گزشتہ چند ہفتوں سے آئی ایم ایف کی High Level Summary Report on Technical Assistance اور اس سے منسلک Governance and Corruption Diagnostic Report پر ملک بھر کےمیڈیا پر غیر معمولی بحث جاری ہے ۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ ایسی رپورٹس قرض کی ہر قسط کے اجرا سے قبل بطور فالو اپ جمع ہوتی ہیں اور ان کا مقصد صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آیا متعلقہ ملک نے مطالبہ کردہ اصلاحات اور اہداف پر پیش رفت کی ہے یا نہیں ۔مگر اس بار یہ رپورٹ محض ایک تکنیکی کاغذ نہیں ہے ، بلکہ سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر ایک سنگین بحث کی بنیاد بن گئی ہے ۔ وجہ صرف یہ نہیں کہ اس میں پاکستان کی گورننس پر سخت سوالات اٹھائے گئے ، بلکہ اہم بات یہ کہ رپورٹ میں صاف لکھا ہے ’’یہ ڈائیگناسٹک حکومت پاکستان کی درخواست اور مکمل تعاون سے تیار کی گئی ہے “۔اس مرحلے پر ایک عام آدمی فطری طور سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا ہم بطور قوم اخلاقی اور ذہنی طور پر اس قدر بانجھ ہو چُکے ہیں کہ ہمیں اپنی کرپشن اور بدعنوانیوں کی نشاندہی کیلئے بھی آئی ایم ایف سے درخواست کرنا پڑی اس حقیقت نے رپورٹ کو سیاسی رنگ بھی دیا ، تکنیکی وزن بھی اور عوامی سطح پر ایک نئے خدشے کو بھی جنم دیا ۔چونکہ ہمارے ہاں زیادہ تر عوام پیچیدہ معاشی اصطلاحات ، مالیاتی قوانین ، یا گورننس کے عالمی معیار سے واقف نہیں ہوتے ۔ اس لئے میں نے کوشش کی ہے کہ اس پورے معاملے کو سادہ زبان میں آپ کے سامنے رکھوں تاکہ ایک عام پاکستانی بھی اس بحث کے مرکزی نکات کو سمجھ سکے۔
یہ رپورٹ پانچ بنیادی ریاستی افعال میں پاکستان کی کمزوریوں کی نشان دہی کرتی ہے۔
مالیاتی نظم و نسق کی خامیاں (Fiscal Governance ) ملکی بجٹ سازی غیر شفاف ، ٹیکس نظام کمزور اور حکومتی اخراجات غیر موثر ہیں ۔ کئی دہائیوں سے آڈٹ کے نظام میں شفافیت نہیں اور سرکاری محکموں کے مالیاتی معاملات سیاسی اثرات کے تابع رہے ہیں۔
مارکیٹ ریگولیشن کا بحران:پاکستانی مارکیٹ ضرورت سے زیادہ ریگولیشن ، اجازت ناموں فیسوں اور حکومتی مداخلت سے بوجھل ہوچُکی ہے۔ جہاں مسابقت کم ہو، شفافیت نہ ہو اور پالیسی میں تسلسل نہ ہو۔ وہاں بیرونی سرمایہ کاری ممکن نہیں رہتی۔ مالیاتی شعبے کی نگرانی :بینکاری نظام کا دائرہ محدود ، جدید عالمی تقاضوں سے غیر ہم آہنگ اور نان بینکنگ فنانشل اداروں کی نگرانی غیر مؤثر ہے۔
دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کی روک تھام:پاکستان نے فیٹف کے تقاضوں پر کافی بہتری دکھائی ہے ، لیکن اب بھی کئی شعبے ایسے ہیں جن میں مزید شفافیت اور سختی کی ضرورت ہے۔
رُول آف لا اور اینٹی کرپشن اداروں کی کمزوری:یہ حصہ شاید سب سے زیادہ تشویش ناک ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ریاستی ڈھانچہ بہت بڑا ہے ، اختیارات کی تقسیم غیر واضح ہے، نگرانی بکھری ہوئی ہے اور کرپشن کے مواقع ہر سطح پر نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کو پوری طرح Exploit کیا جا رہا ہے۔یہ وہ پہلو ہے جو ملکی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان انتظامی اور مالیاتی کمزوریوں کے نتیجے میںمعیشت غیر مستحکم رہتی ہے ، قومی وسائل ضائع ہوتے ہیں ،کارخانے اور صنعتیں دباؤ کا شکار رہتی ہیں ،کاروباری طبقہ غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتا ہے ،عام آدمی شدید مہنگائی اور بے روزگاری کا سامنا کرتا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری ملک سے دور رہتی ہے ۔
ملک بھر کی تجارتی اور کاروباری تنظیمیں برسوں سے ہر آنے والی اور جانے والی حکومت سے یہ مطالبہ کرتی آ رہی ہیں کہ اگر پاکستان نے تجارت اور صنعت کے میدان میں دُنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے تو ہر محکمے میں ’ون ونڈو آپریشن ‘ ناگزیر ہو چُکا ہے۔ مگر ہر حکومت نے اس مطالبے کو کبھی اصلاحات کی فائل میں بھٹکا کر رکھ دیا کبھی کمیٹی برائے مزید کمیٹی بنا کر مسئلہ ٹال دیا ۔
آئی ایم ایف کی سخت تجاویز کا مقصد نظام کو سادہ ، مربوط اور شفاف بنانا ہے تاکہ یہ دباؤ کم ہو سکے۔ بدقسمتی سے پاکستان میںاحتساب کا تصور ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر استعمال ہوا ہے ۔جہاں بڑے مگر مچھ بچ جاتے ہیں کمزور پکڑاجاتا ہے۔ ادارے خود غیر شفاف ہیں۔ اور قانون کی عملداری Selective ہےوہاں کرپشن کبھی ختم نہیں ہو سکتی ۔پالیسی سازی سے لیکر عملدرآمدتک ہمارے فیصلے زیادہ تر ذاتی مفاد، گروہی فائدےیا سیاسی ضرورت کے تحت کیے جاتے ہیں ۔ جب تک حکمرانی میں سنجیدگی ، تسلسل اور غیر جانبداری نہیں آئے گی کوئی بیرونی رپورٹ یا کوئی قرض اس ملک کو کھڑا نہیں کر سکتا ۔اسی طرح آبادی کا بے قابو پھیلاؤبھی ایسا مسئلہ ہےجومعیشت ، صحت ، تعلیم ، پانی، خوراک، روزگار غرضیکہ ہر شعبہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اگر ہم آبادی کو کنٹرول نہ کر سکے تو کوئی اصلاح پاکستان کو معاشی طور پائیدار نہیں بنا سکتی۔
زیر نظر رپورٹ میں ایک بات بار بار سامنے آتی ہے کہ ریاست کا ڈھانچہ بہت بڑا ہے مگر اس کی کارکردگی بہت کمزور ۔ وزارتیں بہت زیادہ ، اختیارات کی تقسیم غیر واضح ہے۔ ایک ہی محکمےکیلئے کئی ادارے ہر محکمہ کا اپنا قانون اور جوابدہ دہی نظام مبہم۔ جب تک ریاستی ڈھانچے کی ری انجینئرنگ نہیں ہوگی اصطلاحات صرف کاغذی کارروائی رہیں گی۔ تاریخ سے یہ سبق ہمیں کئی بار مل چُکا ہے کہ جب بھی ریاستی کمزوریاں بڑھتی ہیں تومعیشت کمزور ہوتی ہے ، سیاسی عدم استحکام آتا ہے، معاشرہ تقسیم ہوتا ہے اورادارے ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں۔ آج بھی ہمیں وہی خطرہ لاحق ہے اور آئی ایم ایف نے صرف آئینہ دکھایا ہے۔ واضح رہے کہ رپورٹوں سے نہ ملک بنتے ہیں اور نہ ٹوٹتے ہیں۔ ملک بنتے ہیں شفاف احتساب، مضبوط اداروں ، پالیسی میں تسلسل، آبادی کنٹرول اور سب سے بڑھ کر اخلاص نیت سے۔ اگر معاشرہ اور ریاست مل کر یہ چند بنیادی باتیں اپنا لیں تو پاکستان چند برسوں میں اقتصادی، سیاسی اور سماجی طور پر ایک مختلف ملک بن سکتا ہے۔