• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہاڑ: ماحولیاتی توازن، حیاتیاتی تنوّع کا اہم ذریعہ

پہاڑ، جہاں ماحولیاتی توازن قائم رکھتے ہیں، وہیں انسان کو غور و فکر کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ کلام اللہ کی تعلیمات کی رُو سے پہاڑ زمین کو مستحکم رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں، یہ موسمیاتی نظام کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نیز، پہاڑی علاقوں میں واقع جنگلات اور چٹانیں مختلف جان داروں کا مسکن ہیں اور یہ زمینی کٹاؤ کے خلاف مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ 

مزید برآں، پہاڑ تازہ پانی کے سب سے بڑے ذخائر ہیں، کیوں کہ میٹھے پانی کا ایک بڑا حصّہ گلیشیئرزاورآئس شیٹس کی صُورت منجمد ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق گلیشیئرز اور برف نے زمین کے تازہ پانی کا تقریباً 70 فی صد حصّہ محفوظ کر رکھا ہے۔ دوسری جانب پہاڑ کُرّۂ ارض پر حیاتیاتی تنوّع برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں رُونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں نے گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز کردیا ہے، جس کے نتیجے میں طویل المدّت پانی کی دست یابی میں کمی اور سیلاب کےخطرات بھی لاحق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرسال11دسمبر کو پہاڑوں کا عالمی دن اس مقصد کے تحت منایا جاتا ہے کہ دُنیا بَھر میں پہاڑوں کی اہمیت، اُن کے ماحولیاتی کردار اور انسانی زندگی پر اُن کے بےپناہ اثرات سے متعلق شعور بےدار کیا جا سکے۔

یہ دِن ہر سال ایک نئے تِھیم یا عنوان کے تحت منایا جاتا ہے اور رواں برس اِس عالمی یوم کا موضوع ہے۔ ’’گلیشیئرز، پہاڑی اور زیریں علاقوں میں پانی، خوراک اور روزگار کے ضمن میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ مذکورہ بالا تِھیم کامقصد اس حقیقت کی طرف توجّہ مبذول کروانا ہےکہ برف کے ذخائرنہ صرف پہاڑی خطّوں میں زندگی کی بقا کا لازمی جُزوہیں، بلکہ دُنیا کےبڑے دریاؤں، زراعت، خوراک کے نظام اور انسان کی معاشی سرگرمیوں کی بھی بنیاد ہیں۔

پہاڑ، کُرّۂ ارض کے تقریباً ایک چوتھائی رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور دُنیا کی 12فی صد سے زائد آبادی اِن کے دامن میں آباد ہے۔ دُنیا کی غذائی ضروریات پوری کرنے والے 20 بنیادی پودوں میں سے 6 انہی پہاڑی خطّوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا، پہاڑ حیاتیاتی تنوّع، قدرتی وسائل اور انسانیت کی بقا کا وہ سرمایہ ہیں، جن کا تحفّظ آنے والی نسلوں کےمحفوظ مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔ پہاڑی سلسلوں کی تباہی کی بڑی وجہ ان میں پوشیدہ قیمتی معدنی ذخائر ہیں۔

پہاڑوں سے نکالی جانےوالی عام اوراہم معدنیات میں لوہا، تانبا، سونا، چاندی، سیسہ، المونیم، لیتھیم اورپوٹاش وغیرہ شامل ہیں۔جدید ٹیکنالوجی نے معدنیات کی تلاش اور حصول کو پہلے سے کہیں زیادہ تیز اور منافع بخش بنا دیا ہے، مگر اِسی رفتار سے کان کنی کے نقصانات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

بڑے پیمانے پر ڈرلنگ کے ساتھ کُھدائی نے نہ صرف پہاڑوں کی ہیئت ہی بدل دی ہے، بلکہ اِس کے اثرات پوری دھرتی پر مختلف عوامل کی صُورت نظر آ رہے ہیں، جن میں زمینی کٹاؤ اور لینڈسلائیڈنگ قابلِ ذکر ہیں۔ دوسری جانب کان کنی میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادّے زیرِزمین پانی کو آلودہ کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، کان کنی اور ڈرلنگ کے عمل سے پہاڑ کم زور ہونے کے علاوہ قریبی میدانی علاقے، دریائی نظام، زرعی اراضی اور انسانوں کاروزگار بھی متاثر ہورہا ہے۔

اِسی طرح پہاڑوں کے خاتمے کا ایک سبب نِت نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کا قیام بھی ہے۔ دُنیا بَھر میں بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کو کاٹ کر رہائشی منصوبے تعمیر کیے جارہے ہیں۔ بڑے بڑے بلڈرز اور ڈیولپرز سڑکوں، پُلوں اور مکانات کی تعمیر کے لیے پہاڑوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا رہے ہیں، جس سے نہ صرف پہاڑوں کی قدرتی ساخت متاثر ہورہی ہے، بلکہ پورے خطّے کا ماحولیاتی توازن بھی بگڑ رہا ہے۔ 

علاوہ ازیں، پہاڑوں کی یہ اندھادُھند کٹائی لینڈ سلائیڈنگ، سیلابی ریلوں، جنگلات کی تباہی اور نایاب جان داروں کے مساکن کے خاتمے جیسے سنگین نتائج بھی پیدا کررہی ہے، جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بُھگتنا پڑے گا۔

دوسری جانب بعض ممالک کی جانب سے زیرِ زمین ایٹمی تجربات سے بھی پہاڑوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ گرچہ زمین کی گہرائی میں کیے گئے جوہری تجربات سے تاب کار مادّے فضا میں نہیں پہنچ پاتے، لیکن اِن کے نتیجے میں زیرِ زمین چٹانوں کے کھوکھلا ہونے کے علاوہ پانی کے آلودہ ہونے کے پیچیدہ اور دیرپا مسائل سامنے آتے ہیں۔

تاہم، اس کے باوجود بعض ترقّی یافتہ ممالک زیرِزمین ایٹمی تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں اور اُن کا یہ عمل مستقبل میں انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یاد رہے، یہ تجربات چاہےزیرِسمندر ہوں یا زیرِزمین، دونوں ہی صُورتوں میں دُنیا بَھر کے ماحولیاتی و سماجی نظام کو تباہی سے دوچار کررہے ہیں۔ یاد رہے، پہاڑوں کو پہنچنے والا نقصان محض ایک جمالیاتی یا جغرافیائی مسئلہ نہیں، بلکہ اس عمل کے کُرّۂ ارض کی غذائی، آبی، معاشی اور سلامتی کی صُورتِ حال پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو دُنیا بَھر میں تازہ پانی کی کمی کے ساتھ آب پاشی اور زراعت بھی متاثر ہوگی اور توانائی کا بُحران بھی بڑھ جائے گا۔ نیز، سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور برفانی تودے گرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس زمین پر اپنا خلیفہ بنا کربھیجا ہے، تاکہ وہ اس کی عطا کردہ نعمتوں اور وسائل کااعتدال اورموافقت کےساتھ استعمال کرے۔ نیز، انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ پہاڑوں اور دیگر قدرتی وسائل کا بےدریغ استحصال کرنے کی بجائے اُن کی اور آئندہ نسلوں کے حقوق کی حفاظت بھی کرے، لیکن حضرتِ انسان نے تو قدرتی وسائل کے ساتھ کِھلواڑ شروع کردیا۔ آج ٹیکنالوجی نے ہمیں معدنی وسائل تک پہنچنےکی طاقت و استعداد دی ہے، تو اس کے ساتھ ہم پر یہ ذمّے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم خُود اپنے لیے مشکلات پیدا کریں اور نہ آنے والی نسلوں کے لیے۔ 

اگر ہم نے آج پہاڑوں کی حفاظت نہ کی، تو یہ نقصان صرف پہاڑوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ہماری زمین، معیشت اور بقا کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔ قدرتی وسائل کا استعمال حکمت، میانہ روی اور آئندہ نسلوں کے حقِ استفادہ کو پیشِ نظر رکھ کر کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں، اگر ہم نے اس ضمن میں سخت ماحولیاتی قوانین کی تشکیل اور ان کا نفاذ یقینی نہ بنایا، تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

سنڈے میگزین سے مزید