• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے حالات میں کہ کرہ ارض کے بہت سے ممالک اپنے نظام کی درستی، قانون کی بالادستی اور عوام دوست پالیسیوں کی بدولت نئے لوگوں کیلئے ہی نہیں، باہر سے آنیوالے لوگوں کی نظر میں مقاماتِ عافیت کی حیثیت کے حامل ہیں، وطن عزیز اسی مخمصے میں پھنسا نظر آتا ہے کہ لوگ بازار میں اچھی بھلی منتخب سبزیاں اور فروٹ جب تھیلی میں ڈالنے کیلئے دکاندار کے حوالے کرتے ہیں تو وہ گھر پہنچتے ہی گلے سڑے کیسے ہو جاتے ہیں، مسجدوں میں احتیاط سے رکھے جوتوں کے غائب ہو جانے کو کسی منشیات زدہ شخص کی عام سی کارروائی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا اراضی کی خریدو فروخت میں دھاندلی سے بچنے کی کچھ تدابیر کے بعد خریدی گئی اراضی یا پہلے سے موجود اراضی کو بزور طاقت غصب کرنے کی ذہنیت کس معاشرتی عارضے کی نشاندہی کرتی اور کن سماجی تعلیمی اخلاقی اصلاحات کی متقاضی ہے۔ اراضی کی خریدو فروخت سے متعلق ہر یونٹ ( یا پلاٹ) لاکھوں کا سودا ہے۔ ہر صوبے میں اس کاروبار میں کھربوں روپے کے بڑھتے گھپلے ایسے بے قابو جن کی مانند ہیں جسے بوتل میں بند کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے، مگر جدید ڈیجیٹل دور کی سہولتیں بروئے کار لاکراس مسئلے پر قابو پانا ممکن ہے۔ اس باب میں وطن عزیز کے مختلف صوبوں اور شہروں میں کام ہوا بھی ہے۔ سندھ میں بورڈ آف ریونیو نے ڈیجیٹل ریکارڈ رکھنے کی اسکیم شروع کی ہے، کراچی میں انسداد تجاوزات سیل قائم ہے مگر کارکردگی مزید بہتر بناکر ہی مطلوب نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔ خیبرپختونخوامیں زمینوں کا ریکارڈ ملک کے سب سے جدید سسٹمز میں سے ایک ہے، قبضہ شکایات کیلئے کوئی مکمل آن لائن پورٹل تو نہیں مگر ضلعی انتظامیہ فوری کارروائی کرتی ہے، بلوچستان میں 2025ء میں ڈیجیٹل ریکارڈ کی بنیاد رکھی گئی ہے لہٰذا اسکے فعال ہونے میں وقت لگے گا۔ چاروں صوبوں کو درپیش مسائل میں ریکارڈ کے نقائص، مقدمات کی برسوں پر محیط طوالت اور قابضین کا اثرورسوخ بھی شامل ہے۔

اس منظر نامے میں وطن عزیز میں اراضی کے شعبے میں استحصال سے بچاؤ کیلئے دوایسے جامع ماڈل سامنے آئے ہیں جن سے غریب کمزور طبقات کے مفادات کی حفاظت کا پہلو اجاگر ہوتا ہے، ایک ماڈل قومی احتساب بیورو (نیب) کے اس مجوزہ ایجنڈے کی صورت میں نمایاں ہے جو بالخصوص رہائشی زمینوں کی خرید وفروخت کے شعبے میں بد عنوانیاں روکنے اور خریداروں کو مطلوبہ زمین کے حوالے سے درست معلومات فراہم کرنے کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ اسے ’’ڈیجیٹل ون کلک ڈسکوژر‘‘ ( مختصراً ون کلک اسکیم‘‘) کا نام دیا گیا ہے، دوسرا ماڈل پنجاب میںسامنے آیا ہے۔ اس میں قبضہ شدہ زمینوں کی ضلعی سطح پر قائم کمیٹیوں کے ذریعے 90دن کے اندر واگزاری یقینی بنائی گئی ہے۔ اس فیصلے پر اپیل کا حق استعمال کرنیوالوں کے معاملات ریٹائرڈ ججوں کی سربراہی میں قائم ٹربیونل میں سنے جائینگے۔ اپیلوں کی سماعت اور فیصلے کیلئے پنجاب غیر منقولہ جائیداد ملکیت آرڈیننس مجریہ2025ء کے تحت 90 دن مزید لگ سکتے ہیں۔ مذکورہ قانون میں دوسروں کی زمین پر قبضہ کرنیوالے یا زمین کسی اور طریقے سے ہتھیانے والے فرد کی سزا بڑھا کر 5سے10سال قید مقرر کی گئی ہے اورمعاونت یا سازش میں شامل افراد بھی ایک تا تین سال سزا اور جرمانے کے مستوجب ہونگے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے بموجب اب پنجاب میں کوئی کسی کی زمین نہیں چھین سکے گا ۔ قبضہ مافیا کا باب اب ہمیشہ کیلئے ختم کردیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی نگرانی میں شروع کئے گئے اس منصوبے نے چند دن میں کمال کے نتائج دئیے اور چند دنوں میں ہی کئی لوگوں کی زمینیں قابضین سے واگزار کرانے کی اطلاعات ہیں۔ قومی احتساب بیورونے زمینوں کی خرید وفروخت میں بدعنوانی روکنے کا جو ایجنڈا یا ماڈل دیا اسکا محرک اگرچہ وہ واقعات ہیں جو وفاقی دارالحکومت اور جڑواں شہرراولپنڈی میں 91ہزار شہریوں کو انکے کھربوں روپے سے محروم کرنے کی وارداتوں کی صورت میں سامنے آئے۔ بتایا گیا کہ نجی اور کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائیٹیوں میں ایسے پلاٹس کی ادائیگی کیلئے رقم جمع کرائی گئی جن کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ زمین کی غیر موجودگی کے باوجود 20ہزار ممبر شپس فروخت کی گئیں جبکہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے تقریباً 80ہزار کنال زمین کی تشہیر اور فروخت کی جوانکے منظور شدہ منصوبوں کا حصہ ہی نہیں تھی۔ ڈیٹا کے اعدادوشمار دھوکہ دہی اور لوٹ مار کی جس تشویشناک صورتحال کی نشاندہی کررہے ہیں انہیں کراچی، کوئٹہ، حیدرآباد، فیصل آباد سمیت ہر شہر اور ہر صوبے پر گزرنے والے واقعات کیساتھ ملاکر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرتی زوال کا نوحہ سامنے آتاہے، یہ صورتحال عوامی مسائل کی سنگینی کی تصویر سامنے لانے کیساتھ ملکی معیشت کے نقصانات کی موجب بھی ہے اور ملک کی ساکھ بھی ایسے حالات میں بطور خاص منفی اثرات کی حامل ہوسکتی ہے جب بڑے پیمانے پر طویل مدتی سرمایہ کاری باہر سے آنے کے امکانات ہیں۔قومی احتساب بیورو نے ڈیجیٹل ون کلک ڈسکوژرکے نام سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں زمینوں کے لین دین کے حوالے سے جو ایجنڈا تجویز کیا وہ جڑواں شہر وں میں کی گئی حیران کن جعلسازیوں اور کھربوں روپے کے فراڈ کی روک تھام کی ضرورت تو ہے ہی وقت کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہے۔ بادی النظر میں اسلام آباد ماڈل اور پنجاب ماڈل الگ الگ نظر آتے ہیں مگر اس اعتبار سے جڑے ہوئے ہیں کہ ایک ماڈل خریدوفروخت میں بدعنوانیوں کی روک تھام کا ذریعہ بنے گا جبکہ دوسرا ماڈل خریدی ہوئی یا پہلے سے موجود زمین کو قبضہ کرنیوالوں کی دستبرد سے بچانے کا ذریعہ ہے۔ اسلام آباد ماڈل اور پنجاب ماڈل دونوں ہی پورے ملک کی ضرورت ہیں اس بارے میں وفاق اور صوبائی سطح پر قانون سازی کیلئے مشاورت ضروری ہے تاکہ پاکستان میں زمینوں کے تحفظ کیلئے قومی ایکٹ اور صوبائی قوانین کی صورت میں ایسے مرکزی پورٹل کا قیام یقینی بنایا جاسکے جن سے کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ سے کہیں بھی واقع اپنی زمینوں کے بارے میں معلومات حاصل کرسکے۔ جبکہ ہرصوبے کے پورٹل ایک کلک کیساتھ زمین کی حقیقی موجودگی، سوسائٹی کی قانونی حیثیت کے علاوہ ہر پلاٹ کی موجودگی ، کی تصدیق کرنے کے قابل ہو۔ پاکستان میں پہلی بار امید پیدا ہوئی ہے کہ باقاعدہ نظام کے تحت عام شہری کو خرید وفروخت کے معاملے میں زیادہ بااختیار بنایا جائیگا اور جعلساز ڈویلپرز سے کھوکھلے وعدے بیچنے کی صلاحیت چھین لی جائے گی۔

تازہ ترین