• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آفاق اللہ خان

صحن میں کھڑی موٹر بائیک کو اسٹارٹ کرنے کے لیے جب مَیں نے دسویں کک ماری، تو حالت خراب ہو گئی، مگر وہ ٹس سےمس نہ ہوئی۔ مَیں بھی ہمّت ہارنے والا نہ تھا۔ اب جو گیارہویں کک کے لیے پیر ہوا میں بلند کیا، تو اچانک بیگم کی آواز نے چونکا دیا۔ وہ نہ جانے کب سے چُپ چاپ کھڑی میری حرکات و سکنات کا جائزہ لے رہی تھی۔ ’’بس رہنے بھی دیں خان صاحب! بہت ہوگئی۔ مَیں اِس بے چاری پر مزید ظلم برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘

مجھے بھی سانس لینے کا موقع مل گیا اور گیارہویں کک مارنے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے بیگم سے کہا۔ ’’اگر آپ کو مونث ہونے کے ناتے اس سے ہم دردی ہے تو اور بات ہے، لیکن اِس نے مجھے پریشان بہت کیا ہے۔‘‘ ’’قصور اس بے چاری کا نہیں۔‘‘ بیگم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ’’آپ اس کی ٹھیک سے دیکھ بھال ہی نہیں کر رہے ہیں، کتنے دن سے کہہ رہی ہوں کہ اِسے کسی اچھے میکینک کو دکھائیں، لیکن آپ کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔‘‘ ’’آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں، لیکن کیا کریں۔ اول تو اچھے میکینک ملتے نہیں اور جو دو ایک مشہور ہیں، وہ اتنے پیسے لیتے ہیں کہ سارا بجٹ ہی بگاڑ کے رکھ دیتے ہیں۔‘‘ بہرحال بیگم نےمشورہ دیا کہ ’’کلّو میکینک سے رجوع کریں‘‘۔ مجھے پتا تو تھا کہ کلّو میکینک کھال کھینچنے کا ماہر ہے، لیکن اب بیگم نے خُود ہی اجازت دے دی تھی، تو مَیں نے بھی دل کڑا کرکے اس کے پاس جانے کا ارادہ کرلیا۔

جب مَیں کلّو کی ورک شاپ پر پہنچا، تو وہاں اُس کا ایک سینئر ساگرد شجّو ایک موٹر بائیک پر جُھکا اُس کا کام تمام کرنے میں مصروف تھا۔ آہٹ پا کر چونکا۔ ’’السلام علیکم سر۔‘‘ اُس نے مُسکرا کر میرا استقبال کیا۔ ’’وعلیکم السلام۔ کیسے ہو؟‘‘ ’’ٹھیک ہوں جی، اللہ کا شُکر ہے۔ آپ کیسے ہیں؟‘‘ ’’مَیں بھی ٹھیک ہوں، اللہ کا بڑا کرم ہے۔ استاد نظر نہیں آرہے۔‘‘ سلام دُعا کے بعد مَیں نے پوری دکان پر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔ ’’استاد اندر والے کمرے میں ہیں۔‘‘ شجّو نے مُسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ایک نیا لڑکا پپو نام کا آیا ہے۔ 

استاد آج کل اُسے ٹریننگ دے رہے ہیں۔ ابھی تو اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ غلطی پہ غلطی کر رہا ہے، تو استاد اس کی خُوب دھنائی کر رہے ہیں۔‘‘ ’’استاد کب باہر آئیں گے؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔ ’’ارے سر! آپ اندر چلے جائیں ناں، پپو کی جان بھی چُھوٹ جائے گی اور استاد سے آپ کی بات بھی ہو جائے گی۔‘‘

شجو نے آہستگی سے کہا۔ مَیں اندر گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک دس بارہ سال کا لڑکا بھیگی بلی بنا کھڑا ہے اور استاد نے ہاتھ میں بیلٹ پکڑ رکھی ہے۔ ’’اب اگر تُونے مجھے غلط اوزار پکڑایا، تو اس بیلٹ سے تیری وہ دھنائی کروں گا کہ چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا۔‘‘ ’’نہیں استاد! اب غلطی نہیں ہوگی۔‘‘ وہ گھگھیا رہا تھا۔ استاد کی پشت میری طرف تھی۔ ’’ہاں، اب اگر غلطی کی تو تیری…‘‘ لیکن اِس سے پہلے کہ استاد غریب پپو کے بےقصور ’’اہلِ خانہ‘‘ کا نام لیتے، مَیں بول پڑا۔ ’’ارے استاد! اب جانے بھی دو۔ 

بچّہ ہے آہستہ آہستہ سیکھ جائے گا۔‘‘ استاد نے چونک کر منہ میری طرف کیا۔ ’’ارے آپ کب آئے؟‘‘ ’’بس ابھی آیا ہوں۔‘‘ مَیں نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’سمجھ گیا ناں، الو کے چرخے… خان صاحب کی وجہ سے تجھے چھوڑ رہا ہوں، ورنہ یہ بیلٹ دیکھ رہا ہے ناں؟؟‘‘ استاد نے ایک مرتبہ پھر بیلٹ ہوا میں لہرایا۔ ’’اِس کی مار سے سارا سبق یاد ہو جاتا ہے۔‘‘ اور پھر بیلٹ ایک طرف اچھال کر بولا۔ ’’یہ جو گاڑیاں کھڑی ہیں، اِن کو اچھی طرح کپڑا مار۔ مَیں ذرا خان صاحب سے بات کرلوں۔‘‘اور پھر مجھے مخاطب کیا۔ ’’آئیے سر! ہم باہر بیٹھتے ہیں۔‘‘ ہم لوگ باہر کی طرف آگئے، جہاں دو ٹوٹی پھوٹی کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک کی تو حالت بہت خراب تھی، دوسری کچھ بہتر تھی۔ استاد نے بہتر والی کرسی پر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور استاد خُود دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔

’’اوئے شجّو!‘‘ استاد نے بڑے لڑکے کو آواز دی۔ ’’جا سامنے والے ہوٹل سے دو دودھ پتّی لے کے آ۔ اگر دیر کی تو سالے تیری…‘‘ استاد نے اپنا تکیہ کلام دہرایا۔ ’’جی استاد… ابھی گیا اور ابھی آیا۔‘‘ ’’ہاں تو سر! آپ بتائیے کیا مسئلہ ہے۔‘‘ بالآخر استاد میری طرف پوری طرح متوجہ تھا۔ ’’گاڑی مسنگ کررہی ہے۔ 

پیٹرول زیادہ کھا رہی ہے یا پتا نہیں پلگ کا مسئلہ ہے؟‘‘ ’’مَیں نے پہلے بھی آپ سے کہا تھا، اِس کی ٹیوننگ اور اوور ہالنگ کروا لیں۔‘‘ استاد نے فوراً کہا۔ ’’پچھلے مہینے ہی تو کروائی تھی۔‘‘ مَیں منمنایا۔ ’’پھر تو لمبا ہی رپھڑا ہے۔‘‘ استاد نے معنی خیز مسکراہٹ سے کہا۔

جس کا مطلب مَیں اچھی طرح سمجھتا تھا۔ ’’اچھا سر! آپ ایسا کریں گاڑی چھوڑ جائیں، دو گھنٹے بعد چکر لگا لیں۔‘‘ ’’استاد! ایک ٹائم بتا دو، گاڑی مجھے ہر حال میں آج ہی چاہیے، صُبح دفتر بھی جانا ہے۔‘‘ مَیں نے بار بار کی خواری کے خوف سے کہا۔ ’’تو پھر آپ رات دس بجے آجائیں۔ اِن شاء اللہ گاڑی آپ کو ریڈی ملے گی۔‘‘ استاد نےگویا معاملہ ڈن کر دیا۔ 

مَیں نے فوراً اُٹھنے کی کوشش کی، تو استاد کسی قدر غصّے سے بولا۔ ’’ارے وہ چائے جو آرہی ہے، وہ… استاد بولتے بولتے رُک گیا۔ مجھےلگا، جیسے وہ کہنا چاہتا ہو، وہ چائے جو آرہی ہے، وہ تمہارا باپ پیے گا۔ ’’ارے! مَیں تو بھول ہی گیا تھا۔‘‘ میں فوراً کرسی پہ دوبارہ ڈھے گیا۔ اتنے میں چائے آگئی۔ ’’ابے کہاں مرگیا تھا سالے…‘‘ استاد نے شجّو پر چنگھاڑتے ہوئے کہا۔ ’’استاد! ہوٹل پہ رش بہت تھا۔‘‘ شجّو مسکینیت سے بولا۔ چائے پی کر مَیں وہاں سے رخصت ہوا۔

گھر پہنچا تو ٹی وی پر خبریں چل رہی تھیں۔ ایک نجی اسکول کے استاد کو دورانِ کلاس دو طالبِ علموں کو موبائل فون پر گیم کھیلنے سے منع کرنے پر اُس کے شاگردوں نے سخت تشدّد کا نشانہ بنایا تھا۔ تفصیل کے مطابق دو طالبِ علم کلاس روم میں لیکچر کے دوران موبائل فون پر گیم کھیل رہے تھے، جس پراستاد نےمنع کیا۔ 

وہ باز نہ آئے، تو اُنہیں کلاس سے باہر جانے کو کہا، وہ چلے تو گئے، لیکن استاد کو دھمکی دے گئے کہ اُسے اِس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔ اور دوسرے دن صُبح جب استاد اسکول پہنچے، تو انہیں طلباء نے اپنے دیگر ساتھیوں کی مدد سے اغوا کر لیا اور ایک گاڑی میں ڈال کر نامعلوم مقام کی طرف لے گئے، جہاں اُن پر تشدد کیا اور پھر زخمی حالت میں اسکول کے دروازے پر چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ اور اس سلسلے میں اسکول انتظامیہ کی جانب سے تاحال کسی بھی تھانے میں رپورٹ درج کروانے کی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔

خبریں سُنتے سُنتے مَیں سو گیا۔ آنکھ کُھلی تو کافی دیر ہو چُکی تھی۔ اچانک مجھے بائیک کا خیال آیا۔ مَیں نے جلدی جلدی تیاری کی اور جب کلّو میکینک کی ورک شاپ پر پہنچا، تو دس بجنے ہی والے تھے۔ وہ ایک ٹوٹے پھوٹے صوفے پر لیٹا ہوا تھا اور دونوں شاگرد اس کے پاؤں دبا رہے تھے۔ ’’آئیے سر …‘‘ کلّو نے مجھے دیکھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں آپ ہی کا انتظار کررہا تھا۔ دکان بند کرنے کا ٹائم ہوگیا ہے۔

آپ دو منٹ بیٹھیں، مَیں گاڑی لے کر آتا ہوں۔‘‘ استاد اُٹھنے لگا۔ ’’استاد! ان لڑکوں کو بھیج دو ناں۔‘‘ مَیں نے اُسے اُٹھتے دیکھ کر کہا۔ ’’اصل میں بل بنا کر بھی رکھا ہوا ہے ناں، اِن کو اُس کا پتا نہیں، مَیں ابھی آیا۔‘‘ استاد کے جانے کے بعد مَیں نے لڑکوں سے کہا۔ ’’بھئی شاباش ہے تم پر، جو استاد کی اتنی ڈانٹ اور گالیاں کھا کربھی اُس کی اتنی خدمت کرتے ہو۔‘‘ دونوں لڑکوں نے مُسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھا اور بیک زبان بولے۔ ’’سر!! استاد تو باپ کی جگہ ہوتا ہے۔ 

اُس کی ڈانٹ، گالیوں میں تو ہمارے لیےسبق ہے۔ وہ ہمیں ہنربھی تو سکھاتے ہیں، جو زندگی بھر ہمارے کام آتا ہے۔‘‘اتنے میں استاد گاڑی لے کر آگیا۔ ’’لیجیے سر! مَیں نے گاڑی زیرو میٹر کر دی ہے، چل بے پپو گاڑی پر کپڑا مار۔ شجّو تُو کھڑا کیا دیکھ رہا ہے، سر کو گاڑی اسٹارٹ کرکے دِکھا۔‘‘ شجو نے ایک کک ماری اور گاڑی اسٹارٹ ہو گئی۔ ’’واہ استاد! یہ تو کمال ہو گیا۔‘‘ مَیں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’کلّومیکینک یونہی تومشہورنہیں ہے۔‘‘یہ کہتے ہوئے استاد نے ایک لمبا پرچہ نکال کر میرے حوالے کیا۔ بل دیکھ کر بقول شاعر میں بلبلا ہی گیا، مگر اندازہ تھا کہ یہی ہونا ہے۔

گھر پہنچا تو ٹی وی پر وہی اسکول کے استاد والی خبریں چل رہی تھیں۔ تاحال اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی تھی۔ جانے کیوں مجھے کلّو استاد یاد آگیا۔ مَیں نے ٹی وی بند کیا اور بستر پر لیٹ گیا اور پھر نیند کی آغوش میں جانے تک، مَیں دل ہی دل میں اِن تعلیم یافتہ اور اَن پڑھ استادوں، شاگردوں کا موازنہ ہی کرتا رہا، جانے کیوں…!!

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘

٭تلخ حقیقت (اسماء راشد طور، جہلم) ٭ ناول کیفی (بلال اسلم) ٭ زندگی ہے تو ، مدد، مَیں عورت (مبشرہ خالد، کراچی) ٭ دس دن کی خدمت، کبھی دکھ، کبھی سکھ (بلقیس متین، کراچی) ٭ لاپروا کون (زہرا یاسمین، کراچی) ٭ گورکھ دھندا (حریم شفیق، سواں گارڈن، اسلام آباد) ٭ کم زوری، (محمد زاہد، فیصل آباد) ٭ اقوال (محمد صفدر خان ساغر، مکی مسجد، راہوالی، گوجرانوالہ) ٭ درد بھی کھینچ میری تصویر کے ساتھ (رامین راجپوت) ٭ سایہ، جو رخصت ہوا (زینب امیر) ٭ رستوں کی ڈور (فوزیہ جمیل) ٭ استاد (عرشمہ عمر)۔