• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیلڈمارشل سید عاصم منیر کی بطور چیف آف ڈیفنس فورسز تعیناتی اور سربراہ پاک فضائیہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی مد ت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن جاری ہونے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے ساتھ ہی فتنہ گر گروہ کا سازشی بیانیہ ایک بار پھر دفن ہوگیا۔ چیف آف ڈیفنس فورسز نے اپنی تقرری کے فوراً بعد ایوان صدر میںصحافیوں سے غیر رسمی مختصر گفتگو کے دوران کہا کہ” سب ٹھیک ہے، سب آپ کے سامنے ہے۔ چیزیں بہتری کی جانب جارہی ہیں، پاکستان یہاں سے اب اُونچی اُڑان کی جانب جائے گا۔“ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی نئے عہدے پر تعیناتی کے نوٹیفکیشن نے تمام ابہام ختم کردیئے ہیں اور ایسے عناصر کو منہ کی کھانی پڑی ہے جو نوٹیفکیشن میں تاخیر کو میاں نوازشریف کے حالیہ بیانات سے نتھی کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اب آگے بڑھئے، معاملات کو مزید اُلجھانے کی بجائے سلجھانے کیلئے مثبت سوچ کے ساتھ ملکی معاشی، سیاسی اور امن و امان جیسے مسائل کا حل تلاش کیجئے۔ ہمیشہ کی طرح بہت وقت ضائع ہوگیا۔ حالات پہلے سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ ایسے میں اناؤں کے بھنور سے باہر نکل کر کوئی راہ نکالنا ناگزیرہے۔ خیبرپختونخوا میں گنڈا پور حکومت ختم ہوگئی۔ پی ٹی آئی کے طاقتوروں سے رابطے ٹوٹ گئے۔ قیدی نمبر804 کی منشاکے مطابق سہیل آفریدی کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا بننے سے معاملات مزیداُلجھاؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ ہر ہفتے پشاور سے اڈیالہ جیل اپنے لیڈر سے ملاقات کی امید لگائے آتے اور ناکام لوٹ جاتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ سہیل آفریدی کو گنڈا پور جیسی سہولت میسر نہیں۔ وہ قبولیت کے اس درجے پر نہیں کہ اڈیالہ جیل کا دروازہ ان کیلئے کھل سکے۔ سہیل آفریدی اب بانی پی ٹی آئی کے ٹائیگرہی نہیں بلکہ ایک حساس ترین صوبے کے سربراہ بھی ہیں۔ انہیں نئی سوچ، سیاسی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے تھا مگر توقع کے عین مطابق ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ طرفہ تماشہ دیکھئے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا جنگجوؤں نے ہیجان انگیزی کی تمام حدیں پھلانگ کر خدانخواستہ بانی پی ٹی آئی کے انتقال کی بے بنیاد خبریں تک پھیلادیں۔ اب یہ فاصلے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ حکومتی وزراءقانون و اطلاعات و نشریات علانیہ کہہ رہے ہیں ”اب کوئی ملاقات نہیں ہوگی“۔ وفاق اور خیبرپختونخوا کی یہ محاذ آرائی کیا گھل کھلائے گی؟ اس سے پہلے کہ کوئی بڑا نقصان ہو طرفین کی خدمت میں درخواست ہے کہ اتنی گنجائش تو پیدا کریں کہ کم از کم دہشت گردی کے خلاف جنگ بارے صوبائی اور عسکری قیادت کے درمیان حتمی اور فیصلہ کن حکمت عملی پر اتفاق ہوسکے۔ سہیل آفریدی کومعاملات کی نزاکت سمجھتے ہوئے قیدی نمبر804 سے ملاقات یا ان کی فوری رہائی کی ضد چھوڑ کر’’ راستہ دیں اور راستہ لیں‘‘کی حکمت عملی کے تحت صوبے میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال ، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں عسکری قیادت کے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔ وہ جیل سے باہر پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت و پارٹی چیئرمین کی مشاورت سے ایسی حکومتی پالیسی اور پی ٹی آئی کا نیا بیانیہ تشکیل دیں جس سے حکومتی نظام بہتر طور پر چلایا جاسکے اور عوامی مسائل حل ہوں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں تعاون انکی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ خیبرپختونخوا کے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس جنگ میں کون کس کے ساتھ کھڑا ہے اور کیا کیا رکاوٹیں حائل ہیں ،انہیں کیسے حل کرنا ممکن ہے اور کس طرح قومی سلامتی کے اداروں اور عوام کے تعاون سے یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ قومی سلامتی کا ادارہ اگر آج برملا اس بات کا اظہار کررہا ہے کہ بارڈر سکیورٹی میں صوبائی مشینری کا کردار ہے تو اس مو قف کو کسی اور انداز میں اچھالنے کی بجائے اس سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں کہ ماضی میں جو کچھ ہوا سو ہوا، منشیات کی اسمگلنگ ، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے غیر قانونی کاروبار سے کمایا گیا پیسہ اور اس کاروبار سے منسلک افراد کا دہشت گردوں سے رابطہ و مالی تعاون میں ملوث عناصر کیخلاف آپریشن میں صوبائی حکومت کا بھرپور تعاون یقیناً ایک اہم قدم ہو گا۔یہی سوچ خیبرپختونخوا میں غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین اور شہریوں کے بارے میں بھی ہونی چاہئے۔ سہیل آفریدی اگرچاہیں تو موجودہ حالات میں جوش کی بجائے حکمت سے کام لیکر حساس ترین صوبے کے سربراہ کے طور پر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ریاست کے بیانئے کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوں اورریاست جس حکمت عملی کے تحت اس معاملے کو نمٹانا چاہتی ہے اور صوبائی حکومت سے جو توقعات رکھتی ہے اس میںتعاون کریں۔ خیبرپختونخوا کے حالات اب ماضی جیسے نہیں رہے۔یہ تاثر بھی بن رہا ہے کہ اب پی ٹی آئی کو پہلے جیسی عوامی مقبولیت حاصل نہیں۔ عوام دہشت گردی سے نجات ، کاروبار اور روزگار چاہتے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے چودہ سالہ دور حکومت کا حساب بھی مانگتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ ان ادوار میں ان کی تقدیر کیوں نہیں بدلی؟ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور بیان بازی سے آگے سوچئے کہ اس تباہی میں کس کا کتنا کردار ہے؟ آج اگر صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کے بارے میں سرگوشیاں ہو رہی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ایک ہی ہے کہ صوبائی حکومت کے موجودہ سربراہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات اور رہائی سے آگے نہیں سوچ رہے۔ صوبے میں انتظامی مشینری ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت چلائی جارہی ہے جس سے دہشت گردی کیخلاف ریاستی بیانیہ کمزور پڑ رہا ہے۔ ایسے حالات میں سہیل آفریدی کا بطور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا معاملات کو اچھے انداز میں سلجھانے میں کردار خصوصی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ آج اچھے فیصلے کریں گے تو کل اڈیالہ جیل کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔

تازہ ترین