السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
’’اے پی این ایس ایوارڈ‘‘ کا حق دار
تازہ شمارے پر تبصرہ حاضرِ خدمت ہے۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ حسبِ معمول خُوب صُورت رنگ ڈھنگ کے ساتھ ملا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں صحابیٔ رسولؐ، حضرت عتبہ بن غزوانؓ سے متعلق بہترین اندازمیں تحریر کیا گیا۔ جیسے مضمون نگار آنکھوں دیکھا منظر بیان کررہے ہوں۔ منور راجپوت کا ’’فیچر‘‘ تین صفحات پر مبنی تھا۔ ’’اخبار والا، صحافت کا پاوا‘‘ کے عنوان سے اخبار فروشوں کے مسائل پر نہایت عُمدگی وعرق ریزی سے روشنی ڈالی گئی۔
میری نظر میں تو بلاشبہ یہ فیچر، اے پی این ایس ایوارڈ کا حق دار ہے، خصوصاً سرمد علی (صدر، اے پی این ایس) کے جوابات سے بڑی تسلی ہوئی۔ یہ خاکسار بھی بطور قاری، لکھاری اور مدیر، اخبار کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ کے صفحے پر منور مرزا قطر پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے رقم طراز تھے۔
اُن کے تجزیات کے تو کیا ہی کہنے۔ ’’اسٹائل‘‘ کےصفحات پر شائستہ اظہر صدیقی کا رائٹ اَپ تھا۔ تحریر خُوب تھی کہ شعروادب کی چاشنی سے گندھی تھی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں حافظ بلال بشیر اور محمّد کاشف کی تخلیقات شامل کی گئیں۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں ڈاکٹر اسلم فرخی نے مسعود الحسن تابش دہلوی سے متعلق تحریر کیا، جو غزل گو شاعر، دانش ور اور براڈ کاسٹر تھے۔
پی ٹی وی کے مشاعروں میں اُن کو کئی بار سُنا۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ عرفان جاوید مرتّب کرتے ہیں۔ ’’نمشکار‘‘ کی پہلی قسط متاثر کُن تھی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ مجبوری، افسانچہ مالِ مفت، نظم، غزل سب خُوب رہے۔ اور رہا ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو پہلے لکھا تھا کہ یہ آپ کی محفل ہے، اب کہوں گا کہ آپ کی عدالت ہے۔ (صدیق فنکار، کلمہ چوک، دھمیال روڈ، عسکری اسٹریٹ، جھاورہ، راول پنڈی کینٹ)
ج: اور اس عدالت سے کم ازکم آپ تو باعزت بری نہیں ہوسکتے کہ اَن گنت مرتبہ گزارش کی ہے کہ ’’خدارا! حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھنے کی عادت اپنائیں‘‘ مگر آپ ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے، جب کہ اپنے تعارف میں خُود کو ’’سینئر صحافی‘‘ لکھتے ہیں، کسی مقامی جریدے کے مدیربھی ہیں، تو بھئی، روایتی صحافت کے بنیادی اصول فراموش کرنے کے پیچھے کیا حکمت ہے، کم ازکم ہماری سمجھ سے تو بالاتر ہے۔
کسی کی نظر نہ لگے
ماشاء اللہ! اس مرتبہ کے سنڈے میگزین ’’ربیع الاول ایڈیشن‘‘ کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ۔ ٹائٹل سے آخری صفحے تک دل چسپی برقرار رہی۔ نیز، اِس مرتبہ عادت کے برخلاف شمارہ آخرکی بجائے پہلے صفحے سے کھولا۔ سب سے پہلے روضۂ رسول ﷺ کی پُرنور تصویر سے آنکھیں ٹھنڈی کیں۔ سر ِورق الٹا، تو ڈاکٹر حافظ ثانی کا مضمون ’’مقامِ محمّد ﷺ ، قرآنِ کریم کی روشنی میں‘‘ پڑھنے کو ملا۔
معلوم ہواکہ قرآنِ پاک ہی رسولِ کریمؐ کی سیرتِ طیبہ اوراسوۂ حسنہ کا پہلا، معتبرترین اور بنیادی مصدر و مآخذ ہے۔ ڈاکٹر سمیحہ قاضی کے مضمون کا حاصل تھا کہ عورت کی عزت و توقیر کے اصل ضامن اسوۂ حسنہ اور نبی کریمﷺ کی طرف سے عطا کردہ حقوق ہیں۔
بلال بشیر کی تحریر بعنوان ’’ولادتِ مصطفی ﷺ سے قبل ظاہر ہونے والی نشانیاں‘‘ بھی بےحد معلوماتی تھی۔ اِسی طرح ’’رسول اللہ ﷺ، بحیثیت دوست‘‘ ایک مختصر تحریر میں بڑا سبق تھا کہ دوستی کا معیار کیا ہونا چاہیے اور پھرحقِ دوستی کیسے ادا کیا جائے۔
ریٹائرڈ ونگ کمانڈر محبوب حیدر سحاب کا’’یومِ دفاع‘‘ کے حوالے سے مضمون پڑھ کر جذبۂ حب الوطنی کچھ اور جواں ہوا۔ قائدِاعظم محمّدعلی جناحؒ کے سفرِ آخرت کے رُوداد پڑھ کر آنکھیں نم ہوگئیں۔ آج معلوم ہوا ہے کہ قائدِاعظم کی نمازِ جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے پڑھائی تھی۔’’جس گھڑی چمکا طیبہ کا چاند ؐ ‘‘ بڑا ہی ایمان افروز مضمون تھا، جس میں علامہ شبلی نعمانیؒ کی دل آویز سیرت نگاری کی جھلک بھی دیکھنے کو ملی۔
پروفیسر ڈاکٹر اسرار کا ’’آنکھوں کی تکالیف‘‘پرمضمون پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس بیش بہا نعمت کا بےاختیار اور بار بار شکریہ ادا کیا۔ صنوبر خان ثانی کی ماں سے متعلق تحریر’’ماں کوئی تجھ سا کہاں‘‘ پڑھ کر اپنے بچپن کے دن یاد آگئے، جب والدہ محترمہ بھی مکتب جانے سے قبل یوں ہی تیار کر کے، ناشتا کرواکے، سر کے بالوں کی مانگ نکال، ٹوپی پہنا اور آخر میں سُرما لگا کے، تھوڑا سا سُرما(ہلکاسا) پیشانی، ماتھے پر بھی لگا دیتیں کہ میرے لال کو کسی کی نظر نہ لگے، ہاتھ منہ صاف کرنے کے لیے جیب میں رومال بھی رکھ چھوڑتیں۔
اللہ، اللہ! کیسے سہانے دن تھے۔ اللہ تعالیٰ میری والدہ ماجدہ کو سلامت رکھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’مماثلت‘‘ اور ’’اپنا گھر‘‘ بھی عُمدہ نگارشات تھیں۔ ’’ایک کہاوت، ایک کہانی‘‘ پر تبصرہ پڑھ کر کتاب منگوانے کا ارادہ کیا اور آخر میں ہمارا محبوب صفحہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر مختلف مکتوب نگاروں کے خطوط کا بغور مطالعہ کیا۔ اس مرتبہ آپ نے بھی بڑی فیاضی سے کام لیتے ہوئے تفصیلی جوابات دیے۔ (حافظ عمرعبدالرحمٰن ڈار، ہرن مینار روڈ، شیخوپورہ)
ج: مائیں تو بس مائیں ہی ہوتی ہیں۔ اولاد کی صحت و سلامتی کے لیے مجسّم دُعاگو۔
آتے جاتے رہا کریں!!
آپ لوگوں کو بہت بہت مبارک ہو کہ جو لوگ کسی مقصد کے تحت زندگی گزارتے اور مسلسل مصروفِ عمل رہتے ہیں، وہ بہت پُرسکون اور خوش گوار زندگیاں پاتے ہیں۔ شمارے میں ’’روشنی کے مینار‘‘ سلسلے میں صحابیٔ رسولؐ حضرت حدیؓ بن حاتم طائی سے متعلق محمود میاں نجمی نے عقیدت و محبّت کے وہ خوش نُما پھول چُنے کہ جن کی مہک سے ہرسُو محبتِ انسانیت کی خوشبو پھیل گئی۔
’’رپورٹ‘‘ میں رؤف ظفر کی سُرخی ہی مضمون کا نچوڑ تھی کہ ’’سیلاب سے بچاؤ کے لیے بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے۔‘‘ وگرنہ تو78 سالوں سے کیا ہورہا ہے۔ آبی گزر گاہوں پر آبادیاں، ناقص میٹریل کا استعمال اور بے انتہا کرپشن کہ جہاں سو روپے لگانے ہیں، وہاں دس روپے بھی نہیں لگائے جاتے۔ فرحین العاص ’’مارگلہ ہل، نیشنل پارک‘‘ کا نوحہ لیے آئیں۔
تو ’’بلوچستان کی گرین بیلٹ‘‘ کی تباہ کاری بابت عبدالستار ترین کا قلم پارہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ جاگو جاگو، ورنہ حشر ہوا چاہتا ہے۔ منور مرزا نے ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ سے متعلق لکھا کہ یہ مغرب کے لیے اُبھرتا چیلنج بننے جارہی ہے۔ ہر دل عزیز فن کار، ایوب کھوسو کا کہنا بجا کہ فلمیں، ڈرامے تو تہذیبوں کے امین ہوتے ہیں، سبق آموز کہانیاں ہی معاشرتی اصلاح کا ذریعہ بنتی ہیں۔
پہلے والا بلوچستان نہ جانےکہاں کھوگیا کہ آج کے بلوچستان میں فن کاروں کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں رہی۔ کرن نعمان ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ماڈل صبا اقبال کے رنگین چشموں اور زبردست پہناووں سے متعلق رقم طراز تھیں۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں عرفان جاوید ’’ذکیہ مشہدی‘‘ کا فسانہ ’’ہم جیسے‘‘ لائے۔ تحریر کا ایک جملہ ہی سب کو لرزا دینے کے لیے کافی تھا کہ ’’دے دے سیٹھ۔ اِسی بات کا صدقہ دے دے کہ تُو ہماری طرح نہیں ہے۔‘‘
’’متفرق‘‘ میں محمد عمیر جمیل اور نصرت عباس داسو کے قلمی شاہ کار ’’سائنس کے امام‘‘، ’’ارتقاء کی سائنسی وفکری جہتیں‘‘ لائقِ مطالعہ تھے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں مہرمحمد بخش نول نے ماں سے متعلق جو لکھا، کمال لکھا۔ قرات نقوی کا تحریر کردہ واقعہ بھی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ اور اختر سعیدی کا زور آور قلم میگزین میں نئی رُوح پھونک دیتے ہیں۔
اسماء خان دمڑ، بلوچستان کا خُوب صُورت چہرہ لیے عرصے بعد آئیں اور ہمیشہ کی طرح چھا گئیں۔ باقی خطوط بھی زبردست تھے۔ ایک بار پھر اُن سب لکھاریوں سے بزم میں آنے کی گزارش ہےکہ جو آتے جاتے رہتے تھے، مگر اب نہ جانے کہاں کھوگئے ہیں۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپور خاص)
ج: ہاں ہاں بھئی، ہم بھی کہے دیتے ہیں’’ آتے جاتے رہا کریں۔‘‘
ہم اگر شاعر ہوتے...
؎ ’’ہرحسین منظر، استعارہ تیرے پیکر کا…‘‘ عبارت کے ساتھ، اسماء خان (ماڈل) ٹائٹل سے ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ تک جلوہ افروز تھی۔ حسین سراپے، خُوب صُورت پیراہنوں کے ساتھ شمارہ خُوب چمک دمک رہا تھا۔ یوں لگا، جیسے چاند زمین پر اُتر آیا ہو۔ خیر، زیادہ تعریف بھی نہیں کرتے کہ پھر خُردبین سے دیکھنے جیسا اعتراض لگ جائے گا۔ ہاں، ہم اگر شاعر ہوتے، تو جمیل ادیب سیّد کی طرح ایک ’’رُوپ متی‘‘ ضرور لکھ بھیجتے۔
اس بار رائٹ اپ شائستہ اظہر صدیقی نے لکھا اور خُوب ہی لکھا۔ خصوصاً یہ شعر کہ؎ مَیں تو اپنے آپ کو اُس دن بہت اچھی لگی… وہ جو تھک کر دیر سے آیا، اُسے کیسا لگا۔ کیا ہی کہنے، بھئی بہت خُوب۔ ’’اخبار والا، صحافت کا پاوا‘‘ منور راجپوت کی بہترین تحریر تھی، جس میں اخبار فروشوں کے تمام تر مسائل اجاگر کیے گئے اور درپیش مسائل و مشکلات کے کچھ حل بھی بتائے گئے۔
پرنٹ میڈیا کی اس ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے، ہنگامی بنیادوں پر گہری سنجیدگی سے سوچ و عمل کی ضرورت ہے۔ اس پر ہم بھی کچھ تجاویز دے سکتے ہیں، بشرطیکہ اِس لائق سمجھا جائے۔ ’’مالِ مفت‘‘اور’’مجبوری‘‘ بہترین تحریریں تھیں۔ شری مرلی چند گوپی چند گھوگھلیہ تو کافی لکی نکلے کہ اُن کو اعزازی کرسی پر بٹھانے کی سفارش کی گئی۔
اِس سفارش کے مدِنظر ہی، اور وہ بھی ایسی قاریہ کی طرف سے، جنہوں نے اسی واسطے ’’پہلی بار‘‘ اینٹری دی، ایک بار اعزاز سے نواز دیں۔ اگلا شمارہ ؎ تُو عروسِ شام خیال بھی، تُو جمالِ روئے سحر بھی ہے… جیسی عبارت سےمرصع تھا اور معصومہ (ماڈل) پیکرِ معصومیت ٹائٹل سے سینٹر اسپریڈ تک چھائی نظر آئی، خصوصاً تصویر نمبر7میں تو حُسن و دل کشی کا شاہ کار، مجسمۂ معصومیت لگی۔
سونے پہ سہاگا تحریر، ثانیہ انور نے لکھی اور ایسی لکھی کہ اگر تعریف لکھنے بیٹھوں، تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں سمیحہ راحیل قاضی کی تحریر’’میڈیا کا بڑھتا اثرونفوذ، ریاست اور صارفین کی ذمے داریاں‘‘ کے عنوان سے، انتہائی دانش مندانہ مشورہ جات اور ہدایات سے متصف تھی، جس پر ہر طبقۂ فکر کو گہری سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔
دیگر تحریروں میں ثانیہ انورکی ’’ماہِ اکتوبر کے اہم عالمی ایام، واقعات‘‘ کے عنوان سے بے مثال معلومات سے لب ریز تھی، تو’’نمشکار‘‘ کی دوسری و آخری قسط کے بھی کیا ہی کہنے، زاہدہ حنا کا اچھوتا، منفرد اندازِ تحریر بےنظیر ٹھہرا۔ ڈاکٹر بنیش صدیقہ نے ’’اردو زبان کی پہلی سفرنامہ نگارخاتون‘‘ کے عنوان سے تاریخ کے اوراق کو درست ترتیب دی۔
نیز، ایم شمیم نوید، قاضی جمشید عالم، حکیم سید عمران فیاض، شگفتہ فرحت، ڈاکٹر حسن راشد، عبدالرزاق باجوہ اور ثاقب نظامی کی تحریریں بھی لائقِ مطالعہ تھیں۔ قرات نقوی کی ای میل شاملِ اشاعت ہوئی۔
ٹیکساس کے خُوب صُورت مناظرکی تصاویر کا پڑھ کردل بلیوں اچھلنے لگا، جسے تھپک، تھپک کر سلایا کہ نادان! یہ قرعہ تو کسی اور کے نام نکلا ہے۔ (محمّد صفدر خان ساغر، نزد مکی مسجد، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج: الحمدُللہ، ثم الحمدُللہ کہ آپ شاعر نہیں ہیں۔ نہ ہونے ہی پر سہے نہیں ہوجاتے، ہوتے، تو اب تک… خیر، جانے دیں۔
فی امان اللہ
ماہِ ستمبر کا تیسرا شمارہ تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ، اکھیوں کےجھروکےسے دل کے کھوکھے میں سما گیا۔ عشّاق نے ستمبر کو ایویں ای ’’ستم گر‘‘ کےنام سے بدنام کیا ہوا ہے، یہ مہینہ تو خُود ’’ستم بر‘‘ ستم (ظلم) اُٹھانے والا ہے۔ سرورقی ماڈل گال پر انگشتِ حیراں دھرے گویا زیرِ لب تھی، ’’اوہ آئی سی‘‘۔ قبل ازیں دلِ ستم دیدہ، اِس شوخ ادا پہ آئی سی یو پہنچتا، سرعت سے اگلے صفحے پر پہنچ گیا۔
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے قلبِ حلیم کو جذبۂ ایمانی سے لب ریز کیا۔ ’’فیچر‘‘ کے تین صفحے ’’اخبار والا‘‘ کی داستان مشقّت سے عبارت تھے۔ اخبار فروش کو آپ نے بجا طور پر ’’صحافت کا پاوا‘‘ قرار دیا، کیوں کہ جس طرح ریاست کا چوتھا ستون ’’صحافت‘‘ کو کہا جاتا ہے، اِسی طرح اونر، پبلشر اور پرنٹر کے بعد ’’اخبار والا‘‘ صحافت کا چوتھا ستون ہے۔
’’حالات و واقعات‘‘ کے رُوحِ رواں منورمرزا کی چڑیا کو نِکی جئی برادر اسلامی ریاست قطر پر وڈے عالمی جگّے کے حملے پر مضطرب پایا۔ تاہم، اس شرانگیزی سے پاکستان کےلیےخیرکا پہلو یہ نکلا کہ واحد اسلامی ایٹمی ریاست کو عرب ممالک کے دفاعی قبلے کا مقام حاصل ہوگیا ہے، اِس لئی اک واری فیر…’’شہباز کرے پرواز…‘‘ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے، آگے آگے دیکھیے، ہوتا ہے کیا۔
اسٹڈی ریل نے اگلا پڑاؤ کیا، خوش رنگ صفحاتِ ’’اسٹائل‘‘ پر اورقدم رنجہ فرمائے بغیر رُخِ جمال سےیہ روپہلا ورق چُرالیا کہ’’حُسن وخُوب صُورتی کا سرچشمہ جسم نہیں، روح ہے۔‘‘ عالمی یومِ امن کے موقعے پر ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ سے امن کی سپید و سندس فاختہ اُڑائی گئی۔ اگر گجراتی بابو پُرامن رہ کر اپنے مغربی ہم سائےکی طرف دستِ دوستی بڑھائے، تو پھر از راجا پاکستانی ’’کبوتر جاجاجا کبوتر جا، پہلے پیار کی پہلی چٹھی ساجن کو دے آ…‘‘ ہی ہوگا۔
’’یادداشتیں‘‘ میں ڈاکٹر اسلم فرخی، تابش دہلوی کے انداز بیاں اور زبان دانی کے بجاطور معترف تھے۔ عرفان جاوید نے جو ہم سے افسانہ پسندوں کو حُسنِ انتخاب سے ’’نمستکار‘‘ (آداب عرض) کیا، تو اس سلامِ محبّت کا کوئی جواب نہیں سوجھا، سوائے اِس کے۔ ’’تینوں رب دیاں رکھاں میرے ڈھول سپاہیا‘‘ (اہلِ قلم ادبِ زندگی کے محافظ ہی تو ہوتے ہیں) ’’ڈائجسٹ‘‘ کو اس بار افسانہ و افسانچہ اور نظم و غزل کے ماہ چہار سے خُوب سجایا گیا۔
ہزار گز کی کوٹھی کی ’’مجبوری‘‘ دیکھی کہ اپنے محض چار بچّوں کو یک جا نہ کرسکی اور ’’مالِ مفت‘‘ کہنے کو ایک نکا جیہیا افسانہ، مگر حقیقتاً نوکر شاہی کی شاہ خرچیوں پر بڑا تازیانہ تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی ڈال پر دلِ بلبل نے جو تان لگائی۔ ’’میں شاعر ہوں…‘‘ تو جواب شیریں (مَیں ہوں تیری شاعری) کی بجائے آگئی، گرے لسٹ کی ڈائری۔
ہاہاہا مگر ’’ہائیڈ پارک‘‘ کے نہر والے پُل پر ریمبو ماہی نے جو صدا لگائی، تو شرفِ باریابی ملا اور باامتیاز ملا۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خطوط نویسی کی آکسیجن چیمبر روایت کو جس طرح ’’آپ کا صفحہ‘‘ نے حیاتِ نو بخشی ہے، اُس پر صاحبِ ادارت و صدارت لائقِ داد و تحسین ہیں۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
* ہم نے یحیٰ سنوار سے متعلق تحریر ای میل کی تھی، آپ کو مل گئی اور کیا قابلِ اشاعت ہے؟؟ (سونیا عباس علی قریشی، حیدرآباد)
ج: ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں نام شامل ہو چُکا ہے۔
* آپ کا رسالہ بہت اچھا ہے، مجھے پسند ہے، لیکن چند ماہ سے نوٹ کررہا ہوں، ناقابلِ فراموش کاصفحہ یک سرفراموش کردیا گیا ہے۔ براہِ کرم اِسے دوبارہ شیڈول کرنا شروع کریں، یہ متعدّد قارئین کا پسندیدہ بلکہ ہر دل عزیز ہے۔ (ضمیر اکرم)
* نیا سلسلہ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘بہت ہی زیادہ پسند آیا۔ عرفان جاوید کی تو کیا ہی بات ہے۔ ہر بار خاصّے کی چیز لاتے ہیں۔ ’’اسٹائل بزم‘‘ میں گہرا پِیچ لباس ڈھونڈے سے بھی نہیں ملا۔ فرخ شہزاد 1935ء کے کوئٹہ زلزلے کی خونی داستان سُنا رہے تھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانچہ ’’یاد‘‘ دل کوبہت بھایا۔ کراچی، خاص طور پر اورنگی ٹاؤن سے خط نگاروں کے خط پڑھ کے ایک اپنائیت کا احساس ہوتا ہے کہ میرا پورا بچپن وہیں گزرا۔
ایک زمانے سے میرا پسندیدہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ غائب ہے۔ اگلے شمارے میں حضرت ابوذر غفاریؓ سے متعلق معلوماتی مضمون پڑھا۔ ہر مہینے کی مناسبت سے ہم ایام کا سلسلہ شان دار ہے، خصوصاً اشعار کا چناؤ کمال ہوتا ہے۔ کیا خُوب صُورت شعر تھا؎ گھر کی اس بار مکمل مَیں تلاشی لوں گا …غم چُھپا کر مِرے ماں باپ کہاں رکھتے تھے۔ چین کے دورے کا احوال اچھا تھا۔
ڈاکٹر معین گزرے دَور کی حسین روایت پیغام رسانی پر یادوں سے بھرپور نگارش لائے۔ مجھےاسکول کا زمانہ یاد آگیا، جب ہمیں درست طریقے سےخط لکھنا سکھایا جاتا تھا۔ جون کے پہلے شمارے کی ہر تحریر ایک سے بڑھ کر ایک تھی۔ صوفی تبسم پہ چھوٹی سے تحریر مزے کی تھی۔ ’’عفو ودرگزر‘‘ کے عنوان سے شایع ہونے والی تحریر ’’ناقابل فراموش‘‘ کی لگی، لیکن ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحے پر شایع ہوئی۔
ایک پیغام سلسلے میں شری مرلی چند کا پیغام پڑھ کے حیرت ہوئی۔’’فادرز ڈے اسپیشل‘‘ کی بھی ساری تحریریں لاجواب تھیں۔ ’’شاہ محمّد کا تانگا‘‘ کی توکیا ہی بات تھی۔ ’’گھنا سایا‘‘ بھی جذباتی سا کر گیا۔ ’’آپ کاصفحہ‘‘ میں محمّد ادریس نے تاریخ کے اہم خطوط پر تبصرہ کیا، تو پڑھ کے بہت ہی مزہ آیا۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk