• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب مائیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ سب مائیں اپنے اپنے موڈ کی مالکن ہوتی ہیں۔ ایک عادت عام طور پر سب ماؤں میں مشترک ہوتی ہے۔ بچہ چاہے کتناہی بدتمیز اور بد دماغ کیوں نہ ہو۔ ماں اپنے بچے کو کبھی بھی بد دعائیں نہیں دیتی۔ ماؤں کے پاس بچوں کو دینے کے لئے دعاؤں کا بے شمار انبار ہوتا ہے۔ دعائیں دیتے دیتے مائیں اللہ سائیں کو پیاری ہوجاتی ہیں۔ مگر ان کے ہاں دعاؤں کا ذخیرہ کم نہیں ہوتا۔ دعاؤں کے بعد بچوں کو دینے کیلئے ماؤں کے پاس نایاب مشوروں کا بہت بڑا خزینہ ہوتا ہے۔ مشورے دیتے ہوئے اور نصیحتیں سناتے ہوئے مائیں کبھی نہیں تھکتیں ۔ مائیں بچوں کو دعائیں دیتے ہوئے، اور نصیحتیں سناتے ہوئے اس دنیا میں آتی ہیں اور پھر بچوں کو دعائیں دیتے ہوئے اور نصیحتیں سناتے ہوئے اس دنیا سے چلی جاتی ہیں۔

ماں مجھے لگاتار دعائیں دیتی رہتی تھیں۔ ماں کو میری کچھ حرکتوں سے ڈر لگا رہتا تھا۔ وہ وسوسوں میں گم ہوجاتی تھیں۔ دعائیں دیتے ہوئے اکثر کہا کرتی تھیں، خدا تجھے بے رحم سرداروں سے بچاتا رہے، اپنی امان میں رکھے۔ سرداروں سے ماں کی مراد سکھ سردار نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہ ہمارے اپنے سردار ہوا کرتے تھے، ایسے سردار جو اپنے علاقوں میں اسکول، کالج اور یونیورسٹی کھولنے نہیں دیتے تھے۔ پوسٹ آفس چلنے نہیں دیتے تھے۔ دوا درمل کے لئے کلینک کھولنے نہیں دیتے تھے۔ سرداروں سے ذرا سے اختلاف پر مزارعوں اور ہاریوں کی کھال کھینچوادی جاتی تھی۔ تھانوں پر پولیس ان کی پسند اور مرضی کی لگوائی جاتی تھی۔ کسی خدا کے بندےمیں اتنا دم خم نہیں ہوتا تھا کہ وہ انتخاب میں سرداروں اور ان کے ولی عہدوں کو ووٹ دینےسے انکار کرسکے۔ انتخابات میں سرداروں سے مقابلہ کرنے کا کوئی خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ کچھ سردار اس قدر جابر ہوتے تھے اور ہوتے ہیں کہ ان کے علاقے میں کوئی شخص آزادی سے سانس نہیں لے سکتا۔ عام آدمی کے دل میں ہیبت اور خوف پیدا کرنے کے لئےوہ اپنی گاڑیوں میں ٹرک اور ٹریکٹر کے ٹائر لگواتے تھے اور لگواتے ہیں اور کراچی اور کوئٹہ کی سڑکوں کو روندتے رہتے ہیں۔ میں نے ایک لاکھ مرتبہ ماں سے کہا تھا کہ ماں میں تمہارا ہونہار بیٹا ضرور ہوں، مگر اصل میں، میں کاکروچ ہوں۔ ماں تم نے پرائمری اسکول کے ٹیچر کے بیٹے کو جنم دیا تھا۔ پرائمری ٹیچر کے بیٹے بھگت سنگھ اور چندر شیکھر پیدا نہیں ہوتے۔ بچپن سے ان کو اپنے سائے اور پرچھائی سے ڈرایا جاتاہے۔ وہ معراج محمد خان نہیں ہوتے۔ میں نے دائی مائی رام پیاری سے تصدیق کرلی ہے۔ اس نے تصدیق کی ہے کہ میں کاکروچ پیدا ہوا تھا۔ ابھی تک کاکروچ ہوں۔ ایک مرتبہ استفسار کرتے ہوئے میں نے ماں سے پوچھا تھا، ’’بھلا تم ہی بتادو ماں کہ ایک کاکروچ بھلا کیا انقلاب لاسکتا ہے؟ کسی قسم کی کوئی تبدیلی لاسکتا ہے؟ اڑتی ہوئی چڑیا کے پر گن سکتا ہے؟ ایک کاکروچ کچھ نہیں کرسکتا ماں۔ پریشر کے ساتھ ڈبوں میں بند دوائیں چھڑکنے سے ایک کاکروچ مر جاتاہے۔ ایسے ناکارہ کاکروچ کا نوٹس کوئی نہیں لیتا۔ ماں تیرا ڈر ، خوف اور وسوسے بے معنیٰ ہیں۔ سنا ہے کبھی تم نے ماں کہ پولیس نے کبھی کسی کاکروچ کو گرفتار کیا ہو؟

ماں نے کہا تھا: تیرے سے پہلے میں نے رام پیاری دائی سے تصدیق کی تھی۔ رام پیاری نے مجھے بتایا تھا کہ تو پیدا تو کاکروچ ہوا تھا، مگر تو بے انتہا باتونی کاکروچ نکلا تیری بکواسیں سنتے سنتے لوگ بھول گئے کہ تو کاکروچ تھا۔ لوگ تجھے ہلکا پھلکا سیاستدان سمجھ بیٹھے۔ کئی مرتبہ لوگوں نے تجھے انتخابات میں ووٹ دینے کی کوشش بھی کی تھی مگر تیری ضمانت ضبط ہوچکی ہوتی تھی۔

ماں کو زندگی بھر ڈر لگا رہتا تھا کہ مجھے سچ مچ کا چھوٹا موٹا اور لاوارث سیاستدان سمجھ کر سیاست کے مالک مہربان حاکمیت کے حاکم، سردار، وڈیرے، چوہدری، خان صاحب اور خان بابا میرا کچومر نہ نکال دیں ۔اس لئے ماں مجھے چپ رہنے کا کہا کرتی تھی۔ ماں کو میں یقین دلواتارہتا تھا کہ میں جمہوریت کے حوالے سے چاہتا تھا کہ لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھیں اور ڈھول بجائیں، سنیں اور سنائیں ،بولیں اور بولنے کی حمایت کریں۔ ماں غصہ سے کہا کرتی تھی: جمہوریت تیرے باپ داداؤں کی میراث نہیں ہے۔ جمہوریت کے مالک ہیں ہمارے والے سردار سائیں، سکھ سردار نہیں۔ تیری بکواس سنتے سنتے ایک روز سردار سائیں تجھے گم کرا دیں گے اور الزام ایجنسیوں کے گلے ڈال دیں گے۔ پھر میں بیوہ کیا کروں گی۔ تیرے جیسا کاکروچ بیٹا کہاں سے ڈھونڈکرلے آؤں گی؟ اس کے بعد ماں نے ایک مثال سے میرے چاروں طبق روشن کردئیے۔ ماں نے بتایا تھا کہ ایک معاشرے میں ایک سو جاندار رہتے تھے۔ ان میں سے نوے جاندار گیدڑ اور دس جاندار شیر ہوتے تھے۔ تیری جمہوریت کے مطابق معاشرے پر حکومت نوے گیدڑ کرتے تھے دس شیر نوے گیدڑوں کے ماتحت ہوتے تھے۔

اس دن سے مجھے چپ لگی ہوئی ہے۔

تازہ ترین