دیدیا ۔ دوسری طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف کنفیوژن کا شکار تھی۔ تحریک انصاف نے ضمنی الیکشن میں گیارہ نشستوں پر بائیکاٹ کیا اور دو نشستوں پر حکومت کے مقابلے کا اعلان کیا اور جب یہ دو نشستیں بھی ہار گئی تو دھاندلی کا شور مچا دیا ۔ آجکل اہل وطن کو ایک ایسی حکومت سے واسطہ پڑا ہے جو ضرورت سے زیادہ اعتماد کا شکار ہے جسے خود فریبی کہنا غلط نہ ہو گا اور اپوزیشن کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ اُس نے پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے نکال کر گڈ گورننس کے راستے پر ڈال دیا ہے ۔ یہ درست ہے کہ اگر شہباز شریف کی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ سات ارب ڈالر کا معاہدہ نہ کرتی تو پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا تھا لیکن آئی ایم ایف نے نومبر 2025ء میں پاکستان کے بارے میں جو گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک رپورٹ جاری کی ہے وہ صرف شہباز شریف حکومت کی گورننس پر عدم اعتماد نہیں بلکہ پورے ریاستی نظام کیخلاف ایک چارج شیٹ ہے۔ اس رپورٹ کی بازگشت میں نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں سنی تھی کیونکہ آئی ایم ایف کا ہیڈ کوارٹر بھی واشنگٹن ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی واشنگٹن کے ایک اُستاد نے میری ملاقات کچھ ایسے ماہرین سے کرائی جنہوں نے آئی ایم ایف کے لیگل ڈپارٹمنٹ سے وابستہ اینٹی کرپشن کے ماہر جوئیل ترکوٹیز کے ساتھ مل کرپاکستان میں گورننس اور کرپشن کے بارے میں رپورٹ تیار کی ۔ یہ ماہرین پاکستان کے نظام انصاف کے بارے میں فکر مند تھے جو قانون کی بالادستی قائم کرنے میں نا کام ہے اور برسر اقتدار طبقے کے ہاتھوں کھلونا بن چکا ہے ۔ ان ماہرین نے پوچھا کہ 26 ویں اور 27 ویں ترمیم سے عدالتی نظام بہتر ہو گا یا نہیں ؟ میں نے ہاں یا ناں میں جواب دینے کی بجائے آئینی ترامیم کی تاریخ بیان کرنا شروع کردی اور بتایا کہ جن ترامیم کا مقصد اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے چند افراد کو مضبوط کرنا ہو وہ ترامیم دیرپا نہیں ہوتیں اور وقت گزرنے کے بعد ریورس ہو جاتی ہیں۔ اس ملاقات کے چند روز بعد آئی ایم ایف نے جو رپورٹ جاری کی وہ پاکستان کے بارے میں واشنگٹن کی اُس رائے کی ترجمانی کرتی ہے جسکا عکس آپکو صدر ٹرمپ کے بیانات میں نظر نہیں آتا۔ پاکستانی ریاست واشنگٹن میں مختلف لابنگ فرموں پر لاکھوں ڈالر خرچ کرکے صدر ٹرمپ کی ذاتی خوشنودی تو حاصل کر سکتی ہے لیکن ٹرمپ جس نظام کا حصہ ہیں اُس نظام میں آئی ایم ایف ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان سے مطمئن نہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنا کوئی اہم کامیابی نہیں ہے۔ اصل کامیابی کا پیمانہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے ایک محفوظ ملک قرار دے ۔ آئی ایم ایف کا اصل مسئلہ دہشت گردی نہیں بلکہ کرپشن ہے ۔ انہیں یہ ضمانت چاہیے کہ وہ پاکستان کو جو اربوں ڈالر دیں گے وہ صحیح جگہ خرچ ہوں گے یا نہیں ؟ دہشت گردی کو وہ کمزور گورننس کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مندرجات میڈیا کی زینت بن چکے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ انگریزی میں ہے اور اس رپورٹ میں جو الفاظ استعمال کئے گئے میں ان الفاظ کا مناسب اردو ترجمہ مجھے پاکستانی ٹی وی چینلز اور اخبارات میں نظر نہیں آیا۔ اگر اہم حکومتی شخصیات نے اس رپورٹ کو غور سے پڑھا ہوتا تو کوئی وزیر ضمنی الیکشن میں کامیابی پر بڑھکیں مارتا اور نہ ہی وزیراعظم صاحب 13 نشستوں پر کامیابی کو اپنی گڈ گورننس کا کرشمہ قرار دیتے ۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گورننس پر کرپشن کے بادلوں کا مستقل سایہ ہے جسکی وجہ سے اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری کے علاوہ عوامی اعتماد بھی متاثر ہو رہا ہے ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نظام حکومت میں صوابدیدی اختیارات کی زیادتی اور شفافیت میں کمی کے باعث ایک ایسا ماحول پیدا ہو چکا ہے جس میں مراعات یافتہ طبقہ اپنے لئے ناجائز فائدے حاصل کرتا ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کے ٹیکس سسٹم کو پیچیدہ اور کسٹمز ایڈمنسٹریشن کو کرپشن میں اضافے کی وجہ قرار دیا گیا ۔ رپورٹ میں عدالتی نظام کو زوال پذیر قرار دیتے ہوئے کہا گیا عمومی تاثر یہ ہے کہ انصاف فراہم کرنیوالے ادارے کرپٹ ہیں اور تجارتی تنازعات کا جلدی فیصلہ نہیں کرتے۔ اینٹی کریشن کے اداروں کا نام لیکر کہا گیا ہے کہ یہ ادارے کرپشن کم کرنے میں ناکام ہیں۔ آئی ایم ایف نے نیب ، ایف آئی اے اور صوبائی اینٹی کرپشن ایجنسیوں کے بارے میں کہا ہے کہ انہیں سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اسلئے یہ غیر موثر ہو چکے ہیں ۔ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی سفارشات کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جسکی وجہ سے چیک اینڈ بیلنس کا نظام انتہائی کمزور ہے ۔ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ قانون کی بالادستی کے بغیر گڈ گورننس قائم نہیں ہو سکتی اور جب تک عدلیہ کو آزاد نہیں کیا جاتا اور اس ادارے میں تقرریوں کا نظام شفاف نہیں بنایا جاتا قانون کی بالادستی قائم کرنا مشکل ہے ۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن زیادہ زور عدالتی نظام کی کمزوریاں دور کرنے پر دیا گیا ہے۔ اب ذرا سو چئے کہ آئین میں 26 ویں اور 27 ویں ترمیم سے عدلیہ مضبوط ہوئی ہے یا کمزور ؟ یورپی یونین کا جی ایس پی پلس مانیٹرنگ مشن بھی جمعہ کو پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے اہم ملاقاتیں کریگا ۔ جب اس کمیشن کو پتہ چلے گا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کیلئے سرگرم ایک وکیل ایمان مزاری اور اُن کے شوہر ہادی چٹھہ کو عدالتی سسٹم کے ذریعہ انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو وہ اس عدالتی سسٹم کے بارے میں کیا رائے قائم کرینگے ؟ یاد رکھیں کہ رُول آف لاء کے گلوبل انڈیکس میں پچھلے سال پاکستان 129ویں نمبر پر تھا اور سال پاکستان 130ویں نمبر پر آگیا ہے۔ 143 ممالک میں پاکستان کا 130واں نمبر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں کے علاوہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے ۔ دی اکانومسٹ لندن ہر سال ایک گلوبل ڈیمو کریسی انڈیکس جاری کرتا ہے ۔ اس انڈیکس میں پاکستان مسلسل نیچے گر رہا ہے اور 2025 ء میں 165 ممالک میں 124 ویں نمبر پر آچکا ہے۔ اس انڈیکس میں پاکستان کے نظام حکومت کو نیم جمہوری نہیں بلکہ آمرانہ قرار دیدیا گیا ہے۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پچھلے سال پاکستان 152 ویں نمبر پہ تھا 2025ء میں پاکستان 158 ویں نمبر پر آچکا ہے ۔ جس ملک میں عدالتیں آزاد نہ ہوں وہاں میڈیا کیسے آزاد ہو گا ؟ اب آپ جتنے مرضی ضمنی الیکشن جیت جائیں اور جتنی مرضی آئینی ترامیم منظور کراتے جائیں لیکن جس عالمی مالیاتی ادارے سے سات ارب ڈالر لیکر آپ نے پاکستان کو ڈیفالٹ بچایا وہ آپکی گورننس، عدالتی نظام اور پبلک فنڈز کی مینجمنٹ پر کرپشن کے سیاہ بادلوں کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ(ن)کی فتح کو ہم تحریک انصاف کی ناکامی تو کہہ سکتے ہیں لیکن آئی ایم ایف کی رپورٹ دراصل ایک بڑھک باز حکومت کو خود فریبی سے باہر نکالنے کیلئے ایک ہلکی سی چپت ہے ۔ خود کو نہ سدھارا تو یہ چپت آنے والے وقت میں طمانچہ بھی بن سکتی ہے۔

تازہ ترین