• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیرینہ رفیقِ کار اور ہردل عزیز شخصیت، سیّد رشید الدین احمد

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

کچھ لوگ، اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار اور علمی کام کی وجہ سے تاریخ کے اوراق میں زندہ رہتے ہیں، لوگ اُن کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعدبھی اُن کی گراں قدر علمی و قلمی خدمات، طور طریقوں کی تقلید میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اُن کےنا مکمل کاموں کی تکمیل کرتے ہیں اور خود بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نئی راہیں استوار کرتے ہیں۔ 

یوں نیک اعمال، قابلِ قدر خدمات کا دائرہ وسیع تر، معاشرے میں نیکی و بھلائی کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ سیّد رشید الدین کا بھی شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ وہ میرے دیرینہ رفیقِ کار تھے اور پاکستان کے معروف طبّی ادارے کے شعبۂ تصنیف و تالیف سے وابستہ تھے۔

لکھنا پڑھنا ہی اُن کی زندگی تھی، ایک پختہ کار مترجم اور دانش وَرہونے کے ساتھ اُنھیں عربی، فارسی، ہندی، انگریزی اور اردو زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ نہ صرف میرے اچھے رفیقِ کار، بلکہ انتہائی منکسر المزاج ، نہایت اعلیٰ اخلاقی اقدار و اوصاف کے حامل ایک بہترین انسان تھے۔ 2اکتوبر 1932ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ نظام کالج، حیدر آباد دکن کے گریجویٹ، قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی یونی ورسٹی سے بی ایڈ اور ایم۔ اے (جرنلزم) کیا۔ حصولِ تعلیم کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ 

کچھ عرصہ باغِ ہالار سیکنڈری اسکول میں سیکنڈ ہیڈ ماسٹر اور ہیپی ہوم اسکول، کراچی میں بطور ہیڈ ماسٹر فرائض انجام دئیے، پھر درس و تدریس کا شعبہ چھوڑ کر صحافت سے منسلک ہوگئے۔ اس دوران مختلف اخبارات میں صحافتی خدمات انجام دینے کے ساتھ ’’ہم دردِ صحت‘‘ اور ’’ہم درد نونہال‘‘ کے لیے مضامین تحریر کرنے کے علاوہ تراجم کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔

وہ جدید اور قدیم طِب پر عبور رکھنے کے سبب انگریزی رسائل و جرائد میں شائع شدہ مضامین، مارکنگ کے بعد مسعو د احمد برکاتی کو بھجواتے اور اُن کی منظوری کے بعد مَیں وہ مضامین کہنہ مشق مترجمین، حکیم عطاء الرحمٰن عمر، علی اسد، رفیع احمد فدائی، حسن ذکی کاظمی اور میجر علی ناصر زیدی کو اردو ترجمے کے لیے بھجوادیا کرتا۔ سیّد رشید الدین، مختلف مضامین کے تراجم کے علاوہ صحت کے موضوعات پر سیر حاصل مضامین بھی قلم بند کرتے تھے۔ 

مَیں مذکورہ ادارے کے شعبۂ ادارت میں 14جولائی 1970ءکو، جب کہ رشید الدین یکم فروری 1977ء کو بطور ’’معاون برائے ایگزیکٹیو ایڈیٹر‘‘ شعبۂ تصنیف و تالیف و تحقیق شامل ہوئے۔ وہ ترقی پاکر شعبے کے سربراہ مقرر ہوگئے، بعدازاں انھیں ڈپٹی ڈائریکٹر پبلی کیشنز کے عہدے پر فائز کردیا گیا، جہاں دسمبر 2009ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔

اُنھیں حیدرآباد دکن کے تاریخی واقعات زبانی یاد تھے، جو اکثر اپنے ساتھیوں کو سنایا کرتے۔ طب کے علاوہ تاریخ اور سماجی مسائل پر بھی ان کی معلومات قابلِ قدر تھیں۔ اُن کی قابلیت، نرم گفتاری اور طویل خدمات کے سبب آج بھی ادارے سے منسلک لوگ انھیں یاد کرتے ہیں۔ مَیں اُنھیں دنیا بھر سے بچّوں کے موصول ہونے والے انسائیکلو پیڈیا کے سوالات دکھایا کرتا تھا کہ وہ نوک پلک درست کر دیں۔ کچھ بچّے نا سمجھی کے باعث سائنسی سوال کے بجائے اپنی بیماریوں یا طبّی قسم کے سوالات کے جواب بھی دریافت کرتے۔ 

مَیں نے دو ، تین ماہ کے موصولہ بیماریوں یا طبی قسم کے خطوط کے حوالے سے مشورہ کیا، تو انہوں نے بہترین حل پیش کرتے ہوئے اس سلسلے کا عنوان ’’طب کی روشنی میں‘‘ تجویز کیا۔ مَیں نے مذکورہ سوالات فائل میں ترتیب سے رکھ کر حکیم محمد سعید کی خدمت میں پیش کیے۔ تو وہ زیرِ لب مُسکراتے ہوئے بولے۔

’’اتنی ذہانت کہاں سے آگئی۔‘‘ مَیں نے فوراً عرض کیا۔’’جناب! رشید صاحب نے مشورہ دیا ہے اورانھوں نے ہی ایڈیٹنگ بھی کی ہے۔‘‘ حکیم صاحب نے فوراً اُنھیں اپنے چیمبر میں بلوایا، شکریہ ادا کیا اور پارکر قلم کا تحفہ پیش کیا۔ بعدازاں، کئی برس تک بچّوں کے طبّی مسئلے مسائل پر چَھپنے والے ان سوالات و جوابات کو کتابی شکل دی گئی ،جوبے حد مقبول ہوئی۔

سیّد رشید الدین صاحب لگ بھگ 35برس تک شعبۂ تصنیف و تالیف سے وابستہ رہے اور 2ستمبر 2013ء کو داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انھوں نے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی، جب کہ اُن کی شریکِ حیات نسیمہ رشید بھی بی ایس سی اور پولیٹکل سائنس میں ایم اے کرنے کے بعد کافی عرصہ درس و تدریس سے منسلک رہیں۔اللہ تعالیٰ سیّد رشید الدین کی کامل مغفرت فرما کر اُنھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ (کھتری عصمت علی پٹیل، کراچی)

سنڈے میگزین سے مزید