• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

کچھ لوگ محبت و اخلاق، خلوص و یگانگت کے خوگر ہوتے ہیں۔ اپنے وجود سے دنیا میں خوشبو پھیلانے والے یہ لوگ، اللہ کی طرف سے کسی سایہ دار درخت، تحفے کی مثل ہوتے ہیں اور ایسے ہی خُوب صُورت لوگوں میں میری مرحومہ ساس حمیدہ خاتون کا بھی شمار ہوتا تھا، جو اپنے نام کی طرح مزاج اور عادات و اطوار کی بھی’’حمیدہ‘‘ تھیں۔

سادگی و شرافت، وقارو تمکنت کی حامل میری پیاری ساس کی زندگی سراسر خیراور ایثار سے عبارت تھی۔ اُن کے دل میں ہر ایک کے لیے خیرخواہی، دُعاؤں میں ہمہ وقت دوسروں کے لیے بھلائی ہی ہوتی۔ میں نے اُن کے سائے میں ہمیشہ محبّت و احترام ہی دیکھا۔ اُن کے کردار کی ایک عظمت یہ بھی تھی کہ کسی کے تلخ رویّےیا ناگوار باتوں کاکبھی جواب نہ دیتیں۔ 

ایک موقعے پر چند خواتین غصّے میں اُن سے الجھنے لگیں، بہت کچھ کہا، آواز بلند کی، مگر ساس صاحبہ خاموشی سے سنتی رہیں۔ جب وہ تھک کر چلی گئیں، تو مَیں نے حیرانی سے پوچھا۔ ’’امّی! یہ خواتین اتنی بکواس کرگئیں، لیکن آپ خاموش بیٹھی رہیں، آپ نے کوئی جواب کیوں نہیں دیا؟‘‘ اس پر نہایت رسان سے بولیں۔’’بیٹی! مَیں بھی اگر اُن کی طرح چیخنے چلّانے لگوں، تو اُن میں اور مجھ میں کیا فرق رہ جائے، گا؟ کسی کی غلط بات پر اُسے اُسی طرح جواب دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘‘اوریہ کہہ کر اُٹھیں اور نماز کی نیّت باندھ لی۔

یہی اُن کی اصل عظمت تھی، دنیا کی باتوں سے بلند، اللہ کے ذکر میں محو۔ اُن کا صبر، خاموشی اور عبادت، سب غیرمعمولی تھے۔ اُن کا دل ہر وقت ذکرِ الٰہی سے معمور رہتا، نماز، تسبیح اور قرآن سے گہرا تعلق تھا۔ زندگی نے انہیں کئی آزمائشوں سے گزارا۔ اُن کی سب سے بڑی آزمائش جوان بیٹے کی موت تھی۔ یہ ایک ایسا زخم تھا، جس نے پورے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا، لیکن جس صبر، حوصلے سے انہوں نے یہ صدمہ سہا، وہ اُن ہی کا خاصّہ تھا۔ 

اُن کی زبان سے کوئی شکوہ نہیں نکلا، کبھی کہا تو صرف یہی کہا۔’’اللہ کی امانت تھی، اُس نے واپس لے لی۔ اُس کے فیصلے، اُس کی رضا پر دل سے راضی ہوں۔‘‘اُن کے کردار کی ایک اور خُوب صُورتی، جو مجھے آج تک حیرت میں ڈالتی ہے، یہ تھی کہ انہوں نے میرے والدین، میرے بہن بھائیوں کو ہمیشہ دل سے عزت دی۔ 

میرے ہر عزیز، رشتے دار کو کُھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ وہ صرف ایک اچھی ساس ہی نہیں، بلکہ ہر رشتے کو عزت، وقار اور محبت کے ساتھ نبھانے والی عظیم خاتون تھیں۔ اُن ہی کی تربیت کا اثرہےکہ اُن کے بیٹے، یعنی میرے شوہر سمیت اُن کی تمام بیٹیاں نہایت حلیم، شائستہ، اور عزت کرنے والی ہیں۔

مَیں اپنی ساس صاحبہ کی کون کون سی خوبی گنواؤں۔ ہر خوبی ایک روشن ستارہ، ایک مہکتا پھول تھی۔ ہر طرف خوشبو پھیلانے والی۔ مَیں اگرچہ لاابالی، جلدباز فطرت کی ہوں، مگر پھر بھی میری اُن سے بہت دوستی تھی۔اب اگرچہ وہ اس دنیا میں نہیں رہیں، مگر اُن کی یادوں کی خوشبو، نرم مسکراہٹ، چمکتا، روشن چہرہ آج بھی اکثر سامنے آجاتا ہے۔

افسوس کہ مَیں اُن جیسی نہ بن سکی، نہ ان کی عظمتیں اپنا سکی اور نہ ہی ان جیسا ظرف پا سکی۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ آج بھی وہ میرے دل کے قریب اور مغفرت کی دعاؤں میں شامل ہیں۔ اُن کی نیکیاں، اُن کی دعائیں، آج بھی نسل دَر نسل ہمارے ساتھ ہیں۔

اللہ تعالیٰ میری پیاری ساس کی مغفرت فرمائے، اُن کے درجات بلند کرے اور ہمیں اُن کی نیک صفات کو اپنی زندگیوں میں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ ( امِّ عماد)

سنڈے میگزین سے مزید