• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کی دھرتی اپنی ساخت، خمیر، رنگ و روپ اور خوشبو میں ہمیشہ سے صوفیانہ مزاج کی امین رہی ہے۔ اس منفرد دھرتی کی سماعتوں میں میں اُبھرنے والی محبت کی سرگوشی جیسی زبان، اس کے سینے پر سجنے والے میلوں میں دھڑکتے قدموں کی دُھول، اس کی فضاؤں میں گونجتے گیتوں، دلفریب کہانیوں اور مہکتی روایتوں میں جو سادگی، محبت، رواداری اور خدمت کے رنگ ملتے ہیں، وہ کسی فلسفیانہ یا متشدد انتہا پسندی کا نتیجہ نہیں، بلکہ صوفیا کے صدیوں پر محیط کردار کا ثمر ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صوفیا نے پنجاب کے اجتماعی شعور کو صرف متاثر ہی نہیں کیا بلکہ اسے مجسم کر کے دکھایا ہے۔پنجاب کی تشریح مقصود ہو تو صوفیا کا کلام ، رویے اور طرز زندگی ملاحظہ کریں۔ پنجاب کے خمیر کی بناوٹ میں محبت، روشن خیالی ،درگزر، انسان دوستی اور وسعتِ قلبی کی وہ روشنی ہے جسے صوفی فکر نے ہمیشہ جلا بخشی۔

صوفیا کا طریق عشق، خدمت اور مساوات پر قائم تھا۔ انہوں نے نہ صرف انسان کو انسان کی خدمت سے جوڑا بلکہ رب کی خوشنودی کے حصول کو خدمت خلق سے مربوط کر دیا ، بغیر کسی صلے کے خیر بانٹنے کا سلیقہ سکھایا اور زندگی کے پیچیدہ رازوں کو محبت کے عمل سے سمجھنے کی ترغیب دی۔ ان کے ہاں کوئی پوشیدہ ذاتی مقصد ، گروہی مفاد اور سیاسی ایجنڈا نہ تھا۔ وہ بانٹنے والے لوگ تھے ،ان کے ڈیروں پر فیض تقسیم ہوتا تھا عمر بھر مسکراہٹیں،محبتیں، دعائیں، روشنیاں ،روٹی، علم اور آسانیاں بانٹتے رہے ۔ پنجاب کے باسیوں کی اندرونی نیکی نے صوفیا کو پکارا تو پھر دونوں ایک دوسرے کے رنگ میں رنگ گئے۔ پنجاب کے لوگوں نے صوفیا سے فقط عقیدت نہیں رکھی، بلکہ انہیں اپنی شناخت، تاریخ ، ثقافت اور روحانیت کا محافظ سمجھا۔ وقت کے نشیب و فراز کیساتھ پنجاب نے وہ تاریک دور بھی دیکھا جب چند گروہوں نے ذاتی مفاد، سیاسی مفاہمت اور مذہبی استحصال کے ذریعے معاشرے میں تفرقہ پیدا کیا۔ ان کے تنگ نظر رویوں نے محبت بھرے ماحول میں نفرت اور بدگمانی کے بیج بوئے اور سماجی وحدت کو نقصان پہنچایا، لوگوں کو ایک دوسرے سے دور اور متنفر کرکے صوفیا کے آزاد اور وسیع آفاقی پیغام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ دھرتی کی روح سے انجان بہروپیوں نے اپنی جگہ بنانے کیلئے صوفیا کیخلاف مکروہ پروپیگنڈے کئے، ان پر فتوے لگائے اور تن من کے سچے ہیروں کے کردار کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی، کچھ سادہ لوح لوگ وقتی طور پر ان دھوکے باز نعروں کے قیدی ضرور بنے، مگر پنجاب کے دل سے صوفیا کی محبت کبھی کم نہ ہوئی۔پنجاب نے کئی برس اس تنگ نظری، فرقہ پرستی اور فکری قدامت پسندی کو برداشت کیا۔ دھرتی کے مزاج کیخلاف یہ دور بڑا بھاری تھا مگر سچ یہی ہے کہ پنجاب کی اصل روح کبھی مر نہیں سکتی۔ یہ دھرتی محبت کے چشموں سے آباد ہے اور اس کے لوگ دل کے احساس سے جڑے اور روح کے رازوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ وقت نے ثابت کیا کہ نفرت کے زور پر کوئی اجنبی نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ آج پھر پنجاب اپنی پرانی ڈگر یعنی محبت، ثقافت، زبان اور صوفی روایت کے رستے پر گامزن ہو رہا ہے۔اس میں لوگوں کی انفرادی کاوش ہے ساتھ حکومتِ پنجاب، بالخصوص محکمہ اطلاعات و ثقافت کا بھرپور کردار بہت اہم ہے۔جس نے صوفیانہ تعلیمات، پنجابی زبان اور پنجاب کی روحانی میراث کی طرف ایک واضح اور سنجیدہ جھکاؤ دکھایا ہے۔ماہِ نومبر میں پورے پنجاب کے کالجوں، اسکولوں اور سماجی تنظیموں کی جانب سے پنجابی میلوں کا انعقاد ہونا ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ دھرتی کی زبان، فکری ورثے، شعری سرمائے اور صوفیا کے آفاقی پیغام کو نئی نسل تک منتقل کرنے کا یہ عمل وقت کی اہم ضرورت بھی تھا اور تاریخی ذمہ داری بھی۔ان سرگرمیوں میں سب سے نمایاں کردار لاہور کے ادبی اور ثقافتی ادارےالحمرا آرٹس کونسل کا ہے، جس نے ایک عظیم الشان صوفی فیسٹیول منعقد کرکے پنجاب کی روح کو نئی نسل کے سامنے پوری تابانی سے پیش کیا۔ یہ جشن صرف فن کا میلہ نہیں تھا بلکہ ایک فکری، تہذیبی اور روحانی مکالمہ تھا جس نے نوجوانوں، دانشوروں، فن کاروں اور عام لوگوں کو صوفی پیغام کی وسعت میں اکٹھا کر دیا۔ اس میلے کا خواب ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد محبوب عالم نے دیکھا اور پھر اپنی ٹیم کیساتھ مل کر شبانہ روز محنت سے اسے حقیقت میں ڈھال دیا۔ اس سفر میں انہیں طاہر رضا ہمدانی جیسے وسیع الظرف اور صوفیانہ مزاج رکھنے والے افسر کی معاونت اور وزیر اطلاعات و ثقافت عظمیٰ بخاری کی مشفق سرپرستی حاصل رہی۔

فیسٹیول کا منظر واقعی بہت دلفریب تھا۔ ہر طرف صوفی فکر کی خوشبو رچی ہوئی تھی،کہیں سیشنز میں گفتگو جاری تھی، کہیں محفلِ موسیقی دلوں کو سرشار کر رہی تھی، کہیں سماع کا سوز روحوں کی تطہیر کر رہا تھا، حیرت انگیز طور پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہر سرگرمی میں بھرپور شرکت کر رہی تھی۔ وہ صرف سامع نہیں تھے، بلکہ سیکھنے اور سمجھنے کے مشتاق نظر آتے تھے۔ یہ لمحہ اطمینان بخش اور امید آفرین تھا کہ ہماری نوجوان نسل خیر اور حسن کی طرف کشش رکھتی ہے، بشرط یہ کہ ہم اس کی سمت درست رکھ سکیں۔مجھے افضل ساحر، نین سُکھ، ڈاکٹر امداد اور یوسف پنجابی کیساتھ سیشن میںلوگ سیڑھیوں پر بیٹھے اور دیواروں کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ یہ انہماک، دلچسپی ، اشتیاق اور محبت بھری تالیوں کا شور ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ پنجاب کا دل ابھی زندہ ہے۔ اس دھرتی کی رگوں میں صوفیا کا نور ابھی جاری ہے۔ وقتی طور پر جو بدتہذیبی، تنگ نظری اور مصنوعی پن نوجوان ذہنوں میں سرایت کر گیا تھا، وہ دراصل ہماری غفلت کا نتیجہ تھا۔ ہم نے کچھ عرصہ اپنی زبان، ثقافت اور روحانی ورثے کو بے رخی دکھائی، تو اس خلا کو منفی نظریات نے بھر دیا۔ اب وقت ہے کہ ہم اس خلا کو اصل ورثے یعنی صوفی فکر، محبت، رواداری اور انسانی خیر کے پیغام سے بھریں۔

تازہ ترین