ڈیجیٹل میڈیا نے اب تو ہمارے سبزی فروشوں تک کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اب تو سارے رپورٹرز، فون پہ بولنے والے کا وائس نوٹ کرکے اخبار کو بھیج دیتے ہیں۔ یہ سرکل اب مالیاتی شعور کو اپنے قابو میں کرنے کے بعد صنعتی مراکز کے علاوہ ہماری پرانی طرز کی منڈیوں پر بھی حملہ آور ہو رہاہے۔ پتہ نہیں کس قوت نے ساری دنیا کو کرنسی سے رہائی اور کمپیوٹر گرافی کی گود میں بٹھا دیا ہے جبکہ آج بھی ہمارا چھوٹا زمیندار اپنے پرانے طریقے پر عمل کرتے ہوئے بتا دیتا ہے کہ آڑھتی، اب تک انکے درمیان وچولا بنا، اپنی جیب گرم کرنے کو ترپ کا استعمال کر رہا ہے۔ میں اس حوالے کودرمیان میں چھوڑ کرآپ کو بتاتی ہوں کہ مارچ 1973 سے مارچ 1976 تک، حلقہ ارباب ذوق کی تفصیلی رپورٹوں کو پرنٹ کر کے 75 صفحات کا مخزن ہمارے ہاتھ میں دیدیا گیا ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ کس دیوانے کو خیال آیا اور کیسے اس مخزن میں ان برسوں میں ہونے و الے سارے مباحث کی تفصیلات کے علاوہ ہر اجلاس میں کون کون شریک تھا اور ہر رپورٹ پر سیکرٹری اور صدر کے دستخط بھی موجود ہیں۔
ان دستخطوں نے میری آدھی زندگی لوٹا دی کہ آپ کے سامنے ظہیر کاشمیری، عارف عبدالمتین ،شہزاد احمد، یوسف کامران، سید وقار عظیم، صلاح الدین محمد، اشفاق احمد، ڈاکٹر انور سجاد، ڈاکٹر وزیر آغا، ایرک سپرین، منظور اعجاز، سعید چوہدری، امجد اسلام امجد، پروفیسر عثمان، شاہد محمود ندیم، منشا یاد، اظہار کاظمی، رشید امجد، فہیم جوزی، حبیب جالب، سعادت سعید، الطاف فاطمہ، آزاد کوثری، احمد بشیر، عدیم ہاشمی، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، ظفر اقبال، شاکر علی ، عبید اللّٰہ علیم، تاج سعید، منوبھائی، خورشید عالم، عبدالرشید، عارف وقار ، خدیجہ مستور، کشور ناہید، اعجاز حسین بٹالوی، سجاد حیدر، اکبر لاہوری، بانو قدسیہ، سید محمد تقی، قیوم نظر، ابن انشا، ظہیر بابر ، صوفی تبسم، جوہر حسین، مستنصر تارڑ، ان سب کے نام لکھتے ہوئے، ہر دوست کی محفلیں، تحریریں اور پھر بحث۔
آپ کہیں گے کہ اس میں انتظار حسین، شہرت بخاری ، انجم رومانی کے نام کیوں نہیں ہیں۔ حلقہ میں افتراق یہی مسئلہ تھا۔ ان سینئر لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ہم حلقے میں سیاسی موضوعات پہ بات نہیں کرنا چاہتے۔ اس لئے انہوں نے حلقہ ارباب ذوق ادبی بنالیا۔ کچھ عرصے بعد کہ جب ضیاءالحق کے کرتوت دیکھے تو انتظار حسین نے بچے کو سرعام پھانسی دینے پہ ناول ’تذکرہ‘ لکھا اور پھر ایم کیو ایم کی بے تحاشہ بوری میں بند لاشیں اور لوٹ مار دیکھی تو ناول’ آگے سمندر ہے‘ لکھا۔ اب انکو بھی باور آیا کہ حالات تو بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد دگرگوں ہوگئے تھے کہ اب تو وہ بھی’’ سیاسی عدم استحکام‘‘ اور ’تیسری دنیا کا ادب‘، میرا جی سے لیکر امانت علی خاں منٹو’’ نوجوان ادیبوں کی تخلیقات‘‘، مجید امجدسے عزیز الحق ،حمید احمد خاں’’ فلسطینی صوفی شعرا ‘‘ ’ویت نام کی فتح‘ جیسے موضوعات پہ ہر اجلاس میں انتظار حسین اور دیگر ناراض ادیب شامل ہوتے تھے۔ اب تک تو خلاصہ زیر تبصرہ رہا، ان تمام 1973ء سے مارچ 1976ء تک کا، مگر جان جوکھم کاکام دلجمعی سے محنت اور حوصلے کے ساتھ کیوں اور کس نے کیا؟حسن جعفر زیدی نےجو خود اس زمانے میں حلقے کے سیکریٹری جنرل تھے۔ ہر چند پیشے کے لحاظ سے وہ انجینئر تھے اور انکی بیوی زیب، شاعرہ تھیں۔
اب ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کی مسلسل محنت سے اس زمانے کے ہر اجلاس کی رپورٹ محفوظ کرکے کتابی شکل میں پیش کی۔ یہ بات اس محبت کا تسلسل اور یقین ہے کہ ہر چند وہ سیاسی افراتفری، مارشل لا اور ہر حرف پر قدغن سے اسی دوران دنیا بھر میں سیاسی اتھل پتھل افغانیوں کو پاکستان کی سرزمین پر پناہ دینے جیسے موضوعات ، حکومت کے انتقام کا نشانہ بننے میں حلقہ ارباب ذوق بھی شامل تھا۔وہ جمہوری طریقہ جس میں کسی بھی نقطہ نظر کی بات کہی، سنی اور سمجھائی جاسکتی تھی، وہ حلقےمیں اس وقت غالب تھی اور اب کہنے کو ہر شہر میں حلقہ موجود ہے مگر فکر وذکر اس طرح نہیں ہوتا ہے۔ میں آپ کو چند ٹکڑے پڑھاؤں ’’ تاریخ میں جمپ آتے ہیں۔ مقداریں جمع ہونے کے بعد ایک طوفان اٹھتا ہے پیدا واری رشتوں میں تبدیلی کے ساتھ سماج میں تبدیلی آتی ہے‘‘ یہ لائنیں1974میں کہی گئیں۔ اور آج خیر پور میں ہماری دوست نے خواتین کی مراتھون کروائی۔80 خواتین ہر عمر کی شریک ہوئیں اور آج بھی قدامت پرست اسی طرح وعظ کررہے ہیں جیسے آج سے 50 برس پہلے کرتے تھے۔1973ء میں ایرک سپرین نے کہا ’’ ہماری آزادی کے26سال گزرنے کے باوجود ہمارا ہر کام امریکہ ، برطانیہ یا فرانس کی مرضی سے طے پاتا ہے اب ہم سود کے طور پر بیرونی قرضے لے رہے ہیں‘‘۔اور آج آئی ایم ایف بھی ہماری رشوت خوری کی داستان سنا رہا ہے کہ بیشتر محکموں میں، باس سمیت سب بجٹ کھا جاتے ہیں اور پھر پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں۔ 1973ء ہی میں ظہیر کاشمیری نے کہا ’’ ہمارے ہاں قومیتوں کا مسئلہ ،انتہائی نازک صورت حال اختیار کرچکا ہے صوبائی جھگڑے ایک طرح سے قومی بورژوازی کے جھگڑے ہیں۔‘‘
اور آج کےپی کے وزیر اعلیٰ نے ابھی کابینہ تو نہیں بنائی، مگر شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ میں ہزارہ صوبے کا اعلان کروں گا۔ 1974ء میں رفیق ڈوگر نے کہا ’’ صرف بلوچستان ہی میں جمہوری حقوق کا مسئلہ درپیش نہیں۔ مظلوم طبقات کی جدوجہدِآزادی کا رخ موڑنے کیلئے انہیں آپس میں الجھا دیتے ہیں۔
اور آج بھی کوئی کہہ رہا ہے صوبہ پنجاب کو ہاتھ لگایا تو پورا ملک عذاب میں مبتلا ہوجائیگا۔ ابھی تو میں نے صرف دوبرسوں کی ڈائریوں کے اقتباسات پر بات کی ہے۔ میں نے حسن جعفر زیدی کی بے پناہ محنت اور ضخیم کتاب کی شکل میں اپنے ملک کے پڑھنے والوں کو آئینہ دکھایا ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں جو کہا گیا وہ بھی آج کا سچ ہے اور آج ہی سنا گیا ہے کہ پھر کچھ نیا ہونے والا ہے، خدا خیر کرے۔