• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرنسی یا پیسا دُنیا کی معیشت کا بنیادی ستون ہے۔ انسانی تاریخ میں تبادلۂ اشیاء یا بارٹر سسٹم کے ذریعے شروع ہو کر سکّوں، کاغذی کرنسی اور الیکٹرانک سسٹم تک پہنچنے والا یہ سفر آج بے حد ترقّی یافتہ شکل اختیار کر چُکا ہے۔ پیسا نہ صرف اشیاء اور خدمات کے تبادلے کا ذریعہ ہے، بلکہ انسانی زندگی میں سہولت، تحفّظ اور وقار کی علامت بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر بتدریج گھٹتی جا رہی ہے، جسے معیشت کی اصطلاح میں منہگائی یا افراطِ زر کہا جاتا ہے۔ کرنسی کی قدر میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ وہ رقم، جس سے ماضی میں زیادہ اشیاء یا سہولتیں حاصل کی جا سکتی تھیں، آج اُس سے پہلے سے کم چیزیں خریدی جاتی ہیں۔

روپے کی وقعت میں کمی کا سب سے اہم سبب افراطِ زر ہے۔ یاد رہے، جب کرنسی بہت زیادہ تعداد میں چھاپی جاتی ہے، لیکن اشیاء و خدمات کی پیداوار اُتنی تیزی سے نہیں بڑھتی، تو اُن کی قیمتیں اوپر چلی جاتی ہیں۔ دوسرا بڑا سبب، عالمی سطح پر تیل، گیس اور خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہے، جس سے مقامی کرنسی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مُلکی قرضوں کا بڑھنا اور درآمدات پر حد سے زیادہ انحصار بھی روپے کی قدر گراتا ہے۔ 

تاہم، وطنِ عزیز میں روپے کی قدرمیں گراوٹ کے بعض دیگر اسباب بھی ہیں، جس میں سب سے بڑا کردار تاجر مافیا کا ہے، جو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسا کمانے کی خاطر اشیاء کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کردیتی ہے اور بدقسمتی سے اس رُجحان میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب تاجر ناجائز منافع خوری کے لیے مخصوص سیزن کا انتظار کرتے تھے، جیسا کہ عیدین کے ایّام، رمضان کا مہینا یا شادیوں کا موسم وغیرہ، لیکن ہوسِ زر نے اب اس رُجحان کو پورے سال پر محیط کردیا ہے۔ 

یعنی چاہے کوئی بھی دن یا موسم ہو، تاجر حضرات ہر کچھ عرصے بعد اشیاء کے نرخ میں من مانا اضافہ کردیتے ہیں۔ آج کچن آئٹمز سے لے کرموبائل فون تیار کرنے والی کمپنیز تک دھڑا دھڑ پیسا کمانے میں مصروف ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ یہ کمپنیز اور تاجر عوام کو اَن پڑھ اور سادہ لوح سمجھتے ہوئے اپنے بُودے دلائل کے ذریعے اپنی ان قبیح حرکات کا جواز پیش کرتے ہیں، کیوں کہ پاکستان میں احتساب کا کوئی باقاعدہ نظام وجود ہی نہیں رکھتا اور اِسی لیے گھنائونے کردار کے حامل ان عناصر کو کُھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ 

علاوہ ازیں، حکومت خُود بھی مختلف عوامل کو وجہ قرار دیتے ہوئے روپے کی قدر میں کمی کے ذریعے اس طبقے کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے اور اس طرح تاجر مافیا کو بھی امریکی ڈالر اور پیٹرولیم مصنوعات منہگا ہونے کا بہانہ مل جاتا ہے، لیکن اگر کبھی بُھولے بھٹکے سے ڈالر نیچے آجائے یا پیٹرول سستا ہوجائے، تو یہ اشیاء کی قیمتوں میں پھر بھی کمی نہیں کرتے۔

قیامِ پاکستان کے موقعے پر پاکستانی کرنسی برطانوی پاؤنڈ اسٹرلنگ سے منسلک تھی۔ بعد ازاں، 1950ء کی دہائی میں جب بریٹن وُڈز عالمی مالیاتی نظام کے تحت زیادہ تر ممالک کی کرنسیز یوایس ڈالر کے ساتھ جُڑ گئیں، جو اُس وقت سونے سے پرکھا جاتا تھا، تو پاکستان نے بھی 1960ء کی دہائی میں اپنی کرنسی باضابطہ طور پر امریکی ڈالر سے منسلک کر لی۔ 

یہ فیصلہ صدر ایّوب خان کے دَور میں کیا گیا تھا اور اُس وقت کے مالیاتی مشیروں اور ماہرینِ معیشت خاص طور پر وزیرِ خزانہ، محمّد شعیب نے یہ تجویز دی تھی کہ پاکستان اپنی کرنسی کو امریکی ڈالر کے ساتھ منسلک کرے، تاکہ تجارت میں سہولت ہو، کیوں کہ اس وقت عالمی تجارت ڈالر میں ہو رہی ہے، نیز زرِمبادلہ کے ذخائر میں استحکام آئے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسےعالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں۔ تاہم، پھر سب نے دیکھا کہ معیشت کے ان بزرجمہروں کے اس فیصلے کی مملکتِ خداداد اور اس کےعوام نے کیا قیمت چُکائی، چُکا رہے ہیں اور نہ جانے کب تک چُکاتے رہیں گے۔

پاکستانی روپےکو امریکی ڈالر سے منسلک کرنے کا ابتدائی فائدہ تو یہ ہوا کہ کچھ عرصے کے لیے معیشت مستحکم ہوگئی اور عالمی تجارت میں آسانی پیدا ہوئی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کے منفی اثرات نمایاں ہونے لگے۔ اس فیصلے کا سب سے پہلا منفی اثر تو یہ ہوا کہ پاکستانی معیشت براہِ راست امریکی ڈالرپر منحصر ہوگئی اور جیسے ہی ڈالر کی قدر میں اُتار چڑھاؤ آیا، پاکستانی روپے کی حیثیت متاثر ہوئی۔ 

اس کے نتیجے میں درآمدی اشیا منہگی ہو گئیں اور عوام پر گرانی کا دباؤ بڑھ گیا۔ دوسرا نقصان یہ ہواکہ پاکستان کی معاشی خُود مختاری محدود ہوگئی اور اس پر امریکا کی عالمی مالیاتی پالیسی اور آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کے فیصلے اثر انداز ہونے لگے۔

اسی کے ساتھ ہی تجارتی عدم توازن پیدا ہوا، برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکا اور درآمدات پر انحصار بڑھ گیا۔ یعنی اس فیصلے نے پاکستانی معیشت کو مقامی وسائل اور صنعتوں کے فروغ کی بہ جائے امریکی ڈالر پر انحصار کی طرف دھکیل دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مُلکی کرنسی کم زورہوتی گئی اورآج بھی ہماری معیشت امریکی ڈالر کے اُتار چڑھاؤ کی زد میں ہے۔

واضح رہے، افراطِ زر اورروپے کی وقعت میں کمی کے اس کھیل کا براہِ راست اثر صرف عام آدمی کی زندگی پر پڑتا ہے۔ ایک مزدور یا تن خواہ دار شخص کی آمدنی برسوں تک ایک ہی جیسی رہتی ہے، لیکن اس دوران ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں کئی گُنا بڑھ جاتی ہیں، جس کےنتیجے میں غُربت، بے روزگاری، معاشرتی بےچینی اور کرپشن جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔

عوام کی قوّتِ خرید کم ہونے سے نہ صرف معیارِزندگی متاثر ہوتا ہے بلکہ بچت اور سرمایہ کاری کے رجحانات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ زمین، سونے یا غیرمُلکی کرنسی میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں، تاکہ اپنے اثاثوں کو محفوظ رکھ سکیں۔

لہٰذا، حکومت کی یہ ذمّےداری ہے کہ وہ روپے کی قدر مستحکم رکھنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے اور اس مقصد کے لیے معیشت میں توازن قائم کرنا، مقامی پیداوار کو بڑھانا، غیرضروری درآمدات کم کرنا اور ٹیکس کے نظام کو شفّاف بناناضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی مالیاتی اداروں کو چاہیے کہ وہ کرنسی کی چھپائی میں احتیاط کریں اور شرحِ سود کو، جب تک یہ نظام ختم نہیں ہوجاتا، حالات کے مطابق متوازن رکھیں۔

اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے، تو روپے کی مسلسل گرتی قدر معاشرے میں مزید غُربت اور سماجی ناہم واری کو جنم دے گی۔ درحقیقت، پیسا اپنی اصل حیثیت میں محض ایک ذریعۂ تبادلہ ہے، لیکن جب اس کی قدر گرنے لگتی ہے، تو پورا معاشرتی اور معاشی ڈھانچا متزلزل ہوجاتا ہے، جب کہ روپےکی قدربچانا، دراصل عوام کے اعتماد، خوش حالی اور معاشی استحکام کو محفوظ بنانا ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید