• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بحث جاری تھی کہ پاکستان میں سی پیک منصوبے کا حقیقی منصوبہ ساز کون ہے ؟ میرا مؤقف تھا کہ 2015 میں جب تمام تفصیلات طے ہوئیں تو اس وقت کی حکومت ہی کے سر سہرا بندھے گا مگر کچھ دوست ماضی قریب کے کچھ اور واقعات کا حوالہ دے رہے تھے کہ دراصل یہ فلاں فلاں کی ذہنی کاوش کا نتیجہ ہے ۔ اچھا اگر اس طرح سے ہی فیصلہ کرنا ہے تو پھر قائد ملت لیاقت علی خان کی امریکہ میں کھڑے ہو کر چین کو تسلیم کرنے کی وجہ بتانےکےان بیان کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے جو امریکہ کے ہارورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے قائد ملت کے دورہ امریکہ میں کی گئی تقاریر کے مجموعہ’’پاکستان ؛ دی ہارٹ آف ایشیا ‘‘ میں موجود ہیں کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان نے قائم شدہ حقیقت کو قبول کرتے ہوئے اور تجارت کے بہاؤ میں سہولت کے پیش نظر عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کیا تھا ۔ اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ پاکستان ایک ایسا ایشیائی ملک ہے جس نے سامراجی تسلط سے نجات حاصل کرلی تھی ، انہوں نے دنیا کے اس حصے میں فروغ پانیوالی قوم پرستی کیساتھ ہمدردی کا اعلان کیا ۔ میں نے دوستوں کے ساتھ ہونیوالے اس مکالمے کو سرزمین فورم کے زیر اہتمام ’’پاک چین تعلقات اور اس پر امریکی اثرات ‘‘پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دہرایا ۔ اس فورم سے لاہور میں چین کے قونصل جنرل زاؤ شیرین ، جنرل ناصر جنجوعہ ، سرزمین فورم کے چیئر مین صفدر خان، پنجاب یونیورسٹی ماس کمیونیکیشن کی ڈاکٹر سویرا ، یو ایم ٹی کی ڈاکٹر سعدیہ کاظمی ، منہاج یونیورسٹی کے ڈاکٹر اشفاق اور میجر نير شہزاد نے بھی خطاب کیا ۔ میں نے عرض کی کہ قائد ملت کے حوالے سے اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی ابتدائی قیادت ہی چین سے تعلقات کو ثابت شدہ حقیقت ، تجارتی بہاؤ جسے آج ہم سی پیک کی صورت میں دیکھ رہے ہیں اور قوموں کی تحریکوں سے وابستگی اور انکے حق کے طور پر دیکھ رہی تھی اور اگر ہم غور کریں تو پاک چین دوستی آج بھی انہی اصولوں پر کھڑی ہے ۔ جبکہ امریکہ سے تعلقات کی نوعیت بالکل جداگانہ تھی اور ابھی تک ہے ۔یہ پاکستان کی دفاعی سلامتی اور خطے میں کسی عدم توازن سے بچنے کے نظریہ پر قائم ہوئی تھی ۔ اگر ہم جذبات کو بالائے طاق رکھ کر پاک امریکہ تعلقات کا مطالعہ کریں تو واضح طور پر محسوس کریں گے کہ امریکہ نے پاکستان کی ابتدائی طور پر بہت مدد بھی کی تھی اور یہ ہم پر مسلط خاص طور پر 1958 کے بعد کے ٹولے کی عاقبت نا اندیشی تھی کہ وہ ان تعلقات کو مزید مضبوط نہ کر سکا اور انکو پہلی بار اصل دھچکا تب لگا جب 1965 کی جنگ کے وقت ہم امریکہ کی جانب سے مشکلات کا شکار ہوئے اور پھر ان تعلقات میں اعتماد کی کمی ہوتی چلی گئی خاص طور پر جنیوا معاہدہ کے بعد جب پریسلر ترميم عائد کی گئی ۔ چین کے حوالے سے پاکستان کو یہ تسلی رہی کہ اس نے جو بھی ہتھیار فراہم کئے انکے ساتھ کوئی پابندیاں نہیں عائد کیں کہ یہ فلاں کیخلاف نہیں استعمال ہو سکتے ۔ اس وجہ سے پاکستان اپنی دفاعی ضروریات کیلئے چین کی جانب راغب ہوا اور اب اکیاسی فیصد سے زیادہ چین سے ہی یہ ضروریات پوری کر رہا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کی پاکستان سے تازہ گرم جوشی کے اثرات کیا مرتب ہونگے ۔ یہ تو حقیقت ہے کہ بیجنگ میں اس حوالے سے ایک پریشانی موجود ہے اور وہ یہ سمجھنا چاہ رہا ہے کہ پاکستان کے یہ تعلقات صرف ریئر ارتھ منرلز تک محدود ہیں یا انکے مقاصد اس سے وسیع ہیں ؟ پاکستان کو اس حوالے سے چین کو مکمل طور پر آگاہ رکھنا چاہئے تا کہ کوئی غلط فہمی جنم نہ لے ۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ امریکی پالیسی ساز حلقے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جنوبی ایشیا اور انکے خیال میں بنائے گئے انڈوپیسفک اور مشرق وسطیٰ میں بھی انڈیا اور اسرائیل کا ہَوا دکھا کر معاملات کو چلانے کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکی ، انڈیا سے تو کوئی بھی نہیں ڈرا اور لے دےکے جو کچھ اسکی فوجی برتری کا احساس تھا وہ بھی اُس کے گھمنڈی حکمرانوں کیوجہ سے گزشتہ مئی میں بے نقاب ہو گیا ، اسرائیل کے معاملے میں بھی ترکی اور ایران نے اس کو چیلنج کر دیا اور مشرق وسطیٰ کا چہرہ وہ نہیں بن سکا جو اسرائیل کی تھانے داری سے بنایا جانا مقصود تھا ۔ اب مشرق وسطیٰ میں پاکستان کے کردار کو بھی امریکا اس نظر سے ہی دیکھ رہا ہے کہ ترکی اور ایران کی موجودگی میں پاکستان کی آمد ایک توازن کا کردار ادا کر سکے گی ۔ یہ بہت خوش آئند امر ہے کہ اسحاق ڈار نے ان خدشات کو رد کیا ہے کہ پاکستان کی فوج حماس کو غیر مسلح کرنے میں کوئی کردار ادا کریگی ، میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ان خدشات کا اظہار کیا تھا۔ چین پاکستان کے مشرق وسطیٰ میں کردار کو مثبت نظر سے دیکھ رہا ہے اور ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ ہماری چین سے دوستی اور امریکہ سے تعلقات کی نوعیت میں فرق ہے اور اگر ہم کوشش کریں تو یہ فرق ان دونوں کے مابین کسی تصادم کاباعث نہیں بنے گا کیونکہ ضروریات جدا جدا ہیں ۔ جب انڈیا کے سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کا شوشہ اپنے عروج پر تھا تو اس وقت پاکستان اور اٹلی نے سلامتی کونسل میں مزید ممالک کی شمولیت کی روک تھام کیلئے’’پاک اٹلی کافی کلب‘‘قائم کیا تھا، اب بھی اٹلی پاکستان کے حوالے سے ایک مضبوط آواز بن سکتا ہے اٹلی کی سفیر جنہوں نے لاہور میں بھی اطالوی کھانوں کی تقریب کا اہتمام کیا تھا ویسے بھی بہت متحرک ہیں پاکستان کو اپنے تمام دوستوں کو مختلف امور پر آن بورڈ لینا چاہئے کیونکہ جنوبی ایشیا کیساتھ ساتھ مختلف خطوں میں پاکستان کا کردار بڑھ رہا ہے۔

تازہ ترین