• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

مشہور مِثل ہے ’’ماواں، ٹھنڈیاں چھاواں‘‘ اور میری اس ٹھنڈی چھائوں کا سایہ میرے سر سے ڈھلکے 22؍ سال کا عرصہ بیت چُکا ہے، لیکن ابھی تک امّاں جی کی باتیں، یادیں ذہن کے نہاں خانوں میں سمائی ہوئی ہیں۔ کسی طور بھلائے نہیں بُھولتیں۔ ویسے لفظ ’’امّاں‘‘ بھی کس قدر حکمت سے تخلیق کیا گیا ہے۔ ’’ا‘‘ سے امان، ’’م‘‘ سے مامتا، ’’م‘‘ سے محبّت و الفت اور ’’ن‘‘ سے نگہہ بان۔

میری امّاں رشیدہ خانم (مرحومہ) ایک بہت منفرد عورت تھیں۔ وہ چٹّی اَن پڑھ تھیں، مگر بیاہی ایک ڈاکٹر سے گئیں اور دونوں کی ذہنی ہم آہنگی کمال تھی۔ میرے والد صاحب کی کوٹ غلام محمّد (جیمس آباد) میں بحیثیت میڈیکل آفیسر تقرری کے عرصے کے دوران وہاں ایک کلب تشکیل دیا گیا تاکہ شام کے اوقات میں شہر بھر کی خواتین اور افسران کی بیگمات ایک ساتھ اکٹھی ہو کر لُطف اندوز ہوں۔

مختلف اِن ڈور گیمز بھی ہوتے تھے اور اُن تمام خواتین کی مرکزِ نگاہ (مسز ڈاکٹر خان) میری والدہ (خواتین میں مسز خان کے نام سے معروف تھیں) ہوتی تھیں کہ اُن کی دل چسپ، بذلہ سنجی سے بھرپور باتیں سُن کر وہ سب خوب محظوظ ہوتی تھیں۔ 

میری والدہ دوسروں کی mimickery اتنی خُوب صُورتی اور مہارت سے کرتیں کہ حیرت ہوتی تھیں۔ مزے دار بات یہ کہ اَن پڑھ ہونے کے باوجود انگریزی کے بے شمار الفاظ اتنی مہارت سے بولتیں کہ کوئی گمان بھی نہ کرسکتا کہ اس خاتون نے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی۔ وہ خواتین جب بھی کسی تقریب کا انعقاد کرتیں تو مہمانِ خصوصی میری والدہ ہی ہوتیں۔

والدہ ماجدہ ہر سال ربیع الثانی میں گیارہویں شریف بڑے اہتمام وانصرام سے مناتیں۔ ایک سال، حیدرآباد سینٹرل جیل میں والد کی بحیثیت میڈیکل آفیسر تعیناتی کے دوران متعدّد دیگیں پکوا کر قیدیوں کو بھی بھجوائیں۔ چوں کہ خُود پڑھی لکھی نہیں تھیں تو اُن کی دلی تمنّا تھی کہ اُن کی اولاد زیورِ تعلیم سے ضرور آراستہ و پیراستہ ہو اور اُن کی یہ خواہش اللہ تعالی کے کرم سے یوں پوری ہوئی کہ الحمدُللہ، ایک بیٹا گریجویشن کے بعد ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل، ایک بیٹی ایم اے کرکے ایس ایچ او، دوسری بیٹی ڈی پی ای تعینات ہوئی، جب کہ مَیں نے بی ڈی ایس کر کے ڈینٹل سرجری میں کیریئر بنایا۔ 

میری والدہ بہترین کُک بھی تھیں، اِسٹوو اِس قدر لذیذ بناتی تھیں کہ لوگ فرمائش کرکر کے بنواتے تھے۔ غرضیکہ اپنی والدہ کی کیا کیا باتیں بتائوں، اُن پر تو ایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اُنھیں آخری ایّام میں فالج ہوگیا تھا، برین ہیمریج کی وجہ سے کافی عرصہ غنودگی میں رہیں۔ بالآخر میرے والد سے اپنی رفاقت کی گولڈن جوبلی (54سال) گزار کر اِس جہانِ فانی سے کُوچ کر گئیں۔ اللہ اُنہیں غریقِ رحمت کرے اور اُن کی تمام اُخروی منازل حد درجہ آسان فرمائے، آمین۔ (ڈاکٹر رانا محمّد اطہر رضا، فیصل آباد)

سنڈے میگزین سے مزید