بہت روکا گیا ۔ روکنے والوں نے مجھے خبردار کیا کہ ڈھک شکر پڑیاں مت جاؤ وہاں پاکستان اور فوج کیخلاف نعرے لگ گئے تو تمہارے لئے ایک نئی مشکل کھڑی ہو جائیگی ۔ میں نے روکنے والے خیر خواہوں کو بتایا کہ ڈھک شکر پڑیاں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک سڑک بنا کر بڑی اچھی مثال قائم کی ہے وہ سڑک کا افتتاح کسی سیاستدان ، وزیر یا اہم سرکاری شخصیت کی بجائے مجھ سے کرانا چاہتے ہیں کیونکہ میرا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ،نہ ہی مجھے الیکشن لڑنے کا شوق ہے ۔ آزاد کشمیر کے ضلع باغ کی تحصیل دھیر کوٹ نے وزیر اعظم بھی پیدا کئے اور صدر بھی لیکن اگر وہاں کے کشمیری آج بھی چندہ جمع کر کے اپنے لئے خود سڑکیں بنا رہے ہیں تو مجھے وہاں جاکر اُن کے عزم و ہمت کی داستان اُنکی زبانی ضرور سننی چاہئے۔ مجھے کہا گیا کہ آزاد کشمیر میں عوامی بغاوت کے شعلے بڑی مشکل سے ٹھنڈے کئے گئے ہیں اور اگر سڑک کے افتتاح کی تقریب جلسے جلوس میں بدل گئی تو کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے ساری ذمہ داری تم پر عائد ہو گی ۔ ایک دوست نے تو یہاں تک کہا کہ صرف چند دن پہلے این ڈی یو میں ہونیوالی ورکشاپ کے شرکاء کو کوئٹہ میں ایک بریفنگ دی گئی اور وہاں آپکی تصویر بھی ناپسندیدہ عناصر میں شامل تھی اس لئے احتیاط کرو ۔ مجھے 2005 کا واقعہ یاد آگیا ۔ آزاد کشمیر میں زلزلے سے متاثرہ ایک علاقے میں کئی دن گزرنے کے باوجود امداد نہ پہنچی تو میں وہاں جا پہنچا ۔ وادی نیلم کے ایک پہاڑی گاؤں گجو خواجہ کے مکینوں نے مجھے بتایا کہ زلزلہ تو اکتوبر میں آیا تھا لیکن انہیں دسمبر تک کچھ نہیں ملا ۔ جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں گجو خواجہ والوں کی فریاد نشر ہوئی تو جنرل پرویز مشرف آگ بگولا ہو گئے ۔ اُسوقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے مجھے ریاست مخالف قرار دیدیا لیکن جب وائس آرمی چیف جنرل احسن سلیم حیات نے گجو خواجہ جا کر انکوائری کی تو وہاں کے مکینوں کا سچ اُن پر واضح ہو گیا۔ کئی ناقدین و حاسدین کی نظر میں یہ بندہ ناچیز آج بھی ریاست مخالف ہے۔میں نے سوچا کہ غداری کے الزام سے بچنے کیلئے ڈھک شکر پڑیاں نہ جانا صحافتی اصولوں کیخلاف ہو گا لہٰذا فیصلہ کیا کہ ڈھک شکر پڑیاں ضرور جانا ہے۔ تاہم میزبانوں سے گزارش کی کہ وہ تقریب کو بہت سادہ اور مختصر رکھیں اور زیادہ پبلسٹی نہ کریں ۔مجھے یہ جان کر بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ میزبان بھی کوئی بڑا مجمع اکٹھا نہیں کرنا چاہتے تھے اُنکے بزرگوں نے مجھ سے ملاقات کی فرمائش کی تھی اور وہ صرف یہ فرمائش پوری کرنا چاہتے تھے ۔ ہفتہ کی صبح میں اسلام آباد سے ایک صحافی دوست را شد یعقوب کے ہمراہ روانہ ہوا تو کوہالہ تک سڑک ٹھیک تھی ۔ کوہالہ سے ہم دھیر کوٹ کی طرف مڑے تو سڑک کے کھڈے پورے جسم میں اُترنے لگے ۔ دھیر کوٹ سے ڈھک شکر پڑیاں جانیوالا راستہ مزید خراب تھا اور سڑک کی خرابی مجھے آزاد کشمیر کے عوام میں پائے جانیوالے غصے اور بے چینی کی وجوہات سمجھانے لگی ۔ آزاد کشمیر کی خراب سڑکیں اور ٹوٹے پھوٹے پل میرے لئے کوئی نئی خبر نہیں ،یہ وہ علاقہ ہے جسکے مکینوں کے ووٹ سے کبھی کوئی ریاست کا صدر اور کبھی کوئی وزیر اعظم بنتا ہے ۔ اس علاقے کی سڑکوں کے جھٹکوں نے مجھے چیخ چیخ کر بتایا کہ یہاں کے شہریوں نے پچھلے دنوں پاکستان کے ارباب اختیار کو جو جھٹکے دیئے اُن کے پیچھے ان سٹرکوں کے جھٹکے تھے جو یہاں کے کشمیریوں کی کئی نسلیں برداشت کر چکی ہیں لیکن اب نئی نسل یہ سب برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ مجھے اس راستے میں جگہ جگہ جنگلی زیتون کے درخت نظر آ رہے تھے ۔ اب پڑھے لکھے نوجوانوںنے زیتون کی گرافٹنگ شروع کردی ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت زیتون کا تیل نکالنے والی مشینری منگوانی شروع کردی ہے ۔ یہاں کے لوگ شہد پیدا کر کے پورے پاکستان کو سپلائی کرتے ہیں اس لئے ڈھک شکر پڑیاں والوں کو بھی ایک پکی سڑک چاہیے تھی ۔ نصف صدی قبل سردار سکندر حیات اس گاؤں میں آئے تو انہوں نے ڈھک شکر پڑیاں والوں کیلئے سڑک کا اعلان کیا لیکن یہ سڑک نہ بنی ۔ نو سال قبل راجہ فاروق حیدر نے بھی یہاں سڑک بنانے کا حکم دیا۔ متعلقہ محکمے نے ڈھک شکر پڑیاں کیلئے ڈیڑھ کلو میٹر سڑک کا تخمینہ تین کروڑ روپے منظور کیا لیکن سڑک نہ بنی۔ تین سال قبل یہ تخمینہ پانچ چھ کروڑ تک پہنچ گیا ۔ چھ ماہ قبل اس علاقے کی ایک پڑھی لکھی بیٹی علاقے کے ایک معروف سیاستدان کے پاس گئی اور درخواست کی کہ ڈھک شکرپڑیاں کیلئے سڑک چاہئے ۔سیاستدان نے اس بیٹی کے والد مہتاب اشرف کا نام لیکر کہا وہ بڑے سماجی کارکن بنے پھرتے ہیں اُن سے کہیں کہ سڑک بنوا لیں ۔ یہ بیٹی جو پی ایچ ڈی کی طالبہ ہے سیاستدان کا شکریہ ادا کر کے اپنے والد کے پاس واپس آئی اور اعلان کیا کہ اب ہم اپنی سڑک خود بنائیں گے ۔ پھر مہتاب اشرف نے علاقے کے معززین اور دوستوں کو اکٹھا کیا ۔ ایک مقامی انجینئر کی خدمات حاصل کیں جب ڈیڑھ کلومیٹر سڑک کیلئے تخمینہ لگایا گیا تو یہ صرف ڈیڑھ کروڑ روپے بنا۔ علاقے کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت رقم اکٹھی کی اور صرف پانچ ماہ میں سڑک مکمل کرکے ان تمام محکموں کی کرپشن کا پول کھول دیا جو اس سڑک کی تین چار گنا زیادہ لاگت بنا کر بیٹھے تھے ۔ ڈھک شکر پڑیاں میں اس سڑک کے افتتاح کی تقریب دراصل ایک نئی مزاحمت کا اعلان تھا۔ یہ نئی مزاحمت جلسے جلوسوں اور جلاؤ گھیراؤ کاذریعہ نہیں ہو گی بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت ایسے منصوبوں کے آغاز سے ہو گی جن کے ذریعہ عوام سرکاری محکموں کی کرپشن کو بے نقاب کرینگے اور حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کریں گے ۔ ڈھک شکر پڑیاں میں سڑک کے افتتاح کی تقریب کے بعد جلسہ بھی ہوا جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئیں ۔ یہاں نعرے بھی لگے لیکن پاکستان کے حق میں نعرے لگے ۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے نعرے لگے ۔ کشمیریوں کو ناشکرے ، احسان فراموش اور غدار کہنے والے نام نہاد محب وطن جھوٹے ثابت ہو گئے ۔ کشمیریوں کے حقوق کی تحریک کو پاکستان دشمن تحریک قرار دینے کا مقصد دراصل کرپشن اور جبر و استبداد پر پردہ ڈالنا ہے ۔ یہ کرپشن صرف آزاد کشمیر کا نہیں بلکہ سندھ اور پنجاب کا مسئلہ بھی ہے جہاں آج بھی کھلے مین ہولوں میں بچے گر رہے ہیں ۔ بلوچستان کا بڑا مسئلہ بھی یہی کرپشن ہے کیونکہ وہاں امن قائم ہو جائے تو چیک پوسٹیں ختم ہو جائیں گی چیک پوسٹیں ختم ہو گئیں تو بھتہ خوری بند ہو جائے گی ۔ خیبر پختونخوا میں یہ کرپشن پوست کی کاشت اورا سمگلنگ کی صورت میں جاری ہے ۔ آئی ایم ایف بھی کرپشن کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے رہا ہے ۔ اس کرپشن کے مقابلے کیلئے ڈھک شکر پڑیاں والوں نے ایک مثال قائم کر دی ہے ۔ اب وہ ڈھک شکر پڑیاں سے رنگلہ تک اپنی مدد آپ کے تحت ایک اور سڑک بنائیں گے ۔ یہ سلسلہ آزاد کشمیر سے نکل کر پاکستان میں شروع ہو گیا تو ریاست غیر متعلقہ اور غیر اہم ہو جائے گی ۔ ریاست اپنے سسٹم کو کرپشن سے پاک کرے ورنہ ڈھک شکر پڑیاں ماڈل اس کرپٹ سسٹم کو قائم نہیں رہنے دے گا۔