دعا عظیمی
’’سارے کاموں، ساری باتوں اور اپنے درد کو وقت کے آتش دان میں جھونک دو۔ بی بی صاحبہ! اور جلتی بلتی لوک کہانیوں کی داستان سنو۔‘‘وہ بڑے پریم سے دل جوئی کر رہا تھا۔ باہر تواتر سے برف باری ہو رہی تھی۔ آسمان سے روئی کے گالے ایسے اُتر رہے تھے، جیسے محبّت کرنے والے دل میں آرزوؤں کی بارش…ملن کی چاہ…رفاقت کا خواب۔ ’’اِدھر اور قریب ہو جاؤ۔‘‘الاؤ روشن تھا۔
ماحول خواب ناک۔ وہ کھسک کے تھوڑا سا اورقریب ہوگئی۔ ’’لوک گیتوں میں بسے پیار کے دو کرداروں عاشری بانو اور علی شیر کی کہانی سناؤں…؟‘‘ ’’ہاں ضرور!‘‘رات کے اس پہر دونوں کی آنکھوں سے نیند کوسوں دُور تھی۔ وہ زمانوں کے سفر میں جانے کب سے نہیں سوئے تھے۔ لڑکے نے لوک کہانی کہنی شروع کی۔
’’عاشری بانو اور علی شیر کی محبت کی داستان… جس کے گواہ دریا، پہاڑ اور سیب اورخوبانیوں کے باغ ہیں۔ اُن کی کہانی اُس وقت شروع ہوئی، جب گہری بھوری شاخوں پر کاغذی سفید پھول اُگنے لگے۔ ہوا کے ساتھ جھولتے تو ایسا لگتا، کوئی نوخیز پھولوں بھرے گجرے پہنے ہُلارے لے رہی ہو۔ جس کا دل ہر ہُلارے کے ساتھ چھلک چھلک جائے… یہ وہ رُت تھی، جب وادی نے برفانی چوبہ اُتار پھینکا تھا۔ ہاں بی بی! ہم اُسے چوبہ کہتے ہیں، جسے تم چوغا کہتے ہو۔‘‘
’’اچھا…!‘‘ لڑکی کی آنکھوں میں دل چسپی سے ستارے سے چمکنے لگنے۔’’بہار یعنی فسِ نو کا میلہ ابھی ہو کے گزرا تھا، جس میں وادی کے لوگوں نے فطرت کی بانہوں میں بانہیں ڈالے وفورِمسرت سے’’چاپ‘‘ کا رقص کیا۔ چاپ کے اُس رقص میں لوگ دائروں میں گھومتے ہیں۔
سُرمئی پہاڑوں کے سائے میں رہنے والوں نے پھول دار جھاڑیوں کی اوٹ میں چُھپے چیریز کارس پینے والے پرندوں سے سیکھے ہوئے مدھ بھرے گیت گائے۔ جس کے ہر لفظ میں چھلیں مارتے دریا سے محبّت کا اظہار ہے۔ اُسی میلے میں علی شیر اور عاشری بانو نے محبت کے جادو بھرے محل میں قدم رکھ دئیے۔ اُن کی رُوحوں نے محبّت کے جام پیے، کلام کیا۔‘‘
لڑکی نے ایک گہری ’’ہوں‘‘ کا ہنکارا بھرا اور وقت کےحاضر پردۂ سیمیں سےغائب ہوکر قدیم جادو بھری کہانی کے چوبی دروازے میں داخل ہوگئی۔ لڑکا بھی قصہ سناتے ہوئے جیسے تصوّر میں خپلومحل کے اندرونی وسیع وعریض صحن سے ملحقہ بالکنی میں بیٹھ گیا۔ دیواروں پہ بنے نقش کھوجتی بی بی، جس کے پاؤں میں موٹے سفید اور کالے جاگرز تھے۔
یہ سچ تھا کہ عاشری بانو کےمحبوب کے پاؤں مٹی کی مہک سے اٹے تھے اور ہاتھوں پر باپ کی زمین پر کام کرنے کے سبب گٹھلیاں صاف نظر آتی تھیں۔ پہلی بار خوبانیوں کے باغ کے قریب جَو کی فصل کے لیے زمین ہم وار کرتے ہوئے عاشری بانونے علی شیر کی سخت ہتھیلی پر پیار بھری نظر ڈالتے ہی تشویش کے سے انداز میں پوچھا۔ ’’یہ تمہارے ہاتھوں پہ گٹھلیاں سی کیوں ہیں؟ یہ کیسے بنیں؟‘‘ وہ مُسکرادیا۔ ’’امیر زادی! یہ محنت کے نتیجے میں پڑنے والی گٹھلیاں ہیں۔ اور محنت کرنے والے ہاتھ دھرتی ماں کو محبوب ہیں۔‘‘ تو اُس کو لگا، جیسے یہ ہاتھ اُسے بھی محبوب ہیں۔
دونوں کے نرم قلوب کی زمین پر محبت کا پہلا دانہ گرچُکا تھا۔ اپنی منزل کی تلاش میں گھپ اندھیروں میں روشنی بن کر نمو پانے لگا۔ وہ بیج، کائناتی اصول کے تحت پہلے شق ہوا۔ زمین کی ساتویں تہہ کے نیچے اُسے مطلوبہ روشنی اور نمی مل گئی۔ اور اس میں جان پڑنے کا کرشمہ لرزنے لگا۔
لڑکی ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔ ’’سردی لگ رہی ہے؟‘‘ اُس کی مُنی سی پھینی سی ناک سُرخ ہورہی تھی۔ آتش دان میں شعلے سرد پڑ رہے تھے۔ ’’مَیں اور آگ جلاتا ہوں۔ اور یہ چائے پیو اس سے سردی کو آرام ملے گا۔‘‘ اُس نے پاس پڑی صراحی نما چینک سے ایک چھوٹی سی شیشے کی نازک گلاسی میں مکھن والی نمکین گرگر بٹر ٹی انڈیلی، تو بھاپ سے شیشے کا رنگ دھندلا گیا اور بھاپ لرزتی کانپتی اوپر کو اُٹھنے لگی۔
ماحول میں چائے کی مہک، خوبانیوں کےباغ کے پس منظر میں اُگی کہانی، نارنجی شعلوں سے نکلتی کڑکڑاتی لکڑی کی آواز اور دریائے شیوک کی تیز دھاڑ نے عجیب ساسماں باندھ دیا تھا۔ ’’لوک کہانیوں کے بھید ایک سے ہوتے ہیں۔‘‘ اُس نے بھیڑوں کی اون سے بنی اونی گرم شال کو کندھوں پہ کس کے لپیٹا۔ ’’بلکہ ہم سب انسانوں کے رومان بھرے بھید…‘‘ ’’تم نے میٹھی خوبانیاں کھائی ہیں کبھی بی بی؟‘‘
’’ہاں، بالکل۔ مجھے بہت مرغوب ہیں۔‘‘ ’’کیا خشک بھی پسند ہیں، جو تھوڑی سی کھٹی ہوتی ہیں؟‘‘ ’’ہاں۔ مجھے دونوں بہت پسند ہیں۔‘‘ لڑکی نے محبّت سے کہا۔ خوبانیاں اُسے اچھی لگتی تھیں، ان کی پیلی اور شہابی رنگت، چُھونے پر نرمگیں احساس اور کھانے میں لطیف مٹھاس اور کھٹاس دونوں ہی۔ تب ہی تو وہ اِس موضوع کو لے کرعملی میدان میں اُتری تھی۔
خوبانیوں کو خشک کرنے کے روایتی طریقوں کی بجائے جدید طریقے کون سے ہو سکتے ہیں۔ اُس کی ٹیم واپس جا چُکی تھی۔ جانے کیا سوچ کر اُس نے کچھ دن اور رکنے کا ارادہ کیا۔ معلوم نہ تھا کہ تقدیر کچھ اور کرنے جارہی ہے۔ دو پاؤں پہ چل کے آنے والی کو ایک پاؤں پہ چلنا پڑ رہا تھا۔
ایسے میں اُسے مدد کی شدید ضرورت تھی۔ یہاں کے ہرمکین کے مکان کا دروازہ اس کے لیے کُھلا تھا، مگر اُس نے وہاں رہنا مناسب سمجھا، جہاں ایک اُردو بولنے والا، بہت پیاری اُردو میں بات کرتا تھا۔ اور اُسے خاص مساج سے ہڈی اپنی جگہ واپس بٹھانے کا طریقہ آتا تھا۔
’’کیا میں کہانی کو آگے بڑھاؤں…؟‘‘ ’’ہاں ضرور، مگر مجھے لوک کہانی کاوہ حصّہ سناؤ۔ بھلا عاشری کی محبّت کی عُمر کیا رہی ہوگی؟‘‘
’’مَیں سمجھا نہیں۔‘‘ لڑکے نے استفسار کیا۔ ’’عاشری کی عُمر؟‘‘’’نہیں…اُن کی محبت کی؟‘‘
’’اچھا محبّت کی… ہوسکتا ہے، بہت دیر نہ رہی ہو۔ ہوسکتا ہے، بس اُتنی ہی، جب درخت کی ٹہنیوں پر پھول کھلے اورچند روز ہوا میں بہار کےسنگ مسکرائے۔جب ٹہنیوں نے سفید عروسی لباس پہنا اور اُتار دیا۔ ہوسکتا ہے، اُن کی محبّت کا عرصہ اِسی قدر مختصر ہویا ممکن ہے، اُن کی محبّت نے کچھ موسم زیادہ دیکھے ہوں، مگر اِس سے فرق نہیں پڑتا۔
وہ پل کتنے مختصر تھے یا کتنےطویل… مگر وہ امر ہوگئے۔‘‘ ’’کیا اگر کوئی خوبانی کی محبّت میں مبتلا ہوجائے تو…‘‘ ’’تو وہ ہر موسم میں یہاں آیا کرے۔ جب بور لگنے لگے۔ جب پھول گرنے لگیں۔ جب پھل اُگنے لگے۔ جب پھل پکنے لگے۔ جب پھل خشک ہونے کے عمل سے گزرے۔ جب…‘‘ ’’تو، تمہارا مطلب ہے وہ یہیں رہ جائے۔‘‘ ’’ہاں…!!‘‘ لڑکے نے دل کی بات کہہ دی۔
’’خوبانی کے پھولوں کی پتیاں کتنی ہوتی ہیں…‘‘ ’’پانچ… پانچوں پتیاں پہلے ہلکی سفید اورنیم گلابی سی ہوتی ہیں، پھر اُن کا رنگ مدھم پڑجاتا ہے اور وہ دھیرے دھیرے مرجھا جاتی ہیں، مگر وہ اپنا جوہر ڈوڈے کو سونپ دیتی ہیں۔ ایک بڑے دانے کی شکل میں۔ کچے سبزرنگ کے نرم پتّے اُنہیں چار اطراف سے ڈھانپ لیتے ہیں۔‘‘’’اوہ اچھا! پھول سے پھل تک کا نازک سفر ہے۔‘‘
لڑکی نے دوبارہ لوک داستان کی طرف توجّہ دلائی اور سوال فضا میں سرگوشی کی صُورت پھیلا۔ ’’ تو آخری بار وہ کہاں ملے تھے…؟؟‘‘ ’’اُس وقت گرمیوں کے دن تھے اور وہ رسیلی خوبانیوں تلے آخری بار ملے تھے۔ جب ہچکیوں کے ساتھ محبوبہ نے اپنے محبوب کو گلے لگایا اور بچھڑتے ہوئے کہا۔ کہ ہمارا ملن نہیں ہو سکتا۔ بی بی جان!! کیا تم لوک کہانی میں رچےاس درد کو سہہ لو گی؟
جب میٹھی خوبانیاں رسیلی ہوجائیں اور پھل پک کر شاخ سے گرنے لگے تو اس کا غم بڑے بڑے دل توڑ دیتا ہے۔‘‘ لڑکا کالی رات میں گہری باتیں کرنے لگا۔ ’’کیوں کہ ہر گہری محبّت روح کی پہنائیوں میں اُن زمزموں سے پھوٹتی ہے، جن کا پانی اکثر کھارا ہوتا ہے۔ مگر… ہم انجام سے دُکھی کیوں ہوں؟
ہم اُن کےآغاز میں کیوں نہ کھو جائیں…؟‘‘ کہانی گو لڑکے نے خُود ہی حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’جب شاخوں پر پھل کی خاطر پھول اُگتا اور… اپنی ننّھی مُنی آنکھیں کھولتا ہے۔ دھنک سے من مرضی کے رنگ چُراتا ہے اور ان کے مرنے کے بعد بھی اگر اس خطے کے باسی اس بات کی گواہی دیں کہ اُن کی محبّت کی امرتا سے پکی ہوئی سنہری خوبانیاں رسیلی اور میٹھی ہوگئی ہیں۔
اُنہیں اُن کی محبت سے منسوب کریں، تو پھر تو دُکھ، شام کے سورج کے ساتھ کہیں دور ڈھل جائے گا۔‘‘ ’’ہاں یہ تو ہے…‘‘ لڑکی بے اختیار بولی۔ خاص طور پر جب بھیڑیں چراتی لڑکیاں گیت گاتے ہوئے اُن کی محبت کو سُرمیں گائیں گی۔‘‘ حسین چمکتی جِلد، کشادہ ماتھے والے نوجوان نے اُسے بھی اپنے خیالات کی رَو میں بہا دیا۔ جیسےوہ دریائے شیوک کے کنارے بیٹھے ہوں۔
وہ کہیں عاشری بانو تو نہیں؟ اُس کی رُوح نے اس کے جسم کی قبا تو نہیں اوڑھ لی۔ اس نے جھرجھری لی اور اپنے پلستر والے پاؤں پہ انگلیاں پھیرنے لگی۔ کہیں اس کے بدن کے محل سرا پرکسی قدیمی کردار کا قبضہ تو نہیں ہورہا۔ اُسے پہاڑوں کی گود میں بنا خپلو پیلس، راجا کا محل یاد آنے لگا، جس کی چار منزلیں تھیں، مگر وقت نے اس کا رنگ وروغن چُرا لیا تھا۔ یہ اور بات کہ وقت کے راجا، آغا خان نے اُسے دوسرا جنم عطا کیا۔ تاریخی لائبریری کی شکل دے دی۔ چوٹ سے پہلے اُس نے وہاں کافی وقت گزارا تھا۔ باقی سب سوگئےتھے۔ سارے منظرغائب ہوچکے تھے۔
فقط کہانی اور جلتے شعلوں کا احساس ماحول میں حدّت پیدا کررہا تھا۔ ’’یہ کہانی گو کس قدرحسین ہے۔‘‘ لڑکی نےغور سے دیکھا۔ یہاں کے باسیوں کی شکل وصُورت اور سیرت سب پر فرشتوں کے نورانی پَروں کا عکس ہے۔ لڑکا دوبارہ کہانی سُنانے میں کھو گیا۔ اُس نے آگ کے شعلوں کو تکتے اپنی بھاری، مگر نرم آواز میں کہا۔ ’’خوبانیوں کے باغ میں جنم لینے والی اس محبت کے کرداروں کو باقیوں کی طرح رسم و رواج نے ایک نہیں ہونے دیا۔
وہ ایک معمولی کسان کا بیٹا تھا اور عاشری بانو کا باپ رئیس زادہ تھا۔‘‘ ’’اوہ…! پھر…؟‘‘ ’’ پھر کیا، خوبانی کے پھول کی طرح اُن کی محبّت بھی رنگ بدلتی رہی اور ایک روز شاخِ حیات سے جدا ہو گئی۔‘‘’’مجھے علی شیر اور شری بانو کے لیے درد محسوس ہو رہا ہے۔‘‘ لڑکی نے کہا۔ ’’علی شیر اور عاشری بانو نے کبھی لوک کہانیاں نہیں سنی تھیں…؟‘‘ ’’معلوم نہیں۔‘‘ لڑکے کی آواز میں سنجیدگی تھی۔ ’’اگر اُنہیں پتا ہوتا، تو وہ کبھی محبّت نہ کرتے۔‘‘ ’’بی بی صاحبہ! محبّت کبھی کوئی کرتا نہیں ہے۔ یہ تو وقت کی سانجھ سویر ہے۔ دھرتی پہ اُترنے سےاِسے کون روک سکتا ہے؟ من مرضی کی مالک، دریا جیسی منہ زور۔ ہم اپنے جنم سے پہلے سے اِس سے آشنا ہیں۔‘‘
لڑکی ہنوز لوک کہانی کے غم کے حصار میں تھی۔ وہ افسردگی سے پوچھنے لگی۔ ’’علی شیر نے کیا کہا یہ سن کر…؟‘‘ قراقرم کے پہاڑوں کو چیر کر لداخ سے ہوتا ہوا شیوک جس مقام پر بلتستان میں داخل ہوتا ہے، شاید اس جگہ یا جہاں دریا کا پاٹ چوڑا ہوجاتا ہے، اُس نے خُود کو دریا سپرد کردیا۔‘‘ ’’اوہ! کیا اِسی لیے شیوک کو موت کا دریا کہتے ہیں؟‘‘ لڑکا ہنسا۔ اُس کے موتی سے دانت چھب دکھا کے غائب ہوگئے۔ ’’نہیں بی بی! دریا تو زندگی دیتا ہے، ہماری زمین کو، ہماری فصلوں کو۔ ہاں، مگر اُس کے نام کا مطلب موت ہی ہے، کیوں کہ تب پُل کچے ہوتے تھےاور بہت سے لوگ مر جاتے تھے۔
اب ایسا نہیں ہے، مگر اس کا نام شیوک ہی ہے۔‘‘ ’’کیا عاشری اُس وقت وہیں تھی، جب وہ دریا میں ڈوب گیا…؟‘‘ لڑکی نے بےتابی سے پوچھا۔ جیسے اُس کے اختیار میں ہو تو وہ وقت کی طنابیں کھینچ لے اور دونوں کو ہمیشہ کے لیے محبت بھرا جیون واپس لوٹا دے۔ کہانی گو لڑکے نے بھاری، سنجیدہ آواز میں کہا۔ ’’اس سے محبت کرنے والی اُس میں ایسے ضم ہوئی، جیسے اسکردو کے پاس آ کر شیوک دریا سندھ دریامیں جا گرتا ہے۔‘‘
وہ اُس لمحے اپنے زخمی پاؤں کا گہرا ہوتا درد بھول گئی تھی۔ اُنہوں نے چاندی کے رنگ کے تھال کو اپنے قریب کرلیا، جس میں خشک خوبانیاں، میوے اور چِھلے ہوئے اخروٹوں کی گِریاں تھیں۔ کہانی گو نے کہا۔ ’’کاش ہم اُس خطّے میں ہوتے، جسے لنگر کہتے ہیں۔‘‘ ’’لنگر… وہ کیا ہے؟‘‘ ’’لِنگ، لوک داستانوں میں ایک مثالی اور نیم افسانوی سلطنت ہے۔ اس کا محافظ اور بادشاہ گیسر تھا۔
وہ اپنی تہذیب، اپنی زمین اور اپنی محبت کا سپاہی اور نگران تھا۔ لنگ کی وادی، باغوں کی خوشبو کا ذکر ہمارے لوک گیتوں میں اکثر ہوتا ہے۔‘‘ لڑکی نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’یوٹوپیا…!!‘‘ جواباً حسین چمکتی جِلد والے نوجوان نےاُسے دھیمی آواز میں ایک گیت سنایا، کیوں کہ باقی سب سو رہے تھے۔
’’خوبانی کا پھول گر بھی جائے، تو خوشبو دل میں رہتی ہے، محبّت کبھی گھر چھوڑ کر نہیں جاتی۔‘‘ اُس کی بوڑھی ماں نے آواز دی۔ ’’میرے شہزادے! رات بہت ہوئی، اب سو جاؤ۔‘‘ وہ دیکھ رہی تھی، اُس کا پیارا بیٹا بےگانے شہر سے آئی سیاح لڑکی کی دل جوئی کررہا ہے۔ شاید اُس کے زمانہ ساز دل نے دھیرے سے اپنے بیٹے کے دل میں پنپنے والے احساس کو پڑھ لیا تھا۔