السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
90ء کی دہائی لوٹ آئے
عبدالرزاق باجوہ نے لفنگے لڑکوں کی طبیعت ٹھیک درست کی، پڑھ کر مزہ آگیا۔ ایسے لفنگوں کا یہی انجام ہونا چاہیے۔ کیا زمانہ تھا، جب پرنٹ میڈیا کا دَور دورہ تھا، متعدد اخبار فروشوں کو کراچی کے لوگوں کی اکثریت جانتی تھی۔
یہ پڑھ کر افسوس ہوا کہ اخبارات کے اسٹالز تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں، سوچتے ہیں، اےکاش! پھر سے پرنٹ میڈیا کے عروج کا دور واپس آجائے، جب اخبارات ہر گھر میں پڑھے جاتے تھے۔ بس دلی دُعا ہےکہ اے کاش! 90ء کی دہائی پھر سے لوٹ آئے۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: ہائے! ؎ سدا عیشِ دوراں دکھاتا نہیں… گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔
تہہ دل سے ممنون، دلی مبارک باد
مَیں محمود میاں نجمی کو صحابہ کرامؓ کے حالاتِ زندگی اس قدر عُمدہ، رواں انداز میں تحریر کرنے پر دلی مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں اور تہہ دل سے ادارہ جنگ کا ممنون ہوں کہ وہ ایسی قابلِ صدستائش نگارشات قارئین کی معلومات میں اضافے اور اصلاحِ معاشرہ کی نیّت سے انتہائی خلوص وعاجزی کے ساتھ پیش کرنے کی سعی کررہا ہے۔ (شفیق حسین نتکانی بلوچ، محلہ پرہاڑاں والہ، تحصیل و ضلع کوٹ ادّو)
یہ تو کمال ہی ہوگیا
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا تجزیہ بعنوان ’’ٹرمپ کا غزہ منصوبہ‘‘ پڑھنے کو ملا۔ ہمیشہ کی طرح بہترین تھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں سحرملتانی کا لیاقت علی خان پر تحریر کردہ مضمون بھی اچھا تھا۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ سلسلے کا تو کوئی مول ہی نہیں۔
’’ڈائجسٹ‘‘ میں اس بار محمّد سلیم راجا کی تصویر بھی دیکھنے کو مل گئی۔ یہ تو کمال ہی ہوگیا۔ پھر ’’آپ کاصفحہ‘‘ میں سلیم راجا کا طویل خط بھی موجود تھا۔ نیز، شہزادہ بشیر نقش بندی اور قرأت نقوی کے بھی طویل نامے پڑھنے کو ملے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: کمال کیا ہوگیا، ایک شخص وجود رکھتا ہے، تو تصویر بھی تو رکھتا ہی ہوگا، اِس میں کمال کیا ہے۔ اے۔ آئی تو قصّۂ پارینہ کو زندۂ جاوید کیے دے رہی ہے، راجا صاحب تو بقیدِ حیات ہیں۔
لائیو کمنٹری سی لگی
شمارہ موصول ہوا۔ مندرجات پر نظر ٹھہری۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منیر احمد خلیلی نے زوالِ مسلمانان اور عیسائی حکومتوں کے عروج کا احوال بڑی عرق ریزی سے رقم کیا، یہ اُن ہی کا خاصّہ ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا امریکن یونیورسٹیز میں غیر مُلکی طلبہ کی سیاست پر پابندی کا ذکر لیے آئے۔’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ثانیہ انور ماں اور بچّے کی صحت پر ایک بہترین مضمون لائیں، تو ڈاکٹر عبدالستار زندگی کی حقیقت اور ناپائےداری سے متعلق بیان فرما رہے تھے۔
قرآنِ مجید میں ہے۔’’یقیناً انسان خسارے میں ہے‘‘ اور وہ کیا ہےکہ ’’صُبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے… زندگی یوں یہ تمام ہوتی ہے‘‘۔ جب کہ میر تقی میر نے کیا خُوب کہا ؎ ہستی اپنی حباب کی سی ہے… یہ نمائش سراب کی سی ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر عبدالمالک ذہنی صحت اور بڑھتی ہوئی نفسیاتی بیماریوں کی نہ صرف کھوج لگا رہے تھے بلکہ اُن سے محفوظ رہنےکی تدابیر بھی بتارہے تھے۔
’’رپورٹ‘‘ میں سیّدہ تحسین عابدی نے غیرت کے نام پر قتل جیسے معاشرتی ایشو پر مدلّل روشنی ڈالی، تو حافظ بلال نے چکوال کی زبوں حالی درد بَھرے اندازمیں بیان کی۔ ’’رپورٹ‘‘ ہی میں ڈاکٹر سید وسیم الدین نے لائبریریوں اور کتب کی اہمیت و ضرورت واضح کی۔
عبدالستارترین اوستہ محمّد میں سیلاب اور تعمیرِ نو پر فکر انگیز مضمون لائے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ کی تحریر کا اِک اِک لفظ زمرّد و یاقوت میں ڈھلا محسوس ہوا۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں عرفان جاوید کی منتخب کردہ معاشرتی و نفسیاتی الجھنوں کے گرد گھومتی کہانی اَن مول تھی۔ ڈاکٹر طاہر نقوی کا ’’سفرفسانے: تین بھائی، پیرو میں‘‘ لائیو کمنٹری سی لگی۔ یوں محسوس ہوا، جیسے ہم جسم و جاں کے ساتھ اُن کے ہم رکاب ہیں۔
’’متفرق‘‘ میں عمیرمحمود نے پاکستان میں نظامِ عدل کی حالتِ زار‘‘ پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام،طریقِ کار نہایت ہی سُست، بوسیدہ اور عُمر رسیدہ ہے۔ اِسے اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ بروقت اور تیزانصاف کی فراہمی کے لیے لازم ہے کہ ہر مقدمے کے لیے ’’وقت کی حد‘‘ مقررہ ہو۔ محمّد ذکی کا ’’ایئر ٹریفک کنٹرولر‘‘، فیصل قریشی کا ’’فیس بُکی ادباء‘‘ اور ڈاکٹر ریاض علیمی کا ’’دوستی‘‘ اچھی کاوشیں ٹھہریں۔
فیصل قاسم قریشی نے تو ہم جیسے بہت سوں کی اردو درست فرما دی۔ ’’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے جدید دنیا، اکیلے پن کے عذاب اور حقوق العباد پر بہت ہی خُوب صُورت تحریر لکھی۔ وہ کیا ہے کہ؎ مَیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
مثبت سوچ اور اسلامی طرزِ حیات اپنا کر ہی ہم دورِحاضر کی کٹھنائیوں، مشکلات سے نجات پا سکتے ہیں۔ اور آخر میں بات ’’آپ کاصفحہ‘‘ کی، جس پر اِس بارشائستہ اظہر ’’اِس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کی حق دار قرار پائیں۔ اُن کی تحریر بلاشبہ کسی ادبی شہ پارے سے کم نہیں تھی۔ اِتنے خُوب صُورت الفاظ کے چناؤ، ادبی اندازِ تحریر پر اُنہیں دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں، ضلع بہاول نگر)
ج: ویسے آپ کا اپنا اندازِ تحریر لائیو کمنٹری ہی سا ہے، بہت خُوب۔
اعلیٰ ذوق جھلکتا ہے
حسبِ معمول خُوب صُورت رنگوں میں لپٹے سرِورق پرشمارے کے خاص خاص موضوعات کی جھلکیاں اور مصرع درج تھا۔ ؎ تُو عروس شامِ خیال بھی، تُو جمالِ روئے سحر بھی ہے… واہ، واہ۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ’’سوڈان، سرزمینِ ہنگام و انقلاب‘‘ کے رائٹر تھے، منیر احمد خلیلی، مضمون خاصاتوجّہ طلب تھا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ کے طور پر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اورثانیہ انورکی نگارشات شائع ہوئیں اور دونوں ہی بےمثل ٹھہریں۔
نبیل مرزا نے بیرونِ مُلک مقیم پاکستانی نوجوانوں کے شعبہ اکاؤنٹنگ میں اہم کارنامے سے آگاہ کیا، ’’حالات و واقعات‘‘ پر منور مرزا، اپنے خیالات سے نواز رہے تھے کہ ’’مسلم اُمّہ ناک سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں‘‘۔ فیشن کے صفحات کے بھی کیا ہی کہنے۔ ثانیہ انور کا رائٹ اَپ بہترین تھا۔
’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ سےعرفان جاوید کا اعلیٰ ذوق جھلکتا ہے۔ افسانہ ’’نمشکار‘‘ دو اقساط میں پیش کیا گیا، کیا ہی شان دار افسانہ تھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر بینش صدیقہ نے اُردو کی پہلی سفرنامہ نگارخاتون نواب سکندر جہاں بیگم والئی بھوپال سے متعارف کروایا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ایم شمیم نوید، قاضی جمشید عالم اور حکیم سیّد عمران کی نگارشات بھی لائقِ مطالعہ تھیں۔ (صدیق فنکار، دھمیال روڈ، نئی آبادی، جھاورہ، راول پنڈی)
ج: آپ کو خطوط پر خطوط لکھ بھیجنے ہی کا شوق ہے، کبھی ہمارے جوابات پڑھنے، تحفّظات پرغور کرنے کی بھی زحمت فرمائی ہے۔ لگ بھگ ہرخط کے جواب میں استدعا کی جاتی ہے کہ خط حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھیں اور آپ کا یہ حال ہے کہ آپ نے اِس بار آدھے صفحے پر خط لکھ کر بقیہ آدھے پر نظمیں، غزلیں، جب کہ صفحے کے پشت پرحمد و نعت لکھ کے خط روانہ فرما دیا۔ مطلب اخیر ہی ہوگئی ہے۔ بطور سزا آپ کا سارا کلام تو ناقابلِ اشاعت ٹھہرا اور خط بھی اُسی قدرشایع کیاجا رہا ہے، جو باآسانی سمجھا جاسکا۔
بھیجا اُبال دیں گے
رسالہ موصول ہوا۔ سرِورق پر بکھرے خوشبو کے جھونکے سے محظوظ ہوئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پر پہنچے، تو محمود میاں نجمی صحابیٔ رسول ﷺ، حضرت خلیل بن عمرو دوسیؓ کے اسلام لانےاور پھر جنگوں میں بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے کے حالات سُنا کرلہو گرما رہے تھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر جاوید شیروانی نے علامہ اقبالؒ کی نبی کریم ﷺ سے عقیدت و محبّت کا تذکرہ کیا، جس کی تفسیریہ شعر ہے؎ کی محمدؐ سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں… یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں۔
حافظ بلال بشیر، حضورﷺ کا اندازِ تدریس بیان کررہے تھے، جس کے سبب جُہلا، علماء بن گئے، ظالم سفّاک، رحم دل اور قتل وغارت کرنے والے، انسانوں کےمحافظ۔ نصرت عباس داسو ’’ہجرتی پرندوں کے عالمی یوم‘‘ کی مناسبت سے خصوصی تحریر لائے۔ یہ پرندے پاکستان میں سائبیریا اور مشرق وسطیٰ کے علاقوں سے ہر سال اکتوبر، نومبر میں آتے اور مارچ، اپریل میں واپس جاتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالستارعباسی ’’میرا برانڈ پاکستان‘‘ کے عنوان سے بڑی فکر انگیز تحریر لائے کہ پاکستانی مصنوعات کسی بھی مُلک کی مصنوعات سے کم نہیں، مگر ہمیں گھر کی مرغی دال برابر ہی لگتی ہے۔ منور مرزا بجا فرما رہے تھے کہ پاک، سعودیہ معاہدے سے دنیا میں پاکستان کے وقار اور اہمیت میں اضافہ ہوگا، تو معاشی مسائل بھی حل ہوں گے۔ ’’سینٹر اسپیریڈ‘‘ پر شائستہ اظہر کا شائستگی سے بھرپور رائٹ اَپ پڑھا، بہت ہی خُوب۔ عرفان جاوید، محمّد عباس کے افسانے ’’واہل‘‘ کی پہلی قسط کے ساتھ موجود تھے۔
ڈاکٹر ایم عارف سکندری ایڈزجیسے موذی مرض سے بچائو کی تدابیر بتا رہے تھے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مومنہ حنیف نے ’’یومِ اساتذہ‘‘ پر خصوصی تحریر رقم کی۔ معلم کی عظمت کا اندازہ تو اس فرمان مصطفےٰ ﷺ ہی سے ہوجاتا ہے کہ ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ جمیل ادیب سیّد نے طلبہ کوسخت سزائیں دینے سے گریز کا مشورہ دیا۔
بات تو بجا، مگر کبھی صبرکا پیمانہ لب ریز بھی ہوجاتا ہے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں، ڈاکٹر محمّد ارشد شمسی، ڈاکٹر ایم عارف، سید افطار شاہ کاظمی، کوثر منصور نے اپنے اپنے رشتے داروں کی خُوبیاں بیان کیں، جب کہ اختر سعیدی نئی کتابوں پر ماہرانہ تبصرہ فرما رہے تھے۔
یہ شاہد مشہود کتاب کے مصنّف رانا شاہد اور اعزازی چٹھی کے حق دار رانا شاہد کیا ایک ہی ہیں یا الگ الگ اور یہ بےکار ملک کو کیا مشورہ دے دیا؟ یہ تو رائٹ اَپ لکھنے والیوں کا بھیجا اُبال دیں گے۔
وہ تو کچھ آپ ہی کی ہمت ہے، جو اِنہیں جھیل رہی ہیں۔ ضیاء الحق قائم خانی کی چٹھی بھی خوب لشکارے ماررہی تھی، تو’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں محمّد کاشف نے اچھی ای میل لکھی۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)
ج: ہا ہا ہا… بھئی، آپ کی اِس ’’بھیجا اُبال دیں گے‘‘ کی اصطلاح کے تو تصوّر ہی نے بے طرح ہنسا مارا۔ بےشک، بےکار ملک صاحب سے کوئی بعید نہیں۔ اور رانا محمّد شاہد کتاب والے اور خط والے، یقیناً ایک ہی صاحب ہیں۔
بہترین نگارشات ، لمحۂ فکریہ
شمارہ ملا، اِس بار ہم نے سوچا کہ ذرا مختصر سا نامہ لکھتے ہیں کہ خط کی طوالت سے آپ خفا ہی رہتی ہیں۔ ٹائٹل سے سینٹر اسپریڈ تک شیڈو صاحبہ، خُوب صُورت سراپے، دل کش پیراہن کے ساتھ چھائی ہوئی تھیں۔ رنگا رنگ خطوط سے مزیّن صفحہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ بھی خُوب بہار دِکھا رہا تھا۔ نرجس مختار، میرپور خاص سے کھجوروں، چھوہاروں اور کڑاہوں، کا ذکر لائیں، تو ہمارے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ ویسے ہمارے یہاں کی بھی کچھ سوغاتیں مشہور ہیں۔
جیسے گوجرانوالہ کے تکے، چڑے اور صوفی کی بریانی، راہوالی کے، نور کے پائے، سلیمان کی قلفی وغیرہ۔ ایڈیٹرصاحبہ، ختم ہوتی روایات و اقدار، تہذیب و ثقافت، ادب و لحاظ پر پریشان نظر آئیں۔ تو ہمارے خیال میں، اِن مِٹتی روایات میں نئی رُوح پھونکنے کے لیے، دورِ حاضر کے باشعور لوگوں کو اپنا قلم بطور ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
’’سینٹراسپریڈ‘‘ کی تحریر شائستہ اظہر نے لکھی اور خُوب لکھی۔ جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ بار بار سنتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا زوال پذیر ہے، لیکن نئی کتابوں کی اشاعت کی بھرمار سے تو ایسا نہیں لگتا۔
محمّد عباس کی تحریر ’’واہل‘‘، جمیل ادیب سیّد کی ’’ترسیلِ علم کو دل چسپ مشعلہ بنائیں‘‘ اور زہرایاسمین کی ’’ہم نصابی سرگرمیوں کے نام پر غیراخلاقی مشاغل‘‘ بہترین نگارشات ہی نہیں، گویا لمحۂ فکریہ بھی تھیں۔ (محمّد صفدر خان ساغر، مکی مسجد، راہوالی، گوجرانوالہ)
فی امان اللہ
اکتوبر کے پہلے ہفتے میں دو بارشوں نے موسم ایسا تبدیل کیا کہ ٹھنڈ لگنے لگی ہے اور پیٹیوں سے گرم ملبوسات نکل آئے ہیں۔ ڈاکٹر عابد شیروانی کی تحریر ’’مقامِ مصطفیؐ اقبال کی نظر میں‘‘ کا تو کوئی مول ہی نہ تھا۔ ’’عالمی یومِ اساتذہ‘‘کی مناسبت سے حافظ بلال بشیر کا مضمون ’’حضرت محمدؐ کا اسلوبِ تدریس، اساتذہ کے لیے مینارۂ نور‘‘ بھی اہمیت کا حامل تھا۔ نصرت عباس داسو نے ہجرت کرنے والے پرندوں پر معلوماتی مضمون لکھا۔
اس دفعہ ماڈل کے ملبوسات حقیقی معنوں میں خوشبو کا جھونکا تھے، جو صحنِ چمن میں خُوب مہکے۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں ’’واہل‘‘ کی دوسری قسط آئے گی تو دونوں اکٹھی پڑھیں گے۔ یہ عادت پرانی ہے، پتا نہیں کیوں۔ ڈاکٹر ایم عارف کی ’’ایچ آئی وی، طاقت وَر ادویہ کے ذریعے کنٹرول ممکن ہے۔‘‘ موضوع کے اعتبار سے اہم تحریر تھی۔
اس لیے کہ ہم تو ہمیشہ یہی سنتے آئے ہیں کہ یہ بیماری لاعلاج ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مومنہ بنتِ محمّد حنیف نے استاد کو معمارِ انسانیت، بادشاہ گر اور تربیت ساز قرار دیا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ابا، تایا، چچا اور استاد جیسے خُوب صُورت رشتوں پر محبت بھری تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ اختر سعیدی اور منور راجپوت کے کتابوں پر تبصرے بھی خُوب ہیں۔
پہلے مَیں سمجھتا تھا، کتابیں پڑھنے والے نہیں رہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ کتاب چَھپ بھی رہی ہے اور پڑھی بھی جارہی ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے ایک خط سے کنفرم ہوگیا کہ آپ نے شائستہ اظہر صدیقی کو ’’اسٹائل بزم‘‘ کی ڈیوٹی سونپ دی ہے۔
’’آپ کا صفحہ‘‘ کے لیے تو یہ اعزاز ہی ہے کہ کیسے کیسے ہیرے یہاں سےنکل رہے ہیں۔ اور گزشتہ کسی شمارے میں آپ نے ہمیں خوش خط ہونے کی جو سند دی، اُس کے بعد یقین ہوگیا کہ ہمیں ایک اکیڈمی نے اگر خوش خطی سکھانے کےلیے منتخب کیا تھا، تو غلط نہیں کیاتھا۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)
ج: یہ یقین تو ہماری سند سے پہلے ہی ہونا چاہیے تھا۔ خود پر اعتماد نہیں تھا تو اکیڈمی میں اپلائی کیوں کیا، اُن کی آفرکیسے قبول کرلی۔
* اب بھی ہفتہ وارجنگ اخبارکے زرد چمکیلے اوراق نظر سے گزرتے ہیں، تو دل کو گونا گوں مسرت حاصل ہوتی ہے۔ ادارتی صفحے پر واصف ناگی کا ’’وہ لاہور کہیں کھو گیا‘‘ پڑھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ کراچی، پشاور، کوئٹہ اور ملتان جیسے شہر بھی تو اپنی کہانیاں، داستانیں رکھتے ہیں، تو اگر سنڈے میگزین میں، اِن شہروں سے متعلق بھی مضامین مرحلہ وار شایع ہوں، تو نئی نسل کوماضی کے دریچوں میں جھانکنے کا موقع مل سکتا ہے۔ نیز، اس طرح ہم شاید اپنے شہروں کو ایک نئے انداز سے دیکھنےکی تحریک بھی پا سکیں۔ (عارف جاوید، اسلام آباد)
ج: اور ان شہروں پر لکھنے والے کہاں سے لائیں۔ سنڈے میگزین کے دَر سب کے لیے وا ہیں۔ کوئی اچھا لکھاری، اِن شہروں سے متعلق لکھنا چاہے، تو ہم ضرورخیرمقدم کریں گے۔
* آج سنڈے میگزین کا ہر وہ سلسلہ جو مجھے پسند ہے، دھندلایا ہوا تھا۔ سیاہی اِس قدر پھیلی ہوئی تھی کہ لفظ اپنی شناخت کھو چُکے تھے۔ میل کے ساتھ تصاویر بھی منسلک کردی ہیں۔ امید ہے، آپ کوئٹہ اسٹیشن والوں کو اس حوالے سے سرزنش کریں گی۔ (ایم زیڈ خان، کوئٹہ)
ج: پریس کے معاملات میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں۔ بہرحال، شکایت متعلقہ شعبے تک پہنچ گئی ہے۔
* بندۂ ناچیز نے گزشتہ دو سے ڈھائی ماہ کے دوران اپنی چند فکری و ادبی نگارشات آپ کی خدمت میں بغرضِ اشاعت پیش کیں، جن میں معاشرتی مشاہدات، فکری تجزیات اور اصلاحی رجحانات کی آمیزش تھی۔ تاہم، تاحال نہ تو ان کو شرفِ اشاعت نصیب ہوا، نہ ہی کسی طور اُن کی قبولیت یا عدم مناسبت سے متعلق مطلع کیا گیا۔
چوں کہ خامشی کبھی کبھی تشویش کی کوکھ سے اضطراب کو جنم دیتی ہے، لہٰذا مؤدبانہ استدعا ہے کہ فقط ایک مختصر ابلاغ فرما دیا جائے کہ آیا یہ تحریریں اشاعت کے لیے موزوں سمجھی گئی ہیں یا مہذّب معذرت کی متقاضی ہیں، تاکہ آئندہ راہِ قلم کسی واضح سمت متعین کی جا سکے۔ (نصرت عباس داسو)
ج: آپ کی تمام تر قابلِ اشاعت تحاریر وقتاً فوقتاً شایع کی جا رہی ہیں۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk