وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے نئے صوبوں کے قیام سے متعلق تمام بحثوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے صوبوں کی بات ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال دیں، اللّٰہ کے سوا کسی میں سندھ کو تقسیم کرنے کی طاقت نہیں۔
انہوں نے یہ بات پورٹ گرانڈ میں منعقدہ سندھ کرافٹ فیسٹیول میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، جہاں انہوں نے صوبائی حکومت کی جانب سے سندھ کی روایتی دستکاری اور فنون کے فروغ کے عزم پر زور دیا۔
وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ ہماری توجہ اس بات پر ہے کہ سندھ کے ثقافتی کام اور دستکاری کو وہ پہچان اور حوصلہ افزائی ملے جس کی وہ مستحق ہے۔
نئے صوبوں کے قیام سے متعلق بار بار اٹھنے والی بحث پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ نے ان باتوں کو مکمل طور پر رد کر دیا اور کہا کہ نئے صوبوں کی بات ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال دیں، اللّٰہ کے سوا کسی میں سندھ کو تقسیم کرنے کی طاقت نہیں۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پہلے ہی اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی اور این ایف سی ایوارڈ کے حصے میں کمی کی تجاویز کو رد کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملات مجوزہ ستائیسویں ترمیم میں بھی مسترد کر دیئے گئے تھے، پاکستان پیپلز پارٹی خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا ہنر رکھتی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے پارٹی کے ترقیاتی وژن اور طرزِ حکمرانی کو اجاگر کیا اور سندھ میں گورنر کی تبدیلی سے متعلق سوال پر واضح کیا کہ نہ ان کا اور نہ ہی صوبائی حکومت کا اس معاملے میں کوئی کردار ہے، گورنروں کی تقرری میں ہم سے مشورہ نہیں کیا جاتا۔
اپنے ذاتی پسِ منظر کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں وکیل کا بیٹا ہوں اور بہت اچھے وکلاء کی صحبت میں کافی وقت گزارا ہے، اگر کسی نے دلائل دینے ہیں تو اس کے لیے عدالتیں موجود ہیں۔
مراد علی شاہ نے ان عناصر پر تنقید کی جو قانونی راستہ اختیار کیے بغیر بیانات دیتے ہیں اور کہا کہ کچھ لوگ عدالت میں گئے بغیر ہی وکیلوں کی طرح رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔
امن و امان کی صورتِحال کا حوالہ دیتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ سندھ نے چند گروہوں کی جانب سے عوامی زندگی متاثر کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 50 سے 150 افراد پورے شہر کو یرغمال بنا لیتے ہیں، جب بار بار سڑکیں بند ہوں گی تو حکومت کو کارروائی کرنا ہی پڑے گی۔
وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلے کچھ معاملات کے لیے عمر کی حد مقرر کی تھی اور عدالت کی ہدایت کے بعد حکومت نے 5 سال کی رعایت دی تھی، ہم سے عدالت نے پوچھا اور ہم نے 5 سال کی عمر میں رعایت دے دی۔