سپریم کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے قرار دیا ہے کہ ایک لڑکے اور لڑکی کا نکاح کے بغیر ایک ساتھ، ایک ہی گھر کے اندر رہنے ’لیونگ ریلشن شپ‘(living relationship) کا تصور پاکستانی معاشرہ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے ایک پوش علاقہ میں رہائش پزیر مجرم ظاہر جعفر کے ہاتھوں اس کی دوست نور مقدم کے اغواء، ریپ اور قتل کے مقدمہ میں جسٹس باقر نجفی نے مجرم کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد ہونے سے متعلق 7 صفحات پر مشتمل ایک نوٹ تحریر کیا۔
نوٹ میں کہا گیا کہ لیونگ ریلشن شپ جونہ صرف سماجی بگاڑ کا سبب بنتا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے، نور مقدم قتل کیس اس کی ایک بھیانک مثال ہے، جو نوجوان نسل کے لیے انتہائی سبق آموز بھی ہے۔
جسٹس باقر نجفی کے نوٹ پر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی ہے۔
پیپلز پارٹی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جسٹس باقر نجفی کے ریمارکس پر لکھا کہ ’کسی عورت کے قتل کو لِو ان ریلیشن شپ کے نتیجے کے طور پر پیش کرنا نہ قانون ہے اور نہ ہی انصاف ہے، یہ واضح طور پر متاثرہ (خاتون) پر الزام تراشی ہے‘۔
پی پی رہنما نے مزید لکھا کہ ’جب کوئی جج قتل کے مقدمے میں اپنی شخصی اخلاقی رائے فیصلے کا حصہ بناتا ہے تو اس سے عدالتی نظیر کو کمزور اور آئینی تحفظات کو مجروح کرتا ہے‘۔
شرمیلا فاروقی نے یہ بھی لکھا کہ یہ ہر زندہ بچنے والی خاتون کو پیغام ہے کہ اس کا اپنا کردار کسوٹی پر پرکھا جائے گا، نہ کہ مجرم کا اقدام، یہ انصاف نہیں۔
پی ٹی آئی کی سابقہ رکن قومی اسمبلی بیرسٹر ملیکہ بخاری نے فیصلے کے اضافی نوٹ پر ردعمل دیا کہ جسٹس باقر نجفی کے نور مقدم کیس سے متعلق مشاہدات پڑھ کر شدید صدمے میں ہوں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ جج حضرات خاص طور پر اعلیٰ عدالتوں میں بیٹھے ججز کو اخلاقی تبصرے سے مکمل گریز کرنا چاہیے، ایسی زبان ہر گز استعمال نہیں کرنی چاہیے، جو متاثرہ (خاتون) کو تنہا کرے یا اس پر بالواسطہ الزام ڈال دے۔
سیاسی کارکن اور تبصرہ نگار ریحام خان نے اس معاملے میں سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور لکھا کہ جسٹس باقر نجفی 7 صفحات کا اضافی لوٹ لکھتے وقت شاید بھول گئے کہ ’ قانونی شوہر ‘ بھی بیویوں کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرتے ہیں، نور مقدم معاملہ قتل اور خواتین پر تشدد سے متعلق ہے، اس معاملے کو اسی پر رہنا چاہیے۔
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی صاحبزادی سارا تاثیر نے اس معاملے میں جسٹس باقر نجفی کی انگریزی پر لکھا کہ ’سب سے پہلے تو، یہ لِو ان ریلیشن شپ ہے، لیونگ ریلیشن شپ نہیں ہے‘۔
لیجنڈری اداکار خالد انعم نے ایک ویڈیو پیغام میں جسٹس باقر نجفی کے اضافی نوٹ پر تبصرہ کیا اور اسے انتہائی افسوس ناک قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اب تک میں نے جتنی بھی بے وقوفانہ باتیں سنی ہیں، یہ اُن سے بھی بڑھ کر ہے، تصور کریں کہ ایک جسٹس کہہ رہا ہے، لِو ان ریلیشن شپ کی وجہ سے نور مقدم کے ساتھ سب کچھ ہوا۔
اداکار نے طنزیہ انداز میں استفسار کیا کہ شادی شدہ جوڑے میں لڑائی ہوتی ہے نہ ہی عورت پر تشدد ہوتا ہے اور نہ ہی خاتون قتل ہوتی ہے؟
اداکار نے مزید کہا کہ اللّٰہ ہی حافظ ہے، اس ملک کا، اس ملک کے قانون کا، اس ملک کے ججز کا، جسٹس صاحب کو تاریخ میں جا کر اس نوعیت کے مقدمات نکالنے چاہئیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ جو آپ نے کہا ہے وہ غلط ہے، آپ کو اپنے الفاظ کا درست کرنے چاہئیں۔
ماہر نفسیات ماہین غنی نے جسٹس باقر نجفی کے نوٹ پر تبصرہ کیا کہ ’میں جج سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اُن بے شمار عورتوں کا کیا جو ہر روز اپنے ’’قانونی شوہروں‘‘ سے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ بتایا جائے کہ جج کا کام قانون کی پاسداری ہے یا کسی خاتون کے بہیمانہ قتل کے اخلاقی خطبہ دینا ہے؟ یہی وجہ ہے عورتیں تشدد رپورٹ نہیں کراتی ، انہیں پتا ہے کہ نظام انہیں تحفظ نہیں دیتا بلکہ مورد الزام ٹھہرادیتا ہے۔
نور مقدم کے قتل کا واقعہ 20 جولائی 2021 کو پیش آیا جب مقتولہ کی لاش اسلام آباد کے سیکٹر ایف میں واقع ایک گھر سے برآمد ہوئی۔
اسلام آباد پولیس نے اُسی دن قتل کا مقدمہ درج کرکے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو جائے وقوعہ سے گرفتار کرلیا تھا ، اس واقعے نے ملک میں شدید غم وغصہ پیدا کیا۔
اس معاملے میں طویل قانونی جنگ کے بعد فروری فروری 2022ء میں ٹرائل کورٹ نے ظاہر جعفر کو قتل کے جرم میں سزائے موت اور ریپ کے الزام میں 25 سال قیدبا مشقت کی سزا سنائی۔