• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اس برس2025ء میں کلاؤڈ برسٹ، گلیشیروں کے پھٹنے سمیت بارشوں کی جو کیفیت نظر آئی اور بعد ازاں دریاؤں کے بپھراؤ کی صورت میں جو ایمرجنسی نمایاں ہوئی اسے محض ’’ بارش‘‘ یا ’’ سیلاب‘‘ کا نام دینا مشکل نظر آتا ہے۔ یہ ایسی آفت تھی جو واضح طور پر انتباہ دے رہی تھی کہ موسمیاتی تبدیلی اب ایسی حقیقت ہے جسے سامنے رکھ کر بڑے فیصلے وقت کی ناگزیر ضرورت ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ مون سون کی آمد سے پہلے کئی علاقوں، بالخصوص صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں پیشگی تیاریاں کی گئی تھیں۔ مگر یہ تیاریاں پانی کے منہ زور تھپیڑوں اور دریاؤں کی خوفناک صورتحال کے سامنے ٹھہرنے میں ناکام رہیں۔ بارشوں کے تسلسل نے پہاڑی ریلوں اور دریائی طغیانی کیساتھ مل کر ایسی تباہ کن کیفیت جنم دی جس میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے۔ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں رہی۔جبکہ کئی خاندان عزیزوں، مویشیوں، گھروں اور روزگار سے محروم ہوگئے۔ ملکی معیشت کو پہنچنے والا نقصان کھربوں روپے سے تجاویز کرگیا۔ کئی علاقوں میں پوری کی پوری فصل پانی میں بہہ گئی۔ بنیادی ڈھانچہ بھی ،جس میں سڑکیں ، پل اور صحت کی سہولیات شامل ہیں، نقصان سے دوچار ہوا ۔ اس وقت تک کی صورتحال یہ ہے کہ اگرچہ زیادہ تر علاقوں میں کافی حد تک پانی اتر چکا ہے مگر دیہات اور دور دراز کے بعض علاقے پوری طرح خشک نہیں ہوئے ۔ صوبائی حکومتیں کئی علاقوں میں عارضی خیموں اور شیلٹرز میں مقیم خاندانوں کو ضروری سہولتیں مہیا کرنے کیساتھ آبائی علاقوں میں واپس آنیوالوں کو اپنے بہہ جانیوالے گھروں کے نشانات تلاش کرنے اور ازسر نو عارضی بسیرے کا انتظام کرنے میں مدد دے رہی ہیں جبکہ آنیوالے برس 2026ء کی بارشوں اور متوقع سیلاب سے نمٹنے کی منصوبہ بندی میں وفاقی وصوبائی حکومتوں میں مختلف سطحوں پر رابطے جاری ہیں۔ چند دن قبل وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچاؤ کی حکومتی حکمت عملی پر جائزہ اجلاس ہوا جس میںوزیرِ اعظم نےآئندہ سال مون سون میں کسی بھی جانی و مالی نقصان سے بچنے کیلئے وزرات موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے قلیل مدتی منصوبے کی منظوری دیتےہوئےاس پرفوری عملدرآمد شروع کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر اعظم نے یہ بھی ہدایت کی کہ موسمیاتی تبدیلی وزارت ،منصوبہ بندی وزارت اور این ڈی ایم اے صوبائی حکومتوں کیساتھ مل کر مربوط منصوبہ بندی کریں ۔وزیر اعظم شہباز شریف جو ہدایات دیتے ہیں ان کے فالواپ اجلاس میں مکمل رپورٹ لیتے ہیں انہوں نے جو ہدایات دی ہیں ان میں پیش رفت کا وہ یقینی طور پر جائزہ لینگے۔ وزیر اعظم، وفاقی حکومت، پارلیمانی قائمہ کمیٹیاں جس انداز سے صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں ان سے واضح ہے کہ 2026میں آنے والے مون سون اور ممکنہ سیلاب سے نمٹنے کی تیاریاں شروع کی جاچکی ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ متوقع خدشات سے نمٹنے کی تدابیر سے آگے بڑھ کر شہروں اور دیہات میں لوگوں کی بحالی کے نئے ماڈلز کوبھی اسی طرح منصوبوں کا حصہ بنایا جائے جس طرح لندن کی آتشزدگی سمیت کئی شہروں اور علاقوں میں آنیوالی تباہی کے بعد پرانے اسٹر کچر پر واپسی کی بجائے جدید اسٹرکچر کی صورت میں شہروں کو نیا رنگ وروپ دیا گیا ۔ایسے ماحول میں، کہ موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت بن کر سامنے آچکی ہے، ہماری ہر منصوبہ بندی تبدیل شدہ حقائق اور مستقبل کی ضروریات کا آئینہ ہونی چاہئے۔ اس وقت کی فوری ضرورت یہ ہے کہ دریاؤں کے اطراف اور آبی گزرگاہوں پر قائم تمام تجاویزات فوری طور پر ختم کی جائیں ۔بطور قوم ہماری کاوشوں میں وقفہ آنے کی گنجائش نہیں۔ دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں۔ جہاں بارشیں اور سیلاب معمول کا حصہ ہیں۔ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔ بعض ممالک عمومی طور پر زلزلوں کی زد میں رہتے ہیں۔ ہمیں ان سب سے سیکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی کو واضح تر بنانا اور تیزی سے بدلتی دنیا کے تقاضوں کے حوالے سے اس میں لچک رکھنی ہو گی۔ دوست ملک چین نے دوسرے ملکوں پر انحصار کی بجائے اپنی افرادی عددیت کو اپنی طاقت بنا لیا اور پوری قوم نے یکسو ہو کر نہ صرف خود کفالت کی طرف پیش قدمی کی بلکہ معیشت سمیت ہر میدان میں اپنے ملک کو ترقی کی مثال بنا دیا۔ ہمیں چین سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ دیگر ممالک سے بھی اپنی ضروریات کے مطابق سیکھنا ہے اور نئی حکمت عملی کی طرف پیش قدمی کرنا ہے۔ اس وقت ،کہ بارشوں کا نظام بدلا نظر آ رہا ہے، ہمیں ایسے ملک کے طور پر حکمت عملیاں بنانی ہونگی جہاں بارشیں بہت کم بھی ہو سکتی ہیں اور بہت زیادہ بھی۔ ہمیں اپنی شہری اور اسٹرکچرل منصوبہ بندی میں اس پہلو کو بطور خاص ملحوظ رکھنا ہو گا کہ ہم بدلتے موسموں کا مقابلہ کر سکیں۔ نہروں میں نکاسی آب کا نظام جدید خطوط پر استوار کرنا اور ندی نالوں پرقبضے ختم کر کے ان کی سالانہ صفائی یقینی بنانا ہوگی ۔ دیہی علاقوں میں حفاظتی پشتے مضبوط بنانےسے لے کر نئے چھوٹے ڈیم بنانے تک ہر پہلوپر توجہ دینی ہو گی ۔

حکومتی سطح پر کی جانیوالی منصوبہ بندیوں، تیاریوں، اقدامات کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم۔ان سے اچھے نتائج کی امید کی جاسکتی ہے مگر ہمارے نظام کے بعض نقائص جس انداز میں معیشت کی بہتری سمیت ترقی وخوشحالی اور ماحولیاتی بہتری کی کاوشوں کو دھندلا رہے ہیں ان سے صرف نظر نہیں ہونی چاہیے جس ملک میں رشوت اور بدعنوانی ہر شعبے میں گہری جڑیں پکڑ چکی ہوں وہاں منصوبہ بندی جتنی بھی اچھی ہو ، مطلوب نتائج شکوک کی زد میں رہتےہیں۔اس برس2025ء کے سیلاب کے دوران جب اہلکاروں اور رضا کاروں کی بڑی تعداد اخلاص سے امدادی کارروائیوں میں مصروف تھی توبعض کالی بھیڑوں نے اس موقع کو بھی اپنی مطلب براری کیلئےجس انداز میں استعمال کیا اس سے یہ بات زیادہ شدت سے واضح ہوئی کہ ہم نے اپنے نظام کو رشوت،کرپشن اور بدعنوانی کی لعنت سے پاک نہ کیا تو ہماری بہت سی منصوبہ بندیاں اور کاوشیں نتائج کے حوالے سے مشکوک رہیں گی۔

تازہ ترین